تاریخ مغلیہ کے صوفی منش اور محقق شہزادے کی داستان ... تیسری قسط

تاریخ مغلیہ کے صوفی منش اور محقق شہزادے کی داستان ... تیسری قسط
تاریخ مغلیہ کے صوفی منش اور محقق شہزادے کی داستان ... تیسری قسط

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

خنک رات کی زلف کمر تک پہنچنے لگی تھی ۔’’نہر بہشت‘‘ کے کنارے پر کھڑے ہوئے مرصع جھاڑوں کے اَن گنت طلائی پیالوں میں خوشبو دار تیل جل رہا تھا۔ٹھنڈی سفید روشنی میں دولت خانہ خاص کا مجلّٰی صحن آئینے کی طرح چمک رہا تھا ۔دربار خاص کی سیڑھیوں کے سامنے خواجہ سرا ننگی تلواریں کندھوں پر رکھے پہرہ دے رہے تھے۔
ظلِ سبحانی سفید جامے دار کا سادہ چغہ پہنے ہلکا پٹکا باندھے ،موتیوں سے سفید پاپوش پہنے ٹہل رہے تھے۔سایہ ساتھ ساتھ چل رہا تھا ۔ان کے داہنے ہاتھ میں یکساں قامت وقیمت کے موتیوں کی تسبیح تھی جو گھٹنوں تک درازتھی۔پہلو کے برج میں کوئی کنیز طاؤس بجا رہی تھی جس کی مدہم آواز نے رات کی غنودگی کو نشہ پلا دیا تھا۔پھر دولت خانہ شاہی کی سیڑھیوں پر ہتھیار کھنک اٹھے ۔گرز برداروں کی صف سے دارا شکوہ بابا گزر رہا تھا ۔شہنشاہ نے قبلہ رو ہو کر فاتحہ پڑھا اور تسبیح گردن میں ڈال لی۔دولت خانے کی محراب سے ازبک غلام ریشم وجواہرات میں جگمگاتے باہر نکلے اور سروقد کھڑے ہوگئے ۔
’’تخلیہ!‘‘

تاریخ مغلیہ کے صوفی منش اور محقق شہزادے کی داستان ... دوسری قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
وہ الٹے پیروں واپس ہوئے ۔برج کی موسیقی ختم ہوگئی ۔دور دور تک کے گوشے خدام سے خالی ہوگئے ۔ظلِ سبحانی ٹہلتے ٹہلتے رک گئے ۔دارا کے بازو پر ہاتھ رکھ دیا ۔
’’دار اشکوہ بابا! ہم نے تمہیں وقت خاص میں باریاب کیا کہ رموزِ سلطنت سے آشنا فرمائیں ۔آج دربارِ خاص میں تم نے جس حدت اور شدت کے ساتھ یاتریوں کے محصول کے خلاف تقریر کی وہ ۔۔۔۔‘‘
’’اگر نادانستگی میں کوئی لفظ اعلیٰ حضرت کی شانِ موجودگی کے خلاف نکل گیا ہوتو معافی چاہتا ہوں۔‘‘
اعلیٰ حضرت نے اسے دونوں بازوؤں سے پکڑلیا اور اسی طرح ایک ایک لفظ پر زور دے کر بولے ۔جیسے کوئی شفیق باپ اپنے شریر بیٹے کو سمجھا رہا ہو۔
’’نہیں!تم نے جو کچھ کہا وہ درست تھا ۔لیکن جس جگہ اور جس طرح کہا وہ شانِ دارائی اور آئین سیاست کے خلاف تھا۔تم کو تخت طاؤس پر جلوس کرنا ہے اور اس عظیم الشان سلطنت کا فرمانروا ہونا ہے۔تمہاری ایک جنبش لب ہزاروں لاکھوں جلیل القدر انسانوں کی تقدیر بنا سکتی ہے اور مٹا سکتی ہے ۔اس لئے دارا شکوہ بابا کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ چند آنسوؤں کی گرمی سے پگھل جائے ۔‘‘دارا نے احتیاط سے گردن اٹھائی ۔دونوں ہاتھ سینے پر باندھے اور مضبوط آواز میں بولا ۔
عدلِ جہانگیری اور فضل شاہ جہانی نے غلام کو تعلیم دی ہے کہ ہم کو اپنی رعایا کے ساتھ یکساں سلوک کرنا چاہئے ۔نہ صرف یہ بلکہ ہندوؤں کو اس طرح نوازنا چاہئے کہ وہ یہ بھول جائیں کہ ان کا شہنشاہ مغل ہے،مسلمان ہے۔صدیوں کی محرومی نے انہیں اپنی تاریخ،تہذیب اور علوم سے بیگانہ کردیا ہے ۔ان کا اعتماد اور استقلال تقریباً مر چکا ہے ۔ہماری کوشش ہے کہ ان کو عہد شاہ جہانی کی برکتوں میں برابر کا شریک بنائیں ،شریک غالب بنائیں ۔جو مر رہے ہیں انہیں صحت دیں ۔جو مر چکے ہیں انہیں زندہ کریں ‘‘
شہنشاہ نے اس کے بازو چھوڑ دئیے اور آہستہ آہستہ گردن ہلاتے ہوئے دالان میں گئے۔مطلّٰی محرابوں میں پردے بندھے ہوئے تھے ۔فانوسوں نے سورج کی روشنی چرالی تھی ۔ظلِ سبحانی فیروزے کی چوکی پر مسند لگ کر بیٹھ گئے ۔ہاتھ سے اشارہ کرکے دار کو سنہری کرسی پر بٹھادیا اور مسندگی پشت کودیکھا ۔دارا نے لپک کر پیچوان کی نے پیش کردی۔ظلِ سبحانی نے ایک کش لیا اور آہستہ سے بولے۔
’’بیٹے! جس طرح ہندوستان کی سلطنت روئے زمین کی سب سے بڑی اور دولت مند سلطنت ہے، اسی طرح اس کے مسائل دوسر ی حکومتوں سے بڑے اور لاتعداد ہیں ۔جنت مکانی (اکبر اعظم ) نے پچاس برس تک بڑی دھوم دھام سے سلطنت کی لیکن انہیں کے عہد مبارک میں کابل سے بخار اتک ایسی سختیاں کی گئیں کہ وہ علاقہ جو مغل لشکر کو تازے خون کی طرح سپاہی مہیاکرتا تھا،باغی ہوگیا ۔اب صورت حال یہ ہے کہ ہم اپنی تلوار سے انہیں قابو میں رکھیں ہوئے ہیں ۔ہمارے لشکروں میں وہ اب بھی بھرتی ہوتے ہیں لیکن بہت کم تعداد میں اور پیٹ سے مجبور ہوکر ۔نہ صرف یہ بلکہ کبھی کبھی ہم کو زک دینے کے لیے ہمارے حلقہ بگوش ہو جاتے ہیں ۔طاقتور دشمن کو دشمنی سے نہیں ،دوستی سے شکست دی جاتی ہے۔یہ ان کو بھی معلوم ہوگیا ہے۔اس لئے ہم ان پر بھروسہ نہیں کرسکتے ۔ساری قلم روکا انتظام ان فوجوں کے کاندھے پر ہے جو اسی گرم ملک کے آرام طلب باشندے ہیں اور دربار کا رنگ یہ ہے کہ وہ دیسی اور ولایتی امیروں میں تقسیم ہے۔ولایتی امیر ایرانی اور تورانی کے جھگڑوں میں پڑ کر تخت وتاج کے بجائے اپنے چھوٹے چھوٹے مفادات کے غلام ہوکر رہ گئے ہیں ۔دیسی امیر مذہبی منافرت کے علاوہ جھوٹے تعلقات کی بیڑیوں میں جکڑے پڑے ہیں ۔راجپوتوں کا یہ عالم ہے کہ سودیہ کچھواانکو نہیں برداشت کرسکتا اور سورج بنشی چندر بنشی کو خوش نہیں دیکھ سکتا۔یعنی مغل سلطنت ایک مریض ہے اور شہنشاہ ایک طبیب ،اب یہ بات طبیب کی فراست پر منحصر ہے کہ مریض کتنے دنوں زندہ رہ سکتا ہے ۔تم جس وقت اپنا مقدمہ پیش کر رہے تھے ،اس وقت ہفت ہزاری اور شش ہزاری منصب داروں کے ابرو سر گوشیاں کررہے تھے ۔پیشانیاں مشورے کررہی تھیں اور نگاہیں سازشیں بن رہی تھیں۔ تم اپنی وسیع النظری ،آواز خیالی اور ہندوؤں کی سرپرستی کی بنا ء پر مسلمان امیروں میں نامقبول ہورہے ہو۔مابدولت تمہارے نقطہ نظر کی داد دیتے ہیں لیکن یہ ہماری سیاست تھی کہ مقدمے کی سماعت کے بعد بھی خاموش رہے۔حکم نہیں فرمایا تاکہ دربار کو معلوم رہے کہ اس فیصلے کی طرف تم نے اشارہ کیا ہے۔فیصلہ مابدولت کا ہے۔ تاہم یہ فرمانا بھی مناسب خیال کرتے ہیں کہ اگر داراشکوہ بابا سیاست سے کام لیتے تو محصول بھی معاف ہوجاتا اور ان کا دامن بھی محفوظ رہتا۔یعنی تم ہمارے پاس آتے ،ہم سے اپنی خواہش بیان کرتے اور ہم اپنے طور پر محصول معاف کردیتے ۔‘‘
’’اعلیٰ حضرت!‘‘
’’جانِ پدر ! یہ محصول مغل قلم رو کے بے محابا خزانے کی ایک معمولی سی شق ہے۔اس کی حیثیت اقتصادی نہیں،سیاسی ہے۔مابدولت نہیں چاہتے کہ مذہب کے نام پر لاکھوں کروڑوں انسان کسی ایک مقام پر جمع ہوجائیں او ر ضبط ونظم خطرے میں پڑ جائے اور اس طرح یاتری حکومت کے عتاب کا نشانہ بنیں ۔یعنی طبیب کی نگاہ میں یہ ایک کڑوی دوا ہے جو مریض کی صحت کے لئے ضروری ہے۔ظاہر ہے کہ مریض کے منہ کا خراب مزہ اسے پسند نہیں کرتا اور ہٹا دیئے جانے کی گزارش کرتا ہے ۔ہم اپنی رعایا سے جو محصول لیتے ہیں وہ سارے عالم میں رائج لگان کی شرح سے کہیں کم ہے ۔۔ہم اپنی رعایا پر جو بخشش فرماتے ہیں ،وہ سارے عالم میں بے مثال ہے۔تاہم مابدولت کو تمہاری دل آرائی عزیز ہے۔ 
محصول معاف کیا گیا۔‘‘
دارا شکر گزاری کے آداب کے لئے کھڑا ہو گیا ۔تسلیمات کے بعد گزارش کی ۔
’’ظلِ سبحانی کے الطاف نے اس غلام کو جو اعتبار وافتخار بخشا ہے ،زبان اس کے بیان سے قاصر ہے ۔‘‘
دارا ہاتھ باندھے کھڑا تھا ۔شہنشاہ نے تالی بجائی ۔گرز برداروں کی ایک صف سامنے آکر کھڑی ہوئی ۔دارا نے سلام کیا اور الٹے قدموں باہر نکلا۔گرزبرداردوقطاروں میں تقسیم ہوکر اس کے دائیں بائیں چلنے لگے۔(جاری ہے )

تاریخ مغلیہ کے صوفی منش اور محقق شہزادے کی داستان ... چوتھی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں