تازہ ہَوا بہار کی
کیوں ہوتا ہے کہ جوں جوں بہار اپنے قدم بڑھاتی ہے۔ ویسے ویسے دِل کے آنگن میں خزاں اُترتی محسوس ہوتی ہے۔گزشتہ چار دہائیوں سے کرب اور جبر نے ہمارے معاشرے کو ایسا بوجھل کر دیا ہے کہ اب آئی بہار اور اس کی ہَوا کو مہمیز دیتے ہوئے خوشبوئے گل سے جسم میں خوف سرایت کرتا ہے۔ صبح سویرے لاہور کے قدیم اور عوام کے لئے ایک سبیل رحمت ڈی مونٹی مورنسی ہسپتال میں جانا ہوا۔
یہ ہسپتال لاہور میں ایک ماہر دندان فرانسیسی نے قائم کیا تھا۔ انگریز نے ایک سو برس ہم پر حکومت کی،لیکن اس کے علاوہ لاہور میں کوئی دوسرا دانتوں کا ہسپتال قائم نہیں کیا، اِسی ہسپتال کو آج کل گورنمنٹ پنجاب ڈینٹل ہسپتال کا نام دے دیا گیا ہے، جسے نہ پنجاب حکومت نے قائم کیا تھا اور نہ ہی اسے وسعت دی گئی ہے۔ میو ہسپتال، گنگا رام اور گلاب دیوی تو اپنے ناموں کے ساتھ موجود ہیں، لیکن ایک فرانسیسی کا نام اس کے ہسپتال سے خارج کر دیا گیا ہے۔
طبی سہولتوں کے حوالے سے ہی نہیں،بلکہ انتظامی حوالے سے بھی یہ ایک مثالی ادارہ ہے۔ جو بچیاں یہاں پڑھ رہی ہیں اور جو کام کر رہی ہیں،یعنی ڈینٹسٹ بن چکی ہیں،ان کا مریضوں کے ساتھ رویہ دوسرے ہسپتالوں کی نسبت شمال جنوب کے فرق کا ہے۔نرم گفتار، اپنے کام میں پوری دلچسپی اور مریضوں کی دیکھ بھال،دیانتدارانہ ترتیب کے ساتھ، ماسوائے عمر رسیدہ لوگوں کے جنہیں وہ ترجیح دیتی ہیں۔
ہسپتال میں طالب علم بسنت میلہ لگائے ہوئے تھے۔ کچھ پشتون نوجوان بسنت رنگ دوپٹہ نما پٹکے گلوں میں پہنے غبارے اور اشیاء آویزاں کر رہے تھے، لڑکیاں بھی بسنت رنگوں میں رنگی ہوئی تھیں۔ ڈیک پر ’’دِل ہوا بو کاٹا‘‘ گیت چل رہا تھا، دِل باغ باغ ہو گیا۔
ایک تعلیمی ادارے میں، جس کی تعلیم ہر مریض کے ساتھ اُن کے رویے میں نظر آ رہی تھی،بجھے چہروں پر مسرت و انبساط کے ساتھ اپنے پروگرام کی تیاری میں مصروف تھے، مجھے ضیاء الحق دور کے وہ کربناک لمحے یاد آ گئے جب لٹھ بردار شلوار کے نیفے میں پستول لئے ہر تعلیمی ادارے میں دندناتے تھے، تعلیمی اداروں کو بھی اذیت کدے بنا دیا گیا تھا۔مجھے آج بھی یاد ہے ایک مرتبہ گورنمنٹ کالج لاہور کے پرنسپل اور ہماری تعلیمی تاریخ کے مایہ ناز استاد پروفیسر اشفاق علی خان کی آنکھوں میں مَیں نے آنسو دیکھے۔
ایک غیر ملکی یونیورسٹی کے کیمپس کی تصویر اُن کے سامنے تھی، جہاں پھولوں جیسے رنگوں میں لڑکے اور لڑکیاں خوش گپیاں کرتے اور بھاگتے دوڑتے نظر آ رہے تھے۔انہوں نے مجھ سے کہا مَیں ایسی ہی شگفتہ تصویر اپنے کسی تعلیمی ادارے کی بھی دیکھنا چاہتا ہوں۔پروفیسرصاحب اور فیض احمد فیض کے درمیان دوستی تھی اور دونوں ایک دوسرے کا بے حد احترام کرتے تھے۔
اس بسنت میلے نے مجھے کچھ لمحوں کے لئے آسودہ کر دیا،لیکن یہ جان کر مجھے انتہائی دُکھ ہوا کہ ڈینٹل کالج کی کینٹین پر دو کینو پر مشتمل چند گھونٹوں کے رس کا گلاس80روپے میں فروخت کیا جا رہا ہے۔قیمت بھی زیادہ اور رس کم ،پھر مجھے ’’ڈان‘‘ اخبار کے طارق یاد آئے کہ ان کے گھر میں جو شاید تین بیڈ روم کا گھر ہے، ڈیڑھ لاکھ روپے کا بجلی کا بِل آیا ہے۔
میرے گھر میں گزشتہ سات ماہ سے بِل نہیں آیا ۔اب ایک لاکھ 70ہزار روپے کا بِل آ گیا۔ لیسکو نے سات ماہ کے تمام یونٹ اکٹھے کر کے ان پر آخری فی یونٹ کی قیمت ڈال دی،یہی کچھ ’’ڈان‘‘ کے طارق کے ساتھ ہوا۔ تازہ ہَوا بہار کی؟
اور آخر میں نذیر قیصر کی نظم
ہَوا رستہ نہ روکے تو کہاں جاؤں
اگر دہلیز سے باہر قدم رکھوں
لہو میں بھیگتی ایڑی
اپنے ماتھے پر موسم کی کہانی ثبت کرتی ہے
کٹے بازو درختوں سے جدا شاخوں کی صورت
آنگنوں میں پھڑ پھڑاتے ہیں
گھر وں میں قحط کی پرچھائیاں
جسموں کا ماتم ہیں
گلی میں تیغ بے اولاد کرتی ہے
ہَوا رستہ نہ روکے تو کہاں جاؤں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور اب سوئی گیس کے بل کا دھڑکا لگا ہے