وزیرا عظم کا دورۂ دبئی اور آئی ایم ایف کی سربراہ سے ملاقات
وزیر اعظم عمران خان کامیاب دورۂ دبئی کرکے وطن واپس لوٹے ہیں جہاں ان کی ملاقات آئی ایم ایف کی مینجنگ ڈائریکٹر کرسٹین لیگارڈ سے ملاقات کی۔ اس دورے میں انہوں نے کھل کر اپنے مافی الضمیر کا اظہار کیا اور وہاں منعقدہ ورلڈ گورنمنٹ سمٹ میں پاکستان میں سرمایہ کاری کے حوالے سے اپنی حکومت کے عزائم پر کھل کر بات کی۔
وزیراعظم عمران خان نے ورلڈ گورنمنٹ سمٹ میں خطاب کرتے ہوئے تصدیق کی ہے کہ وہ پاکستان میں معاشی اصلاحات کررہے ہیں جو اگرچہ مشکل ہیں لیکن ضروری ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ پاکستان کو بہت اوپر لے جانا چاہتے ہیں ۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان میں سرمایہ کاری کا بہترین وقت ہے، سرمایہ کاروں کو یہ موقع ضائع نہیں کرنا چاہئے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ معاشی اصلاحات کے عمل سے کم آمدنی والے طبقے کو تحفظ ملے گا۔
سابق حکومت نے ملکی تاریخ میں سب سے بڑا پیکیج لے کر آئی ایم ایف کو موقع دیا کہ وہ پاکستان کی معاشی پالیسیوں کو قرضوں کا محتاج بنا دے۔ دنیا میں بہت سے ممالک ہیں جو مالیاتی خسارہ پورا کرنے کے لیے آئی ایم ایف سے مدد لیتے ہیں۔ اس مالیاتی مدد کی وجہ حکومت کی پالیسیوں میں تبدیلی کے باعث مالیات پر پڑنے والے بوجھ کو کم کرنا ہوتا ہے۔ پاکستان میں بدقسمتی سے ایسے حکمران آتے رہے جو ملک کی عمومی معاشی حالت کو بہتر کرنے کی بجائے وقتی سہولت کو اہم قرار دیتے رہے۔ آئی ایم ایف سے ہم اس لیے قرض لیتے ہیں تاکہ پہلے والے قرض واپس کرسکیں۔ قرض کی یہ رقوم سابق حکومت نے میگا ٹرانسپورٹ منصوبوں پر خرچ کیں جو خود حکومتی سبسڈی کے بغیر چالو نہیں رہ سکتے تھے۔ اس رقم کو نئے پیداواری یونٹ قائم کرنے اور ٹیکنالوجی درآمد کرنے پر خرچ کیا جاتا تو نہ صرف روزگار پیدا ہوتا بلکہ ان قرضوں کی واپسی کا انتظام بھی کرلیا جاتا۔
عمران خان کو حکومت بنانے کا موقع ملا تو سب سے بڑا چیلنج ملک کے روزمرہ اخراجات پورے کرنا اور ادائیگیوں کے توازن کو بہتر بنانا تھا۔ حکومت کو قومی خزانہ کی بری حالت کا اندازہ ہوا تو متبادل ذرائع سے رجوع کا سوچا جانے لگا۔ آئی ایم ایف سے رجوع ضروری سمجھا گیا۔ اس موقع پر حکومت نے دوست ممالک سے امداد کی درخواست کرنے کا فیصلہ کیا۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور چین کی جانب سے الگ الگ پیکیج کا اعلان کیا گیا۔ ان کی مدد سے پاکستان فوری طور پر کسی مالیاتی خطرے سے محفوظ ہو گیا مگر معیشت کو نئے چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے جن وسائل کی ضرورت ہے وہ صرف آئی ایم ایف سے حاصل ہوسکتے تھے۔ دوست ممالک کی مدد نے اتنا ضرور کیا کہ آئی ایم ایف پاکستان کو پہلے جن شرائط پر قرضہ دے سکتا تھا اب ان میں لچک آئی ہے۔ آئی ایم ایف قرض دیتے وقت کسی ملک کی ضرورت کے حجم اور شدت کو پیش نظر رکھتا ہے۔ پاکستان نے اس ضرورت کی شدت میں کمی کر کے عالمی ادارے سے بات چیت کا ماحول اپنے حق میں کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت نے حالت مجبوری میں آئی ایم ایف کے پاس جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان خود کہہ رہے ہیں کہ غریب افراد کو معاشی تحفظ فراہم کرنے کے معاملے پر ان کے اور کرسٹین لیگارڈ کے خیالات ایک دوسرے سے موافق ہیں۔ پاکستان آئی ایم ایف سے چھ ارب ڈالر وصول کرنے سے پہلے جن سٹرکچرل اصلاحات اور اہم مالیاتی فیصلوں کا ارادہ رکھتا ہے اس سے غریب پاکستانیوں کی زندگی متاثر ہونے کا امکان ہے۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ ہم قرض لے لیں اور اس کی واپسی کا انتظام ایک بار پھر نہ ہوسکے۔ حکومت برآمدات بڑھا کر، پیداواری شعبہ کی حوصلہ افزائی کر کے اور تجارت میں شراکت دار ممالک سے بات چیت کرکے اس بیل آؤٹ پیکیج کے استعمال کو مفید بنا سکتی ہے۔
اس میں شک نہیں کہ پاکستان کی زبوں حال معیشت کی بحالی کیلئے دوست ملکوں سے حکومت کو ایک اور کامیابی ملی ہے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق دبئی میں وزیراعظم عمران خان اور آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹین لیگارڈ کے درمیان ملاقات میں پاکستان کے لئے تقریباً6ارب ڈالر کے معاشی پیکیج پر اتفاق رائے ہو گیاہے۔ تاہم تکنیکی تفصیلات ابھی طے ہونا باقی ہیں۔ تادم تحریر عمومی تاثر یہی ہے کہ فریقین بنیادی نکات پر متفق ہو گئے ہیں اور اپریل تک پیکیج کی شرائط کو حتمی شکل دیئے جانے کی توقع ہے ۔یہ بیل آؤٹ پیکیج اگلے مالی سال کے بجٹ کا حصہ ہو گاجس کئی ماہ سے مذاکرات جاری تھے۔
وفاقی وزیر خزانہ تسلسل کے ساتھ کہتے رہے ہیں کہ آئی ایم ایف جو شرائط منوانا چاہتا تھا وہ پاکستان کیلئے قابل قبول نہیں تھیں ۔ گزشتہ چھے ماہ سے بے یقینی کا راج تھا۔ آئی ایم ایف کے ماہرین پاکستان میں معاشی اصلاحات چاہتے تھے جن کے نتیجے میں عوام پر بوجھ پڑنا فطری امر تھا۔ تاہم اعلیٰ ترین سطح سے مداخلت کے نتیجے میں فریقین میں وسیع البنیاد مفاہمت ہو گئی اور وزیراعظم عمران خان اور آئی ایم ایف کی سربراہ کے درمیان بات چیت کے بعد اعلان کیا گیا کہ پاکستان اور آئی ایم ایف معاشی اصلاحات پر متفق ہو گئے ہیں۔ آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر نے کہا کہ پاکستانی معیشت میں استحکام، معاشی اصلاحات اور فیصلہ کن پالیسیوں سے آئے گا، ہم پاکستان کی مدد کیلئے تیار ہیں۔ بہتر گورننس اور غریب کا معیارِ زندگی بلند کرنے کیلئے مضبوط مالیاتی پیکیج ضروری ہے۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ پاکستان کی حکومت درست سمت میں معاشی اقدامات کر رہی ہے۔ بیل آؤٹ پیکیج کیلئے پاکستان نے آئی ایم ایف سے کیا مراعات حاصل کیں اور کون سی شرائط میں اسے نرمی پرآمادہ کیا اس حوالے سے زیادہ تفصیلات سامنے نہیں آئیں، تاہم سینئر حکام اور ماہرین نے اپنی معلومات کی بنا پر بتایا ہے کہ پاکستان نے آئی ایم ایف کو یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ اپنی معیشت میں اسڑکچرل اصلاحات لائے گا۔
اخباری اطلاعات کے مطابق ریونیو اکٹھا کرنے کا ہدف بھی وہی طے کرے گا جو موجودہ سال کے 4.39کھرب کے مقابلے میں 4.7کھرب روپے ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ اس کی لازمی شرائط میں تیل، بجلی اور گیس کے نرخوں میں ردو بدل، ٹیکس نیٹ میں توسیع، سرکاری سیکٹر کے اداروں کے خسارے میں کمی لانا، اسٹیٹ بینک کو مزید خود مختاری دینا، ڈالر کے مقابلے میں روپے کی شرح مارکیٹ ریٹس کی شرح کے مطابق بنانا اور وسیع البنیاد اسٹرکچرل ریفارمز شامل ہیں۔ یہ بھی طے ہے کہ معاہدے کی تفصیلات حتمی شکل دینے سے قبل عوام کے سامنے نہیں لائی جائیں گی۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ آئندہ بجٹ میں زیادہ تر معاشی اقدامات آئی ایم ایف کے مطالبات پر مبنی ہوں گے۔ بجلی اور گیس مزید مہنگی ہو گی اور ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قیمت مزید کم کی جائے گی۔ آگے چل کر آئی ایم ایف پیکیج کے بہتر نتائج برآمد ہو سکتے ہیں مگر فوری طورپر مہنگائی میں اضافہ ہو گا جو پہلے ہی کافی بڑھ چکی ہے۔ مجموعی طور پر اس قرضے کے منفی اثرات کا بوجھ عوام ہی کو برداشت کرنا ہو گا۔ بنا بریں آئی ایم ایف بیل آؤٹ پیکیج کو معیشت کی بہتری کیلئے بروئے کار لانے کی خاطر زیادہ دوررس اقدامات کرنا ہوں گے۔ قرضے بڑھانے کے جو الزامات حکومت ماضی کے حکمرانوں پر لگا رہی ہے وہ پہلے ہی خود اس پر لگنا شروع ہو چکے ہیں اس لئے اسے بہتر معاشی حکمت عملی کے تحت آگے بڑھنا ہوگا۔
آئی ایم ایف کا بیل آؤٹ پیکیج اپریل 2019ء تک حتمی منظوری حاصل کرسکتا ہے۔ آئی ایم ایف سے مذاکرات سے باخبر حلقوں کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف نے پیکیج کو بعض اصلاحاتی مطالبات کے ساتھ مشروط کیا ہے۔ حکومت نے اگلے سال کے لیے ٹیکس جمع کرنے کا ہدف 4.39 کھرب مقرر کر رکھا ہے۔ آئی ایم ایف اسے 4.7 کھرب روپے تک لانا چاہتا ہے۔ آئی ایم ایف مرکزی بینک کے پالیسی ریٹ، ایکسچینج ریٹ اور روپے کی قدر میں کمی میں بھی دلچسپی دکھا رہا ہے۔ آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ بجٹ خسارے کو کسی حد تک بجلی اور گیس کے نرخ بڑھا کر پورا کیا جائے۔ سرکاری اداروں میں خسارے کی شرح کم کی جائے، سٹیٹ بینک کو مزید خود مختاری دی جائے، کرنسی کی شرح تبادلہ کو مارکیٹ کی طلب و رسد پر چھوڑ دیا جائے اور سٹرکچرل اصلاحات کو آئندہ مذاکرات میں شامل کیا جائے۔ پاکستان میں آئی ایم ایف کو ایک ایسے لالچی، بے رحم اور سود خور کی صورت میں دیکھا جاتا ہے جو اپنی رقم پوری کرنے کے لیے قرض خواہ کا گھر بار اور برتن تک بیچ ڈالتا ہے۔ آئی ایم ایف کی ایسی شناخت بنانے میں ان سیاستدانوں کا حصہ سب سے زیادہ ہے جو اقتدار میں آ کر عوام کی زندگی بدلنے کے سینکڑے فارمولے جیب میں رکھے ہوتے ہیں۔ ان کے مخالف حکومت میں ہوں تو یہ آئی ایم ایف سے رجوع کرنے پر شدید تنقید کرتے ہیں اور خود اقتدار میں ہوں تو عالمی مالیاتی ادارے سے لین دین کے تعلق کو مالیاتی سکیورٹی کے لیے لازم قرار دیتے ہیں۔ اس طرز عمل کے اثرات عوامی رائے پر مرتب ہوتے ہیں۔ یوں آئی ایم ایف کے ساتھ منفی شناخت چپک گئی۔
جہاں تک بیرونی سرمایہ کاری کا تعلق ہے تو حکومت کو ذہن میں رکھنا چاہئے کہ غیر ملکی سرمایہ کاراس کی مٹھی میں نہیں۔ وطن عزیز میں کاروباری آسانیوں کے حوالے سے عالمی بینک کی تازہ رپورٹ قابل غور ہے۔ کاروبارسے جڑ ے مختلف معاملات جیسا کہ بجلی کے کنکشن‘بین الاقوامی تجارت کے مواقع‘ قرضوں کاحصول‘ ٹیکس کے نظام‘ معاہدوں کا عدالتوں کے ذریعے نفاذ‘ عمارتوں کی تعمیر میں آسانیاں یا پیچیدگیاں اور لیبر کے استعمال جیسے کئی معاملات کا تجزیہ کرتے ہوئے ورلڈ بینک گروپ دنیا کے 190 ممالک میں کاروبار کرنے کی فضاکاجائزہ لیتا ہے‘ جس کی بنیاد کاروباری آسانی یا دقت کے حوالے سے ان ممالک کی درجہ بندی کی جاتی ہے۔ ورلڈ بینک کی2019ء کی ’ڈوئنگ بزنس ‘ رپورٹ میں ہمارے ملک کا رینک 190میں سے 136 ہے۔ اس رینکنگ میں یوگنڈا‘ فلسطین‘ سری لنکا‘ بھوٹان اور افریقہ کے کئی ممالک بھی ہم سے بہتر پائے گئے ہیں۔’ڈوئنگ بزنس2019ء‘ فہرست میں بھارت 77ویں نمبر پر ہے۔ جناب وزیر اعظم کی کاروباری حلقوں کی اعتماد سازی اور انہیں اپنے ملک کی جانب راغب کرنے کی کوشش بجا‘ مگر مشکل یہ ہے کہ جب تک ہماری حکومتیں کاروباری آسانیوں کی خاطر کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کرتیں ‘ شکایات کا ازالہ نہیں کیا جاتا اور اور عالمی رینکنگ میں ہمارے درجے میں نمایاں بہتری نہیں آتی تو ہم بے شک عالمی فورمز پر اپنے ملک میں کاروباری آسانیوں کے جتنے مرضی قصیدے پڑھتے رہیں‘ کون اعتبار کرے گا۔اس لیے ہمیں پائیدار صنعتی اور معاشی ترقی یقینی بنانے کے لیے نئی بنیاد رکھنے کی ضرورت ہے۔صرف دعووں سے نہیں عملی اقدامات کے ساتھ دنیا کو باور کروانا ہو گا کہ پاکستان واقعی سرمائے کے پنپنے کے بہترین مواقع فراہم کرنے والا ملک ہے‘ تاہم ابھی بہت سی اصلاحات کی ضرورت ہے‘جس کے بعد پاکستان کا وزیر اعظم اگر دنیا سے یہ کہے گا کہ یہاں آئیں‘ پیسہ بنانے کے مواقع سے فائدہ اٹھائیں تو سرمایہ کار ہمارے وزیر اعظم کی بات پر صدقِ دل یقین کریں گے۔ آج 190 میں سے 136ویں درجے پر رہتے ہوئے ہم دعویٰ کرتے ہیں تو سننے والے اتفاق نہیں کرتے کیونکہ جب وہ دیکھتے ہیں کہ یہاں رشوت ستانی عام ہے ۔بجلی ‘ گیس ‘ پانی کا بحران سال بھر برقرار رہتا ہے‘ بیورو کریسی کی رکاوٹیں اپنی جگہ ہیں ‘ بدعنوانی کا چلن عام ہے‘ جان مال اور سرمائے کا تحفظ نہیں۔ یقینی طور پر یہ وہ ایریاز ہیں جن پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
سرخیاں
آئی ایم ایف کا بیل آؤٹ پیکیج اپریل 2019ء تک حتمی منظوری حاصل کرسکتا ہے
پاکستان اور آئی ایم ایف معاشی اصلاحات پر متفق ہو گئے ہیں
ڈوئنگ بزنس رپورٹ میں پاکستان 190میں سے 136 ویں نمبر پر ہے
تصاویر
وزیر اعظم عمران خان دبئی میں خطاب کرتے ہوئے
وزیر اعظم عمران خان آئی ایم ایف کی سربراہ سے ملاقات کرتے ہوئے
وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر