سپریم کورٹ کا چھ ماہ میں سرکلرریلوے بحال کرنے کاحکم،قائد اعظم بھی سوچ رہے ہوں گے کہ ملک میں کیا ہورہا ہے، چیف جسٹس
کراچی(ڈیلی پاکستان آن لائن)سپریم کورٹ نے چھ ماہ میں سرکلر ریلوے بحال کرنے کا حکم سنادیا۔عدالت نے اس حوالے سے صوبائی اور وفاقی حکومتوں کوفوری جواب داخل کروانے کی ہدایت بھی کی ہے۔چیف جسٹس نے کہا وزیراعظم اور وزیراعلیٰ سندھ کو بھی طلب کرلیتے ہیں۔سمجھ لیں وزیراعظم اور وزیراعلیٰ سندھ کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کریں گے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ قائد اعظم بھی سوچ رہے ہوں گے کہ ملک میں کیا ہورہا ہے۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں غیرقانونی تعمیرات کیس کی سماعت ہوئی جس میں ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے سرکلرریلوے بحالی پلان عدالت پیش کیا۔ ایڈووکیٹ جنرل نے کہا سرکلرریلوے کے تمام سٹیشنزکوبسوں سے منسلک کردیاجائےگا۔ اس موقع پر سیکرٹری ریلوے کا کہنا تھا کہ آپ کی ہدایت کے مطابق روزانہ کی بنیاد پرکام شروع کردیا جس پر عدالت نے کہا کہ اس سے پہلے کیا کر رہے تھے؟چاہیں توآپ کوابھی جیل بھیج دیں،روزانہ خواب دکھا رہے ہیں، نہیں کریں گے آپ کام؟آپ اہل ہی نہیں، ہمیں معلوم ہے آپ منصوبہ نہیں چلائیں گے۔
چیف جسٹس نے کہاکیا افسری کررہے ہیں،یہ ویژن ہے آپ کا؟روزانہ نئے بہانے لے آتے ہیں۔کمروں میں آرام سے بیٹھے ہوتے ہیں،بچوں کی طرح کام چل رہے ہیں، آپ کو کراچی کے لوگوں کی پریشانیوں کا اندازہ ہی نہیں۔کراچی کی حیثیت کا بھی آپ کو معلوم نہیں۔
سیکرٹری ریلوے نے کہا کہ ہم سرکلر ریلوے چلا دیں گے ۔ جبکہ ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ سرکلرریلوے کے 24 گیٹس بحال کرنامشکل ہے۔ اس پر عدالت نے کہاکہ اس سے پہلے آپ کہاں تھے اور اب تک کیا کرتے رہے؟۔آپ لوگ چاہتے ہی نہیں، کہانیاں لکھ کر لے آتے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا تجاوزت ہٹائی جائیں تو لوگ بندوقیں اور توپیں لے کر آجاتے ہیں، اخباروں میں آرہا ہے کہ ہم کوئی نیا ماسٹر پلان لارہے ہیں۔ہم نے تو کبھی ایسا نہیں کہا کہ نیا ماسٹر پلان لارہے ہیں۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آپ کے منسٹرز عدالت میں کچھ اور کہتے ہیں اور باہر جا کرکچھ اورکہتے ہیں۔سب تھوڑے تھوڑے موقف بدل کر آجاتے ہیں۔سما نیوز کے مطابق انہوں نے صوبائی حکومتی نمائندے سے کہامنہ اٹھاکرآگئے ہیں آپ کو پتہ ہے اس کے کیا نتائج ہوسکتے ہیں؟۔اگلی پیشی پر آپ نیا نقشہ اٹھاکر آجائیں گے۔
چیف جسٹس نے کہاآپ لوگ بیس سال سے حکومت میں ہیں کیا کررہے ہیں؟جب الیکشن مہم چلارہے تھے اس وقت نہیں سوچا تھا کہ کیا کہہ رہے ہیں؟انہوں نے کہاقائد اعظم بھی سوچ رہے ہوں گے کہ ملک میں کیا ہورہا ہے۔سپریم کورٹ کے کہنے سے قبل آپ کی حکومت کیا کررہی تھی؟
گیلانی اسٹیشن پر تو بڑی سی عمارت بنا دی گئی ہے۔
چیف جسٹس نے کہانارتھ ناظم آباد میں سخی حسن قبرستان گئے ، ٹوٹی سڑکیں ، مٹی دھول یہ تو شہر کا پوش علاقہ تھا آپ نے شہر کے بہترین علاقوں کو کچی آبادی میں تقسیم کردیا ہے۔دس سال میں اس جگہ کی حالت بدل دی گئی ہے۔جسٹس فیصل عرب نے استفسار کیا کہ کہاقیمتی زمینیں نیلام کیوں نہیں کرتے؟۔
عدالت کا کہنا تھا کہ آپ کے تو تھانے اورڈاکخانے بھی کرائے پر ہیں۔ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے بتایا کہ ہم نئی بسیں متعارف کروارہے ہیں جس پر عدالت نے کہا نئے منصوبے میں پتہ نہیں کس کی رال ٹپک رہی ہوگی۔
دوران سماعت پی ٹی آئی رہنما فردوس شمیم نقوی بھی عدالت میں پیش ہوئے جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کون ہیں؟فردوس شمیم نقوی نے جواب دیا کہ وہ تحریک انصاف کے رکن اسمبلی ہیں اور عوام کی نمائندگی کرنا چاہتے ہیں۔چیف جسٹس نے فردوس شمیم نقوی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا آپ تو حکومت میں ہیں جس پر فردوس شمیم نے کہا ہم وفاقی حکومت میں ہیں ، یہ سندھ حکومت کامعاملہ ہے۔اس پرجسٹس سجاد علی شاہ نے فردوس نقوی سے کہا کہ یہ منصوبہ بھی تو وفاقی حکومت کا ہے،آپ اپنے خلاف خود رونے آئے ہیں؟چیف جسٹس نے کہایہ اسمبلی نہیں ،آپ ان سے ملاقات کرکے معلومات لے لیں۔ جبکہ چیف جسٹس گلزاراحمد نے فردوس شمیم نقوی کومزید بولنے سے بھی روک دیا۔