’فروغ نسیم اور شہزاد اکبر نے اٹارنی جنرل کے ساتھ ہاتھ کیا‘ انور منصور خان کے استعفیٰ کی اصل وجہ سامنے آگئی
لاہور(سعید چودھری)سابق اٹارنی جنرل مخدوم علی خان نے اٹارنی جنرل پاکستان کے عہدے کیلئے وزیراعظم عمران خان کی پیش کش قبول کرنے سے معذرت کرلی اوراپنی جگہ اس عہدہ کے لئے بیرسٹر خالد جاوید خان کا نام تجویز کردیا جبکہ وزیرقانون فروغ نسیم کی طرف سے خالد جاوید خان کی بطور اٹارنی جنرل تعیناتی کی مخالفت کی اطلاعات ہیں،انورمنصور خان کے اٹارنی جنرل کے عہدہ سے استعفیٰ کی وجہ بھی قاضی فائز عیسیٰ کیس میں دیئے گئے بیان سے وزیرقانون فروغ نسیم کاپیچھے ہٹ جانا بتایا جارہاہے ۔
ذمہ دار ذرائع کے مطابق سابق اٹارنی جنرل انور منصور خان نے قاضی فائز عیسیٰ کیس کی سماعت کرنے والے فاضل بنچ کے ارکان کے حوالے سے عدالت میں بیان دینے سے قبل فروغ نسیم اور وزیراعظم کے معاون خصوصی شہزاد اکبر سے مشاورت کی تھی ،بعد میں فروغ نسیم اور حکومت کی طرف سے اس بیان سے لاتعلقی کا اظہار کردیا گیا ۔
ذرائع کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے اٹارنی جنرل کا عہدہ قبول کرنے کی بابت سابق اٹارنی جنرل مخدوم علی خان سے رابطہ کیا تو مخدوم علی خان نے یہ عہدہ قبول کرنے سے معذرت کرلی اوروزیراعظم کے استفسار پر اس عہدہ کے لئے خالد جاوید خان کا نام پیش کیا، وزیراعظم نے یہ نام قبول کرکے وزارت قانون کو اس سلسلے میں سمری تیار کرکے بھجوانے کی ہدایت کردی ۔
پیپلز پارٹی کے رہنما پروفیسراین ڈی خان کے صاحبزادے خالد جاوید خان وزیرقانون فروغ نسیم کی گڈ بکس میں نہیں ہیں،خالد جاوید خان نگران حکومت کے دور میں 21جون 2018ءسے 17اگست2018ءتک اٹارنی جنرل پاکستان بھی رہ چکے ہیں،ذرائع کے مطابق وزیر قانون اس عہدہ پر خالد جاوید خان کے تقرر کے مخالف ہیں ۔
ایک وفاقی وزیر نے روزنامہ پاکستان کو بتایا کہ وزیراعظم ہاﺅس کی طرف سے دو مرتبہ خالد جاوید خان کی بطور اٹارنی جنرل تقرری کی سمری بھجوانے کے لئے وزارت قانون کو ہدایت جاری کی گئی ،اس کے باجود فروغ نسیم اٹارنی جنرل کے عہدہ پرخالد جاوید خان کی تقرری کی سخت مخالفت کررہے ہیں ۔
دوسری طرف ذرائع کا کہناہے کہ انور منصور خان نے 18فروری کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس کی سماعت کرنے والے فاضل بنچ کے بعض ارکا ن کے بارے میں نازیبا بیان دیا تھا، اس وقت فروغ نسیم اور شہزاداکبر عدالت میں موجود تھے ،19فروری کوسپریم کورٹ کے اس بنچ نے اٹارنی جنرل سے 18فروری کے بیان کی بابت ثبوت طلب کرلئے ،بصورت دیگر انہیں تحریری معافی مانگنے کے لئے کہاگیا۔
20فروری کو صبح 11سے دوپہر 12بجے کے درمیان وزارت قانون کی طرف سے اٹارنی جنرل انورمنصور خان کو بتایا گیا کہ سب ٹھیک ہے ،اسی دوران اٹارنی جنرل انور منصور خان کو اطلاع ملی کہ وزیراعظم نیااٹارنی جنرل لانے کے لئے اقدامات کررہے ہیں اور وزیرقانون فروغ نسیم سپریم کورٹ میں دیئے گئے اٹارنی جنرل کے بیان کے حوالے سے پیچھے ہٹ گئے ہیں ،جس کے بعد اٹارنی جنرل نے اپنا استعفیٰ ٹائپ کروالیا ،دوپہر ایک یا ڈیڑھ بجے کے قریب کچھ لاءافسر وزارت قانون کی سب ٹھیک ہے کی رپورٹ کی بنیاد پر اٹارنی جنرل سے ملنے گئے تو وہاں ماحول بدلاہواتھا،انور منصور خان نے ان کے سامنے اپنا استعفیٰ رکھ دیا،جب ان سے پوچھا گیا وہ ایسا کیوں کررہے ہیں تو انہوں نے صرف اتنا کہا کہ بس استعفیٰ دے رہاہوں۔
پاکستان بار کونسل نے سپریم کورٹ کے فاضل بنچ کے ارکان کے حوالے سے عدالت میں بیان دینے پر انورمنصور خان اور وزیرقانون فروغ نسیم کے خلاف توہین عدالت کی درخواست بھی دائر کررکھی ہے ،پاکستان بارکونسل کے وائس چیئرمین عابد ساقی کا کہنا ہے کہ انور منصور خان نے فاضل بنچ کے بعض ارکان پر جانبداری اورپٹیشن کی تیاری کے حوالے سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی معاونت کرنے کاالزام لگایا،ہم نے عدالت سے اس الزام اور اس کے پس پردہ عوامل کی انکوائری کی استدعا بھی کی ہے ۔