ضمنی انتخابات، حکومت اور الیکشن کمیشن کے لئے خطرے کی گھنٹی

ضمنی انتخابات، حکومت اور الیکشن کمیشن کے لئے خطرے کی گھنٹی
ضمنی انتخابات، حکومت اور الیکشن کمیشن کے لئے خطرے کی گھنٹی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


ضمنی انتخابات دو جانیں لے کر اختتام پذیر ہو گئے، مگر اپنے پیچھے کئی سوالات بھی چھوڑ گئے۔ الیکشن کمیشن کی اہلیت پولیس اور انتظامیہ کی کارکردگی، سیاسی جماعتوں کی جمہوریت پسندی اور عوام کی سیاسی تربیت کے بارے میں سوالات۔ این اے 75ڈسکہ کے نتائج کو جس طرح آخر وقت پر تاخیر کا شکار کیا گیا، اس نے ایک بار پھر ایک تنازعہ کھڑا کر دیا۔ جہاں تک ان انتخابات کے نتائج کا تعلق ہے تو وہ حکومت کے حق میں کچھ اچھے نہیں نکلے۔ پنجاب کی دو نشستیں تو مسلم لیگ (ن) کی چھوڑی ہوئی تھیں، مگر نوشہرہ کی نشست پر تحریک انصاف کے امیدوار کو شکست حکومت کے خلاف ایک واضح تبدیلی کا اشارہ ہے، جو عوام میں مچل رہی ہے۔ اس سے پہلے سندھ میں بھی ضمنی انتخابات تحریک انصاف کی عدم مقبولیت کا نقارہ بجا گئے۔ یوں تین صوبوں میں حکومت کی شکست اتفاقی نہیں، بلکہ حکومت کی اڑھائی سالہ کارکردگی پر عدم اعتماد ہے۔

آپ کب تک یکطرفہ ٹریفک چلا سکتے ہیں، کب تک یہ رگ الاپ سکتے ہیں کہ پچھلی حکومتوں کی لوٹ مار نے اس حال تک پہنچایا ہے۔ پچھلی حکومتوں کو تو عوام اب یاد کر رہے ہیں اور اس کا سب سے بڑا ثبوت ضمنی انتخابات میں حکمران جماعت کی واضح شکست ہے۔ عموماً ضمنی انتخابات میں حکومتی امیدوار آسانی سے جیت جاتے ہیں، کیونکہ عوام یہ سمجھتے ہیں کہ حکومت کا امیدوار کامیاب ہوگا تو ان کے مسائل حل ہوں گے، مگر اس بار ایسا نہیں ہوا، کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ عوام حکومت سے مایوس ہو چکے ہیں، انہیں اس حوالے سے حکومتی امیدواروں سے کوئی توقع نہیں،کیونکہ جہاں یہ نمائندے موجود ہیں، وہاں بھی عوام کے مسائل حل نہیں ہو رہے۔ حکومتی وزیر و مشیر اس شکست کا بھی بڑی ڈھٹائی سے دفاع کریں گے اور اسے مسلم لیگ(ن) کی غنڈہ گردی کا نتیجہ قرار دیں گے، مگر یہ بات اس لئے لطیفے سے زیادہ اہم نہیں ہو گی کہ ساری ریاستی مشینری تو حکومتی امیدواروں کے ساتھ تھی، پھر یہ سب کچھ اگر ہوا تو اس کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے۔


سندھ اور پنجاب کے ضمنی انتخابات سے یہ بات بھی ثابت ہوئی کہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کا ووٹ بنک اپنی جگہ موجود ہے اور حکومت کی دن رات جاری رہنے والی کرپشن کہانی کی مہم بھی اُس کا خاتمہ نہیں کر سکتی،جبکہ دوسری طرف نوشہرہ میں تحریک انصاف اپنی نشست برقرار نہ رکھ سکی اور مسلم لیگ(ن) نے اُسے پچھاڑ دیا،جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ تحریک انصاف کی مقبولیت کم ہوئی ہے اور وہ اپنی چھوڑی ہوئی نشست بھی دوبارہ حاصل نہیں کر سکی۔ وہ جو کہتے تھے کہ مسلم لیگ(ن) کو اس کے گڑھ لاہور کے عوام نے بھی مسترد کر دیا ہے اور مینارِ پاکستان کے جلسے میں نہیں آئے، وہ لاہور کے قریب ترین دو شہروں میں مسلم لیگ (ن) کی کارکردگی کا کیا جواب دیں گے؟ یہ بات ثابت ہو گئی کہ مسلم لیگ(ن)آج بھی ایک مقبول جماعت ہے، جس کے خلاف تمام تر پروپیگنڈے کے باوجود اُس کی عوام میں اثر پذیری کو ختم نہیں کیا جا سکا۔

یہ ضمنی انتخابات اس حقیقت کو بھی آشکار کر گئے ہیں کہ صرف مخالفانہ پروپیگنڈے سے سیاسی جماعتیں ختم نہیں ہوتیں، انہیں ختم کرنے کا اصل طریقہ یہ ہے کہ مقابل جماعت اپنی کارکردگی سے اُس کی یاد عوام کے دِلوں سے محو کر دے۔ یہاں یہ حال ہے کہ بُری معاشی کارکردگی کے باعث عوام کو پچھلے ادوار  یاد آ رہے ہیں جب انہیں ضروریاتِ زندگی کی اشیا اُن کے وسائل میں رہ کر مل جاتی تھیں،ایک ہی بات کب تک ہر مسئلے کا جواب ہو سکتی ہے، کپتان نے ”این آر او نہیں دوں گا“ کی گردان سے عوام کو مطمئن کرنے کی جو حکمت عملی اختیار کی،اُسے ضمنی انتخابات کے نتائج نے مسترد کر دیا ہے۔اس کی بجائے انہوں  نے عوام کو معاشی ریلیف دیا ہوتا، پولیس اور دفتری نظام کو بدلنے کے لئے اصلاحات کی ہوتیں، روزگار کے مواقع بڑھائے ہوتے تو عوام اُن کے گن گاتے، زمینی حالات عوام کی زندگی اجیرن کر رہے ہوں تو اِدھر اُدھر کی باتوں سے اُنہیں کیسے بہلایا جا سکتا ہے۔


ان ضمنی انتخابات نے الیکشن کمیشن اور انتظامیہ کی کارکردگی کا بھی بھانڈا پھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ سندھ کے انتخابات میں بھی تشدد کا عنصر دیکھا گیا اور پنجاب میں بھی اس کی خونریز شدت دیکھنے میں آئی۔ڈسکہ میں ضمنی انتخاب دو معصوم جانیں لے گیا، پوری قوم نے دیکھا کہ کیسے شہر میں مسلح جتھے دندناتے پھر رہے تھے، بھرے بازاروں میں فائرنگ کرتے گذرنے کی وڈیوز سب نے دیکھی ہیں۔ کہاں تھی علاقے کی پولیس اور انتظامیہ؟ کیوں نہیں پکڑا ایسے قانون شکنوں کو؟ الیکشن کمشن کی چند انتخابات کراتے ہوئے بے بسی کو دیکھ کر یہ خیال جنم لیتا ہے کہ یہ عام انتخابات کیسے شفاف اور پُرامن کرا پائے گا؟ پولنگ اکثر جگہوں پر تاخیر سے شروع ہوئی، پولنگ سٹیشنوں کے اندر اور باہر ہنگامے ہوتے رہے، گنتی کے وقت نظم و ضبط کا فقدان نظر آیا،14پولنگ اسٹیشنوں کا عملہ کئی گھنٹے غائب رہا اور اُس کی وجہ سے رزلٹ رکا رہا، کیوں ایسے انتظامات نہیں کئے گئے کہ رزلٹ بروقت ریٹرننگ افسر کے پاس پہنچے۔ بات الزام لگانے کی نہیں، بلکہ شکوک و شبہات پیدا ہوتے ہیں جب نتائج میں تاخیر ہوتی ہے یہ شکایات بھی سامنے آتی رہیں کہ پولیس خواتین کو  ووٹ کاسٹ نہیں کرنے دے رہی۔


بلاشبہ ان ضمنی انتخابات کے نتائج سے اپوزیشن کا حوصلہ بلند ہوا ہو گا۔وہ جس مہم پر نکلی ہوئی ہے، اس میں مزید جان پڑ جائے گی۔ اُس کی یہ توقعات بھی بڑھ گئی ہوں گی کہ مارچ میں جو لانگ مارچ ہو گا، اُس میں عوام بڑے جوش و خروش سے شریک ہوں گے۔اپوزیشن کے پاس اب یہ دلیل بھی آ گئی ہے کہ عوام نے حکومت کے خلاف اپنا فیصلہ دے دیا ہے۔ اب اُس کے رہنے کا کوئی جواز نہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اس شکست سے کیا سبق سیکھتی ہے۔ اسی ڈگر پر چلتی رہتی ہے، جس نے اسے یہ دن دکھائے  یا پھر اپنی حکمت عملی تبدیل کر کے عوام کو معاشی ریلیف دینے کی راہ اختیار کرتی ہے۔ یہ فیصلہ اب کپتان کو کرنا ہے، کیونکہ خطرے کی گھنٹی بج چکی ہے۔خطرے کی گھنٹی الیکشن کمیشن کے لئے بھی بج چکی ہے کہ تشدد کے عنصر کو نہ روکا گیا تو عام انتخابات میں بڑا خون خرابہ ہو سکتا ہے۔

مزید :

رائے -کالم -