کامران فیصل کی موت:چند سوال
رینٹل پاور کیس کے تفتیشی افسر کامران فیصل کی پُراسرار موت کا معمہ شاید ہی حل ہو سکے، لیکن اُس کی موت نے سوالات کے ایک نہ ختم ہونے والے سلسلے کو جنم دیا ہے۔ اگرچہ پوسٹ مارٹم کرنے والے ڈاکٹروں نے اِس کی موت کو خودکشی قرار دے کر اپنا ”فرض“ پورا کر دیا ہے، مگر خود کشی کو صرف طبی بنیادوں پر ثابت نہیں کیا جاسکتا۔ موت گلے میں پھندا لینے سے ہوئی اور یہ پھندا تو کوئی دوسرا بھی کامران فیصل کے گلے میں ڈال سکتا ہے۔ کامران کے ورثاءنے تو میڈیا کواُس کے جسم پر نشانات بھی دکھائے ہیں اور اُس کے ہاتھ باندھنے کی نشاندہی بھی کی ہے۔ ڈاکٹروں نے بھی آخر اسلام آباد میں رہنا ہے، اِس لئے وہ خود کبھی کوئی ایسا کام نہیں کریں گے کہ اُنہیں کامران فیصل کی طرح ”خودکشی“ کی راہ اختیار کرنی پڑے۔ واقعات اِس قدر تیزی سے رونما ہوئے ہیں کہ اُنہیں ایک دوسرے سے علیحدہ کرنا ممکن نظر نہیں آتا۔
17 جنوری 2013ءکو جب سپریم کورٹ میں رینٹل پاور کیس کی سماعت ہو رہی تھی اور چیئرمین نیب چیف جسٹس سے صاف صاف کہہ رہے تھے کہ وہ عدالت کے اُس حکم پر عملدرآمد نہیں کر سکتے، جس میں وزیراعظم سمیت تمام ملزمان کی گرفتاری کا کہا گیا ہے تو اُس وقت بحث اِس نکتے پر آ رُکی تھی کہ نیب نے جو تحقیقاتی رپورٹ پیش کی تھی، کیا وہ غلط ہے؟ چیئرمین نیب کا اصرار تھا کہ ہاں وہ غلط ہے۔ یہ وہی رپورٹ تھی جو کامران فیصل نے تیار کی اور جسے گزشتہ پیشی پر نیب کی طرف سے فخریہ طور پر عدالت میں پیش کیا گیا تھا۔ یوں بادی النظر میں لگتا ہے کہ سپریم کورٹ اگر اِس رپورٹ کے بعد وزیراعظم اور دیگر ملوث شخصیات کی گرفتاری کا حکم نہ دیتی تو چیئرمین نیب اِس رپورٹ کے غلط ہونے پر اصرار نہ کرتے۔ اُسی روز سپریم کورٹ نے رینٹل پاور کیس کا تمام ریکارڈ عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا۔ پہلے تو چیئرمین نیب نے اِس حکم کو ماننے سے انکار کیا، لیکن جب عدالت نے سختی سے کہا تو یہ ریکارڈ پیش کر دیا گیا۔
اب ظاہر ہے کہ جب یہ سب کچھ نیب کے دفتر میں ہو رہا ہوگا توکامران فیصل بھی وہاں موجود تھے۔ خوف اپنی جگہ ،مگر اُسے اِس بات کی خوشی ضرور ہوئی ہوگی کہ اُس نے جو تفتیش کی، اُسے غلط ثابت کرنے کی بجائے چھپانے کی کوشش کی جا رہی ہے کیونکہ وہ حقائق پر مبنی ہے۔اِس کے صرف ایک روز بعد آخر ایسا کیا ہُوا کہ کامران فیصل کو خودکشی جیسا انتہائی قدم اٹھانا پڑا....؟انسان کے لئے موت سے بڑھ کر کوئی ڈر نہیں ہوتا، کیونکہ اُس کے بعد سب خوف اور ڈر ختم ہو جاتے ہیں۔ ماہرین نفسیات سے میری بات ہوئی تو اُن کا کہنا تھا کہ خودکشی انسان اُس وقت کرتا ہے جب اُسے زندگی ایک بوجھ محسوس ہونے لگے۔ جب وہ حالات سے اس حد تک مایوس ہو جائے کہ موت ہی رہائی کا راستہ دکھائی دے۔ ایک صورت یہ بھی ہوتی ہے کہ جب انسان کسی بدنامی یا رسوائی کا سامنا کرنے کی سکت نہ پا کر موت کو گلے لگا لیتا ہے۔ اُن کا یہ کہنا تھا کہ خودکشی کے اکثر واقعات گھریلو پریشانیوں کی وجہ سے پیش آتے ہیں ۔اگرانسان کا گھر پُرسکون ہو تو باہر کی پریشانیاں اُسے اِس حد تک مایوس نہیں کرتیں کہ وہ موت کا راستہ اختیار کرے، کیونکہ گھر والوں کی محبت اور سپورٹ اُسے زندہ رہنے کا حوصلہ دیتی ہے۔
ماہرین نفسیات کی اِن باتوں کے تناظر میں اگر کامران فیصل کی موت کا جائزہ لیا جائے تو خودکشی کا فیصلہ خاصا حیران کن نظر آتا ہے۔ کامران فیصل پر دباو¿ ضرور ہوگا، کیونکہ وہ جس کیس کی تفتیش کر رہا تھا اُس میں اربوں روپے کی کرپشن ہوئی تھی اور اُس کے ملزموں میں ایسے لوگ شامل ہیں، جن کی طرف آنکھ اُٹھا کر دیکھنا بھی جرم سمجھا جاتا ہے، لیکن کیا صرف دباو¿ کی وجہ سے وہ خودکشی جیسے انتہائی اقدام پر مجبور ہو سکتا تھا؟ یہ سوال بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ اگر وہ کمزور اعصاب کا مالک ہوتا تو اِس کیس کی تفتیش میرٹ پر نہ کرتا؟ زیادہ سے زیادہ سپریم کورٹ اُس کی سرزنش ہی کرتی اور وہ اتنا بے خبر نہیں تھا کہ سپریم کورٹ جن افسروں کو نا اہل قرار دیتی ہے، حکومت اُنہیں سر آنکھوں پر بٹھاتی ہے۔ اُن پر مراعات کی بارش کر دیتی ہے۔ سرزنش تو چیئرمین نیب کی بھی ہو رہی ہے تو کیا وہ صرف اِس وجہ سے خودکشی کر لیں، ظاہر ہے ایسا سوچنا بھی حماقت ہوگی۔
جب سے سپریم کورٹ نے کامران فیصل کو عدالت کا نام استعمال کر کے تبدیل کرنے کا نوٹس لیا تھا، کامران فیصل کا نام میڈیا میں تسلسل کے ساتھ آ رہا تھا۔ اُس کی ایک خاص اہمیت بن چکی تھی۔ اُس کی زبان سے نکلا ہوا لفظ میڈیا کو بریکنگ نیوز فراہم کر سکتا تھا۔ گویا وہ ایک گمنام یا بے دست و پا شخص نہیں رہا تھا۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر وہ کسی کے دباو¿ کی وجہ سے بہت زیادہ مایوس ہو ہی گیا تھا تو اُس نے اِس دباو¿ سے نکلنے کے لئے میڈیا کا سہارا کیوں نہیں لیا، یکدم اتنا بڑا قدم اٹھانے کا فیصلہ کیوں کر لیا، جس کی تلافی بھی نہیں ہوسکتی۔ پھر اُس نے اِس انتہائی اقدام کے بارے میں اپنے خاندان کو کیوں مطلع نہیں کیا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ اگر وہ اِس وجہ سے خودکشی پر مجبور ہوا کہ اُس پر بہت زیادہ دباو¿ تھا، یا اُسے دھمکیاں مل رہی تھیں تو پھر اُسے کسی خط، کسی ایس ایم ایس یا کسی ای میل کے ذریعے اپنے والد یا اہلیہ کے لئے پیغام ضرور چھوڑنا چاہئے تھا کہ وہ زندگی سے مایوس ہو کر موت کوگلے لگا رہا ہے۔ حیرت ہے کہ اُس نے ایسا کچھ بھی نہیں کیا، حالانکہ اُس کی شخصیت کے مختلف پہلو یہ ثابت کرتے ہیں کہ وہ ایک باہمت، ایماندار اور باضمیر آدمی تھا۔
وہ اگر موت کو صرف اِس وجہ سے گلے لگا رہا تھا کہ بااثر لوگوں کے کہنے پر اُنہیں تفتیش میں رعایت دینے کو تیار نہیں تھا تو پھر وہ اپنی زندگی کو اِس طرح رائیگاں موت کے حوالے سے نہ کرتا۔ اِس صورت میں تو اُسے ایک تفصیلی خط اپنے خاندان، قوم اور محکمے کے لئے چھوڑنا چاہئے تھا، جس میں یہ انکشاف کرتا کہ اُس نے مافیا کے سامنے سر نہیں جھکایا۔ اُس کے خلاف احتجاجاً جان دے رہا ہے۔ کامران فیصل کے بارے میں جو تفصیلات سامنے آئی ہیں، اُن کے مطابق اُس کا اپنے گھر سے رشتہ بہت مضبوط تھا۔ وہ جہاں اپنے والد کو اپنی زندگی کے فیصلوں میں بڑی اہمیت دیتا، وہیں اپنی فیملی سے ،جس میں دو معصوم بیٹیاں شامل ہیں، بہت پیار کرتا تھا۔ وہ اپنے والد کے کہنے پر کوئٹہ سے اسلام آباد منتقل ہوا تھا اوراپنی بچیوں سے دن میں کئی بار فون پر بات کرتا تھا۔ ایک ایسا شخص جو رشتوں کی مضبوط زنجیر میں بندھا ہو، کیا خاموشی سے ایسا فیصلہ کر سکتا ہے جو اُس کے پیاروں کی زندگی کوا جیرن بنا دے۔
ایک محبت بھری فیملی کے ہوتے ہوئے کامران فیصل نے اتنا بڑا قدم کیسے اُٹھایا؟ یہ بات تو انسانی نفسیات کے عین برخلاف نظر آتی ہے۔ اگر اُس کے لئے زندگی واقعی تنگ ہو چکی ہوتی تو وہ ایک ٹوٹے ہوئے انسان کے طور پر اسلام آباد کو چھوڑ کر میاں چنوں چلا جاتا۔ طبی بنیادوں پر رخصت لے لیتا۔ اپنے والد سے ہر بات میں مشورہ کرنے والا اُسے اپنی ساری داستان سنا دیتا۔ حیرت ہے کہ اُس نے ایسا کچھ بھی نہیں کیا اور ازاربند گردن میں ڈال کر پنکھے سے لٹک گیا۔کیاایک ایماندار، بہادر اور باضمیر انسان خود کو اپنے ہاتھوں ایسے انجام سے دو چار کر سکتا ہے؟ کم از کم مجھے تو یہ بات ہضم نہیں ہو رہی۔ اِس کیس کی تفتیش کرنا پولیس یا ایف آئی اے کے بس کا روگ نہیں۔ نیب تو اِس قسم کی تحقیقات کا مجاز ہی نہیں اور پھر اپنے پیٹ سے پردہ کون اُٹھاتا ہے۔ کامران فیصل کے ورثاءمسلسل یہ کہہ رہے ہیں کہ اُنہیں پوسٹ مارٹم رپورٹ پر اعتماد ہے اور نہ تفتیش پر، ایسے میں اُن کی تسلی و تشفی کیسے ہو سکتی ہے؟
اِس واقعہ کو اگر پولیس کی روایتی تفتیش کی طرح حل کر کے داخل دفتر کر دیا جاتا ہے تو بات نہیں بنے گی۔ اِس کی بازگشت ہمیشہ ہمارے قانونی وسیاسی نظام کا تعاقب کرتی رہے گی۔ ورثاءمسلسل اِس بات کا تقاضا کر رہے ہیں کہ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری ، کامران فیصل کی موت کا سوموٹو نوٹس لیں، تاہم میرا خیال ہے کہ اِس کے لئے ہائیکورٹ کے حاضر سروس جج کی سربراہی میں ایک تحقیقاتی کمیشن بننا چا ہیے جس میں پولیس، آئی بی اور ایف آئی اے کے اعلیٰ افسران شامل ہوں۔ وہ اِس واقعہ کی تحقیق کر کے اصل حقائق کو سامنے لائے۔ کامران فیصل کے جسدِ خاکی پر اگرچہ مٹی ڈال دی گئی ہے، لیکن اِس واقعہ پر اگر مٹی ڈالنے کا رویہ اپنایا گیا تو اِس سے انتہائی منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ ایک طرف ایماندار سرکاری افسروں کی حوصلہ شکنی ہوگی تو دوسری طرف اُن لوگوں کو تقویت ملے گی جو اِس ملک میں خود کو قانون سے ماوراءسمجھتے ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ کامران فیصل کے ورثاءکو مطمئن کرنا مملکت کے متعلقہ اداروں کی ذمہ داری ہے اور یہ ذمہ داری صرف ایک پوسٹ مارٹم رپورٹ جاری کرنے سے پوری نہیں ہوجاتی۔ ٭