کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنز پاکستان کی معرکہ آرائی

کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنز پاکستان کی معرکہ آرائی
کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنز پاکستان کی معرکہ آرائی
کیپشن: alama

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


”جٹ یونیورس“ میں”کاہلوں قبیلے“ کے یگانہ سپوت پروفیسر ڈاکٹر چودھری ظفر اللہ خان نے جو گزشتہ ایک مدت سے ”کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنز پاکستان کے بار بار منتخب ہونے والے چیئرمین کے طور پر اپنے فرائض ادا کررہے ہیں15جنوری 2014ءکو مسلم ٹاﺅن لاہور میں واقع اپنے کالج میں ہمیں مدعو کیا اور اس ادارے کے ”پروجیکشن ہال“ میں گفتگو کے لئے ایک ایسی محفل آراستہ کی، جس میں ڈاکٹر گوندل کے علاوہ دو چار دیگر شخصیات بھی موجود تھیں، ڈاکٹر چودھری ظفرا للہ خاں سے اب ہمارا کوئی تکلف یوں نہیں باقی رہا کہ ان سے واقفیت کی اب پانچویں دہائی جاری ہے۔ 1971ءمیں جب وہ میو ہسپتال کے سرجن تھے۔ سرگودھا کے ایک نابغہ روز گار چودھری عصمت اللہ علیگ نے ان سے ہمارا تعارف کرایا تھا۔ پھراس کے بعد ان سے گاہے بگاہے ٹکراﺅ ہوتا رہتا ہے اور ہمیں کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنز پاکستان کی ان معرکہ آرائیوں کا علم ہوتا رہتا ہے جو ڈاکٹر ظفر اللہ چودھری کی محنت وکاوش سے وقوع پذیر ہوتی ہیں اور بطور جٹ ہمارا تجربہ اور مشاہدہ وہ ہے کہ جو شخصیات صبح خیز ہوتی ہیں۔ وہ زندگی کے جس میدان میں بھی متحرک ہوں لوح زمانہ پر اپنا نقش ثبت کر دینے کے لئے کوشاں ضرور رہتی ہیں، جٹ قوم کے افراد میں وہ خصوصیت و خوبی بدرجہ اتّم موجود ہوتی ہے، کیونکہ جٹ عام طور پر زمیندار ضرور ہوتے ہیں اور ایک جٹ اپنے روزانہ فرائض کی ادائیگی کے لئے عام طور پر اپنے علاقے کی مسجد کے موذن سے بھی پہلے بیدار ہوجاتا ہے۔ ڈاکٹر ظفر اللہ چودھری بھی چک نمبر339,340 ضلع فیصل آباد کے ایک بڑے زمیندار ہیں، چنانچہ بطور زمیندار ہمہ وقت شدید محنت کو جاری رکھ کر اس کی بنیاد پر اپنے شخصی طمطراق کا تحفظ کرتے رہنا ان کی جبلت میں شامل ہے، وہ اپنی زندگی کی گونا گوں معرکہ آرائیوں میں بھی نہایت دھمیے انداز سے گفتگو کرتے ہیں، شاید اس لئے کہ جب ایک انسان کا کام بول رہا ہوتو اسے ”بڑھک“ مارنے کی ضرورت پیش نہیں آتی وہ جب موجودہ منصب پر فائز نہیں بھی تھے۔ جب بھی عالمی سطح پر ایک بڑے اور کامیاب سرجن تسلیم کئے جاتے تھے۔ آج بھی وہ ایک ایسی حیثیت سے دنیا کے سامنے موجود ہیں کہ کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنز پاکستان نے اپنی کمرشل سرگرمیوں میںجو پروفیشنل معرکہ آرائیاں کی ہیں، ان کے اعتراف کے طور پر انہیں”بیسٹ انٹر پرائزز“ کے طور پر انٹرنیشنل پرائز عطا کیا گیا ہے اور ”بیسٹ مینجر آف دی ائیر“ ایوارڈ کا مستحق بھی گردانا گیا ہے، جس کا مجسمہ (STATUE) لندن کے مشہور جیولرالفریڈونی کی(ALFRED WINIECKI)نے تیار کیا ہے،ڈاکٹر ظفر اللہ چودھری جب اس مجسمے کا ذکر کررہے تھے تو انہوں نے اس ادارے کے مخزن سے وہ مجسمہ منگوا کر ہمیں دکھایا اور بتایا کہ اس میں دیگر قیمتی دھاتوں کے علاوہ ساڑھے بارہ تولے سونا بھی موجود ہے۔ طبی میدان میں اس ادارے کی گراں قدر خدمات کے اعتراف کے طور پر ایک اور بین الاقوامی ایوارڈ موسومہ”یورپین کوالٹی ایوارڈ“بھی ان کو دیا گیا ہے جس کی ساخت میں انتہائی قیمتی دھاتوں کا چناﺅ اور استعمال ہوا ہے جو کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنز پاکستان“ کو یورپین بزنس اسمبلی“ کی طرف سے مرحمت کیا گیا ہے۔
 دراصل اس کالج میں ایم بی بی ایس گریجوایٹس تیار نہیں کئے جاتے بلکہ ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کرلینے والوں یعنی مکمل ڈاکٹرز کی مزید دو سالہ تربیت کا مرحلہ طے کیا جاتا ہے جس کو پوری دنیا میں بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا جارہا ہے اور عالمی شطح پر ایک حوصلہ افزا ردِ عمل سامنے آرہا ہے جو اس ادارے کے مزید درخشاں مستقبل کی نشاندہی کر رہا ہے جس کا ایک ثبوت وہ بھی ہے کہ کینیڈا اور سعودی عرب میں اس کالج کے تربیت یافتہ ماہر ڈاکٹرز کی خدمات اس طرح حاصل کی جارہی ہیں کہ وہ ایک طے شدہ مدت تک ان ممالک میں اپنی خدمات سر انجام دینے کے بعد یقینی طور پر پاکستان واپس آجایا کریں گے کیونکہ ”کالج آف فزیشنز ز اینڈ سرجنز پاکستان کے تربیت یافتہ ڈاکٹرز کا کینیڈا یا سعودی عرب جانا”امیگریشن“ کے زمرے میں شمار نہیں ہوتا ہے، اس لئے ان ڈاکٹرز کو ایک طے شدہ مدت کے بعد واپس بلا لیا جاتا ہے، جس سے اس کالج کی ساکھ اور بھی بہتر ہورہی ہے اور دنیا کے دیگر ممالک میں بھی ان ڈاکٹرز کی مانگ میں اضافہ ہوگا۔
ڈاکٹر ظفر اللہ چودھری نے بتایا کہ کینیڈا پہلے جنوبی افریقہ سے ایسے ماہر ڈاکٹرز کو حاصل کیا کرتا تھا مگر نیلسن منڈیلا نے پنے دورِ صدارت میں جنوبی افریقہ کے ڈاکٹرز کو اپنے ملک کے اندر کام کرنے کی ہدایت کردی چنانچہ کینیڈا میں زیادہ تربیت یافتہ ڈاکٹرز کی جو کمی پیدا ہوئی وہ اس نے کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنز پاکستان سے پوری کرنے کاآغاز کردیا ہے، اب سعودی عرب بھی ان ڈاکٹرز کی اہمیت کی طرف متوجہ ہوا ہے اور حال ہی میں ڈاکٹر ظفر اللہ چودھری نے سعودی عرب کا دورہ بھی کیا ہے اور واقعہ تو وہ ہے کہ ان کے سعودی عرب سے واپس آتے ہی اس کالج کے اس پروجیکشن ہال میں ہماری گفتگو کا اہتمام کیا گیا جو اس کالج کے 17سنٹرز سے بیک وقت مربوط رہتا ہے، ڈاکٹر ظفر اللہ نے اپنے کراچی سنٹر سے گفتگو بھی کی اور ہمیں بھی دعوت دی کہ پاکستان کے اندر اس کالج کے جو 14سنٹرز موجود ہیں یا پاکستان سے باہر جو اس کے تین سنٹرز ہیں ان میں سے کسی ایک کے ساتھ بھی ہم رابطہ کرنے کی آرزو کرتے تو وہاں شخصیات سے لمحے بھر میں ہمارا رابطہ کرادیا جاتا ، وہ انتظام اس لئے ہے کہ جب لاہور میں کالج کے اندر کوئی لیکچر دیا جاتا ہے تو اس کالج کے دیگر 17سنٹرز بھی اسے سماعت کررہے ہوتے ہیں اور مستفید ہورہے ہوتے ہیں،یقیناً ایسی فقید المثال خدمات کی وجہ ہی سے ”آکسفورڈ کانفرنس آف لیڈرز برطانیہ“ میں منعقدہ ایک ایسی بین الاقوامی کانفرنس میں جہاں 56ممالک کی ڈاکٹرزشخصیات موجود تھیں اور سائنس دان اور محقق بھی حصہ لے رہے تھے، ڈاکٹر ظفر اللہ چودھری کو ایک قابلِ رشک تمغہ اور ایوارڈ عطا کیا گیا جس سے سی پی ایس پی کی افادیت اور اہمیت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔
ہرسال تقریباً15ہزار ڈاکٹرز اس کالج کے امتحانات میں شرکت کرتے ہیں ،پھر امریکن کالج آف سرجنز کے تعاون سے اس کالج نے بین الاقوامی معیار کے ٹراما کورس(ATLS)کا آغاز بھی کردیا ہوا ہے۔ سارک ممالک میں پاکستان کو سب سے پہلے یہ اعزاز حاصل ہوا ہے اور 2007ءسے یہ کورس کراچی،اسلام آباد،لاہور، پشاور اور فیصل آباد میں منعقد ہو رہا ہے،اس کورس کی افادیت کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس کالج کی طرف سے ”لوکم پروگرام“ کے تحت وہ فیلوز تین تین ماہ کے لئے سعودی عرب جارہے ہیں جو 7سالہ تجربہ رکھتے ہیں جبکہ 33سے 48ہزار ریال ماہانہ تک ان کو معاوضہ دیا جارہاہے، سعودی عرب کی طرح نیپال میں بھی” سی پی ایس پی“ کے سنٹرز پوری طرح فعال ہیں جبکہ یو اے ای اور کویت میں بھی نئے سنٹرز بنائے جارہے ہیں ،مستقبل میں تمام ڈاکٹرز کو لیپ ٹاپ کی فراہمی لازمی ہوگی اور ای مانیٹرنگ کا اہتمام بھی ناگزیر ہوگا گویا”سی پی ایس پی“ دنیا کے ترقی پذیر ممالک میں واحد ادارہ ہے جس نے میڈیکل ایجوکیشن میں ترقی یا فتہ ممالک کی طرح اپنا ریزیڈنسی پروگرام لاگو کیا ہوا ہے اور رائل کالج آف فزیشنز لندن کی طرف سے اس اہم پروگرام کی مکمل حوصلہ افزائی کی جارہی ہے جبکہ باہمی تعاون کے باب میں رائل کالج اور کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنز پاکستان کے مابین ایک معاہدہ بھی طے پاچکا ہے جس پررائل کالج کے صدر پروفیسر ڈاکٹر آئن گلمور اور سی پی ایس پی کے صدر پروفیسر ڈاکٹر ظفر اللہ چودھری نے دستخط کئے اس معاہدے کے تحت پاکستانی ڈاکٹرز اس کالج میں دو سال تربیت حاصل کرلینے کے بعد مزید پروفیشنل تربیت کے لئے انگلینڈ جایا کریں گے اور فیلو شپ کے بعد بھی ایک طے شدہ مدت کے لئے برطانیہ میں مزید تربیت حاصل کرتے رہنے کے اہل تصور کئے جاتے رہیں گے،”کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنز پاکستان“ اپنے اعلیٰ ترین مقاصد کے حصول کے لئے 1962ءمیں قائم کیا گیا تھا جو اپنے چارٹر کے مطابق پاکستان کے عوام کو طبی میدان میں معیاری ماہرین فراہم کرتا چلا آرہاہے مگر اب پوری دنیا کی نگاہیں اس ادارے کی اعلیٰ کارکردگی کے باعث اس پر جم گئی ہیں کیونکہ زیرِ تربیت ڈاکٹرز کی سڑکچرڈ ٹریننگ اور مو¿ثر مانیٹرنگ پر بھی خصوصی توجہ دی جارہی ہے،مزید براں اس ادارے کے اقتصادی اور مالی استحکام کو بھی پوری طرح پیشِ نظر رکھا جارہاہے اور اس کے مالی ذخائر میں ضروری اخراجات پر کڑی نظر رکھتے ہوئے معتدبہ اضافہ کیا گیا ہے۔

مزید :

کالم -