اظہار رائے کی آزادی یا اسلام کے خلاف جنگ؟
7جنوری کو فرانس کے بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے میگزین کے دفتر پر دو مسلح افراد کے حملے اور فائرنگ سے مجموعی طور پر 17افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، جس میں میگزین کے عملے کے 14افراد ، ایک پولیس اہلکار اور دونوں حملہ آور شامل ہیں جو حملے کے دو دن بعد پولیس کی کارروائی سے ہلاک ہوئے۔ میگزین چارلی ہیبڈو اسلام مخالف کارٹون چھاپنے کے حوالے سے شہرت رکھتا ہے۔حملے کے ٹھیک ہفتے بعد میگزین نے نہ صرف ایک بار پھر اسلام مخالف کارٹون کی اشاعت کی، بلکہ اس بار اس کی پہلے سے زیادہ کاپیاں چھاپیں، جس کے لئے محبت سے لوگوں نے اسے رقوم فراہم کیں۔ ذرائع ابلاغ میں پولیس کی جانب سے یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ مسلح افراد نے میگزین کے عملے کے چودہ افراد کو ہلاک کرنے کے بعد، جاتے جاتے ایک موڑ پر اپنی گاڑی کو روک کر اپنی رائفلوں میں دوبارہ گولیاں بھریں اور یہ نعرہ بھی لگایا کہ انہوں نے حضور اکرمﷺ کی شان میں گستاخی کا بدلہ لے لیا ہے۔ انٹرنیٹ پر موجود وڈیو سے ان دو افراد کو گاڑی روک کر گولیاں بھرتے اور دوبارہ گاڑی میں سوار ہو کر جاتے تو دیکھا جا سکتا ہے، لیکن ان کے نعرے سنائی نہیں دیئے۔
اس سارے واقعے کی تصاویر دیکھ کر اور پولیس کی طرف سے دی گئی معلومات کو پڑھ کر ذہن میں بہت سے سوالات جنم لیتے ہیں۔ نہ تو فرانس تیسری دنیا کا کوئی ملک ہے اور نہ پیرس کی پولیس پاکستان کی پولیس ہے کہ نہ تو اسے ایسے ہولناک واقعے کی پہلے کوئی بھنک پڑ سکے اور نہ بروقت اسے روکا جا سکے، جس اطمینان اور سکون سے صرف دو آدمیوں نے کئی منٹ تک میگزین کے دفتر پر گولیوں کی بارش جاری رکھی اور پھر بڑے سکون سے اپنی گاڑی روک کر اپنی رائفلوں میں گولیاں بھریں اور نعرے لگائے اور آخر میں ایک بار پھر پولیس کی کار پر فائرنگ کی، اس کو دیکھنے والے حیران رہ جاتے ہیں، اس سے بھی بڑی حیرانی کی بات یہ ہے کہ ان کی فائرنگ کا نشانہ بننے کے بعد پولیس اہلکار اس کا تدارک یا تعاقب کرنے کی بجائے بھاگ کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اس پر بھی مستزاد یہ کہ پیرس کی پولیس اپنی تمام تر مہارت، قابلیت اور وسائل کے باوجود دو دن تک ان کا سراغ لگانے سے قاصر رہتی ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ بعض ایجنسیوں کی جانب سے یہ ڈرامہ اسلام کے خلاف مہم کو تقویت دینے کے لئے رچایا گیا ہو؟
جن دو بھائیوں کو اس واقعہ کا ذمہ دار قرار دے کر مارا گیا ہے، ان کے بارے میں یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ وہ مسلمان تھے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ دو ایسے افراد جو فرانس میں پیدا ہوئے، فرانس میں ہی پلے پڑھے اور فرانس ہی میں جوان ہوئے وہ کیسے متشدد، انتہا پسند اور دہشت گرد بن گئے۔ ایسے سوالات اس وقت اہمیت اختیار کر جاتے ہیں جب یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ دونوں بھائی نہ صرف آج سے دس سال قبل گرفتار ہو کر جیل میں مقید رہے، بلکہ 2005ء سے امریکی اور برطانوی ایجنسیوں کی نگرانی کی فہرست میں شامل تھے،بلکہ بعض اطلاعات تو یہ بھی ہیں کہ یہ دونوں بھائی فرانسیسی خفیہ ایجنسی کے لئے کام کرتے تھے، جب 11ستمبر2001ء کا واقعہ ہوا تھا تو خود بعض امریکی ماہرین کی طرف سے یہ کہا گیا تھا کہ دنیا بھر میں صرف دو ایجنسیاں ایسی ہیں جو ایسا کارنامہ سرانجام دینے کی صلاحیت رکھتی ہیں، ایک اسرائیلی ایجنسی موساد اور دوسری خود سی آئی اے، ایسی ہی نوعیت کا یہ واقعہ بھی ہے۔ بغیر کسی ایجنسی کی مدد کے یہ کارروائی اکیلے دو افراد سرانجام نہیں دے سکتے۔
ایسا ہی بیان فرانس کی ایک سیاسی پارٹی کے بزرگ رہنما نے دیا ہے۔ اس کے بقول یا تو یہ کارروائی موساد اور سی آئی اے اور فرانسیسی پولیس نے مل کر سرانجام دی ہے یا پھر ان کی مدد اور نگرانی میں ہوا ہے۔ اس بات کو تقویت واقعے کے فوراً بعد منعقد ہونے والے تقریباً 15لاکھ کے اجتماع سے ملتی ہے۔ پشاور کا واقعہ جس میں ایک سو اکتالیس بچے اور عملے کے ارکان شہید ہوئے وہ فرانس کے واقعہ سے کہیں بڑا تھا۔ فرانس کے واقعے کی وجہ بظاہر وہ اشتعال تھا جو گستاخانہ اور تضحیک آمیز خاکوں کی وجہ سے پیدا ہوا، لیکن پشاور کاواقعہ کسی ایسے اشتعال کا نتیجہ نہ تھا۔ اس کے باوجود بین الاقوامی برادری کا صرف چند دن کے بعد چالیس ممالک کے سربراہان کی قیادت میں جمع ہونا کوئی اتناآسان عمل نہیں ہے۔ اس اجتماع میں 15لاکھ افراد کا یہ نعرہ لگانا کہ ہم چارلی ہیں، گستاخانہ عمل کی تائید کے سوا اور کیا کہا جا سکتا ہے۔ یہ دلیل کہ فرانس میں ہر شخص کو اظہار رائے کی آزادی ہے۔ نہ صرف مضحکہ خیز ہے، بلکہ دنیا بھر میں پھیلے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے زخم پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔ مسلمان دنیا عیسائیوں کے روحانی پیشوا پوپ فرانسس کی ممنون اور شکر گزار ہے کہ انہوں نے مسلمانوں کے جذبات کی قدر کرتے ہوئے آزادیء اظہار کے حق کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
سنگاپور سے فلپائن جاتے ہوئے انہوں نے اپنے بیان میں کہا کہ آزادیء رائے کے اظہار کا حق اپنی جگہ بجا، لیکن کسی کے عقیدے اور مذہبی جذبات کا مذاق نہیں اُڑایا جا سکتا، انہوں نے کہا ہر مذہب کا تقدس ہے اور فرانس کے میگزین کو کارٹون چھاپ کر مسلمانوں کے جذبات سے نہیں کھیلنا چاہیے۔ انہوں نے اپنے ایک کارندے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر یہ میری ماں کو گالی دے گا تو اسے میری طرف سے ایک زبردست گھونسے کا منتظر ہونا چاہیے۔حقیقت یہ ہے کہ مغرب کی طرف سے اظہار رائے کی آزادی کا حق ایک نہایت ہی بھونڈی اور بے وزن دلیل ہے، جس کا استعمال آئے روز مسلمانوں کے شعائر کا مذاق اڑانے کے لئے کیا جاتا ہے۔ جتنا اظہار رائے کی آزادی کا حق اہم ہے اتنا ہی اہم دوسروں کے جذبات کی قدر اور احترام ہے۔ بالخصوص اس وقت جب ان جذبات کا تعلق کسی کے مذہب اور عقیدے سے ہو۔
مسلمانوں کا مسئلہ اور مجبوری یہ ہے کہ وہ دوسرے مذاہب خاص طور پر عیسائیت اور یہودیت ان کے انبیاء اور ان کی کتب کی توہین نہیں کر سکتے، کیونکہ یہ بھی ان کے ایمان کا حصہ ہے۔ مغرب میں بہت سے لوگوں کو یہ معلوم نہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان مسلمانوں کے ایمان کا حصہ ہے، جن چند لوگوں کو یہ معلوم ہے وہ سمجھتے ہیں کہ مسلمان ان کے مذہب کے حوالے سے ایسی گستاخی کے متحمل نہیں ہو سکتے، جس کا مظاہرہ مغرب کی طرف سے کیا جاتا ہے، لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ مسلم ممالک کی طرف سے اس قسم کے ردعمل کا مظاہرہ دیکھنے میں نہیں آتا۔ جیسا کہ ان سے توقع کی جا سکتی ہے۔ تیل کی دولت سے مالامال عرب ممالک اور 58مسلم ممالک کی تنظیم سے انفرادی طور پر اور اجتماعی طور پر ایسے واقعات پر اگر شدید ردعمل کا مظاہرہ کیا جائے تو مغربی ممالک کے بے شرم اور بے حیاء لوگوں کو ایسے گستاخانہ عمل سے روکنا کچھ مشکل عمل نہیں۔ بدقسمتی سے سوائے ترکی کے کسی بھی مسلم ملک بشمول پاکستان کے سربراہان سے اتنا شدید ردعمل دیکھنے میں نہیں آیا جو اس قسم کے واقعات کے سدباب کے لئے ضروری ہے۔ مشرق وسطیٰ کے ممالک کی مجبوری تو واضح ہے، لیکن باقی مسلم ممالک کی مجبوری سمجھ سے بالاتر ہے۔