سوگ کا ایک اور دن

سوگ کا ایک اور دن
 سوگ کا ایک اور دن

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ایک اور سوگ کا دن۔ لیکن ہم بے بس ہیں ۔ بحیثیت قوم ہم جس مشکل میں ہیں۔ اس کا کوئی فوری حل نہیں۔ یہ درست ہے کہ اس دلدل میں پھنسنے میں ہمیں کئی دہائیاں لگی ہیں۔اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اب ہمیں اس میں سے نکلنے میں بھی کئی دہائیاں لگیں گی۔ لیکن کیا ہمارا سفر درست سمت میں ہے۔ اگر سفر درست سمت میں ہے تو کیا رفتار ٹھیک ہے۔ ایک طرف تو ہم کراچی میں رینجرز کے اختیارات پر لڑ رہے ہیں۔ دوسری طرف دہشت گرد روز کارروائیاں کر رہے ہیں۔ ہمارے حکمران نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد پر سیاست کر رہے ہیں۔ لیکن دہشت گرد یکسو ہیں۔ ہم انسداد ہشت گردی کی عدالتوں سے مقدمات واپس لینے پر قانون سازی کر رہے ہیں۔ دہشت گرد دہشت گردی کرنے پر یکسو ہیں۔ یہاں وفاق اور صوبے دہشت گردی کے فنڈز کی تقسیم پر دست و گریبان ہیں۔


دہشت گردوں کو بھارت اور افغانستان کی سپورٹ حاصل ہے۔لیکن ہم بھارت اور افغانستان کو مورد الزام ٹھہرانے سے ڈرتے ہیں۔سارا دن یہ بات بھی ہوتی رہی کہ یہ پٹھانکوٹ کا جواب ہے۔ یہ بھی بات ہو تی رہی کہ بھارتی وزیر دفاع نے جو بیان دیا تھا یہ واقعہ اسی کا نتیجہ ہے۔ پھر یہ بات بھی ہوتی ہے کہ پاکستان اور اس کے ہمسایہ ممالک کے درمیان یہ پراکسی گیم کب تک جاری رہے گی۔


لیکن یہ بات بھی اپنی جگہ حقیقت ہے بھارت کے افغانستان میں پاکستانی سرحد کے قریب قونصل خانے پاکستان میں دہشت گردی کے نیٹ ورک کی سر پرستی کر رہے ہیں۔ اور بھارت افغانستان میں ایک پاکستان مخالف لابی کی سرپرستی کر رہا ہے۔ اسی لئے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے دورہ جاتی عمرہ کے بعد بھی اسٹیبلشمنٹ کا یہی موقف تھا کہ جب تک بھارت افغانستان میں قائم کیا جا نے والا اپنا پاکستان مخالف دہشت گردی کا نیٹ ورک ختم نہیں کرتا۔ اس سے دوستی کیسے ممکن ہے۔


یقیناًپاکستان میں ہر آنکھ اشکبار ہے۔ شہید ہونے والا ہر بچہ پاکستان کا بچہ ہے۔ یہ نوجوان پاکستان کا مستقبل ہیں۔ یہ تعلیمی ادارے پاکستان کا مستقبل ہیں۔ اور دہشت گرد ہمارے مستقبل پر حملہ کر رہے ہیں۔ وہ ہمارے روشن مستقبل سے پریشان ہیں۔ اسی لئے ہمارے مستقبل پرحملہ کر رہے ہیں۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ حکومت پاکستان اور صوبائی حکومتوں کے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں کہ ہر سکول اور ہر طالبعلم کی سکیو رٹی کا اہتمام کیا انتظام کیا جا سکے۔ویسے بھی سکیو رٹی ادارے ملک بھر میں وی آئی پی سکیو رٹی میں اس قدر مصروف ہیں کہ ان کے پاس عام آدمی کے لیے نہ تو وقت ہے اور نہ ہی وسائل۔ اب یہ بھی ممکن نہیں ہے کہ وی آئی پی کو چھوڑ کرہم تعلیمی اداروں طلباء و طالبات اور عام آدمی کی سکیور ٹی شروع کر دیں۔ ایسے میں دہشت گرد تو آسانی سے وی آئی پی کو ٹارگٹ بنانا شروع کر دیں گے۔ جو یقیناًپاکستان کے لئے زیادہ خطر ناک ہے۔


آرمی پبلک سکول کے واقعہ کے بعد ہماری سب سے بڑی کامیابی یہ تھی کہ ہم اپنے بچوں کو واپس سکول لانے میں کا میاب ہو گئے تھے۔ساری سیاسی قیادت متحد ہو گئی۔ ایک نیشنل ایکشن پلان بن گیا۔ آرمی چیف بھی متحرک نظر آئے۔ ایک ماحول بن گیا کہ اب دہشت گرد بچ نہیں سکیں گے۔ ترانے بنائے گئے۔ جس کی وجہ سے ہم اپنے بچوں کو واپس تعلیمی اداروں میں لانے میں کامیاب ہو گئے۔ لیکن با چا خان یونیورسٹی کے واقعہ نے اس ضمن میں خطرہ کی گھنٹیاں بجا دی ہیں۔ دشمن چاہتا ہے کہ ہمارے تعلیمی ادارے ویران ہو جائیں۔ تا کہ ہم جہالت کے اندھیروں میں رہ جائیں۔


اب تو یہ خبریں بھی اہم نہیں رہی ہیں کہ دہشت گردوں کا پتہ چل گیا ہے۔ بریک تھرو ہو گیا ہے۔ ہم کو پتہ چل گیا ہے کہ کون اس واقعہ کے پیچھے تھا۔ فون نمبر کیا تھے۔ کس نے ذمہ داری قبول کی۔ لوگ یہ سن کر تھک گئے ہیں۔ ایسا کیوں ہو تا ہے کہ دہشت گردوں کی ہر بڑی کارروائی کے بعد ملک میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن تیز ہو جا تا ہے۔ گرفتاریاں شروع ہو جاتی ہیں۔ ہر طرف شور مچ جا تا ہے۔ یہ سب کچھ دہشت گردی کے واقعہ سے پہلے کیوں نہیں ہو تا۔ کیوں ہر واقعہ کے بعدہی تیزی نظر آتی ہے۔ بس لوگ تو یہ چاہتے ہیں کہ بس کسی طرح ان کی دہشت گردی سے جان چھوٹ جائے۔ ملک میں امن ہو جائے۔


اس وقت پورا ملک سوگ میں ہے۔ یہ نوجوان اپنے گھروں کا روشن مستقبل تھے۔ لیکن ایک سوال یہ بھی ہے کہ آخر دہشت گرد صرف سکولوں اور یونیورسٹیوں کو ہی نشانہ کیوں بناتے ہیں؟ آخر کبھی کسی مدرسہ کو نشانہ کیوں نہیں بنا یا گیا۔ کیا ہمارے دشمن دہشت گردی کی اس لہر میں ہمارے خلاف یہ سازش کررہے ہیں کہ ہم بحیثیت قوم جہالت کے اندھیروں میں رہ جائیں۔ یہ ہمارے سکولوں ، کالجو ں اور یونیورسٹیوں کو ویران کرنے کی سازش ہے۔ یہ ہمارے والدین کو خوفزدہ کرنے کی سازش ہے۔ تا کہ وہ اپنے بچوں کو خوف کی لہر میں تعلیمی اداروں میں نہ بھیجیں۔


میری گزارش ہے کہ دہشت گردوں کی اس کوشش کو نا کام بنانے کے لئے ایک مرتبہ پھر متحد ہونے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنی نئی نسل اور والدین کو حوصلہ دینا ہے۔ تعلیمی اداروں کی رونقیں بحال کرنے کے لئے ہمیں ایک ایک گھر جا کر والدین اور بچوں کو حو صلہ دینا ہو گا۔ تمام سیاسی قیادت کو ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں خود جا کر بچوں اور والدین کا حوصلہ بڑھانا ہو گا۔ ہمیں دہشت گردوں کو پیغام دینا ہو گا ۔ کہ ہم ایک زندہ قوم ہیں۔ وزیر اعظم میاں نواز شریف کو چاہئے کہ ملک کی تمام سیاسی قیادت کو اپنے ساتھ ملک کے بڑے تعلیمی اداروں میں لیکر جائیں تا کہ بچوں اور والدین کو حوصلہ مل سکے۔

مزید :

کالم -