نواز شریف کی تقریر سکینڈل کا اعتراف ہے
اسلام آباد(اے این این) سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا ہے کہ پاناما کیس کا معاملہ عام کیس نہیں،16 مئی 2016 کو وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے پارلیمنٹ میں کی جانے والی تقریر پاناما پیپرز اسکینڈل کا اعتراف ہے، آرٹیکل 66وزیراعظم کو مکمل استثنیٰ فراہم نہیں کرتا، قطری شہزادے کا خط قانونی شہادتوں پر پورا نہیں اترتا، اس لیے اس کی کوئی قانونی اہمیت نہیں،حکومت کے ثبوت بھی کمزور ہیں۔ نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے سابق چیف جسٹس نے کہاکہ وزیراعظم کی تقریر پر عدالت میں بحث کی جاسکتی ہے، نواز شریف کی تقریر قانونی اور حکومتی مسائل پر نہیں بلکہ ان کی اپنی صفائی کے لیے کی گئی جو عدالت میں قابل قبول ہے۔ انہوں نے کہا کہ آرٹیکل 66 وزیراعظم کو مکمل استثنیٰ فراہم نہیں کرتا بلکہ اس آرٹیکل کے تحت مشروط استثنیٰ حاصل ہوتا ہے اور یہ بات سپریم کورٹ میں پہلی بار زیر بحث نہیں لائی جارہی۔ سابق چیف جسٹس نے اپنی رائے دیتے ہوئے بتایا کہ نواز شریف بحیثیت وزیراعظم اسمبلی میں نہیں بلکہ پہلے سے لکھی ہوئی ایک تقریر کے ذریعے اپنا موقف سامنے رکھنے کے لیے آئے اور انہوں نے اپنی تقریر میں خود کو یا اپنے خاندان کو معصوم نہیں کہا بلکہ انہوں نے اپنے ذرائع بتائے وزیراعظم نے اپنی تقریر میں ذرائع بتاتے ہوئے خود اعتراف کیا کہ جناب اسپیکر یہ وہ ذرائع ہیں جن سے ہم نے لندن میں فلیٹ خریدے۔ افتخار چوہدری کے مطابق وزیر اعظم نے پوری تقریر میں خود کو بے گناہ نہیں کہا بلکہ انہوں نے تقریر میں اعتراف کیا۔ ایک سوال کے جواب میں سابق چیف جسٹس نے کہا کہ آرٹیکل 62 اور 63 کا اطلاق قومی اسمبلی کے رکن یا رکنیت کی خواہش رکھنے والے امیدوار پرہوتا ہے، اس آئین کے تحت امیدوار اس بات کا پابند ہوتا ہے کہ وہ آمدن کے ذرائع سمیت دیگر معلومات درست فراہم کرے گا۔ انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ آرٹیکل 62 اور 63 اتنے مشکل نہیں ہیں لیکن یہ تقاضا کرتے ہیں کہ جب کوئی امیدوار اسمبلی میں قوم کی نمائندگی کرنے جا رہا ہو تو اس کے پاس اتنی تعلیم ہونی چاہئیے کہ اسے صادق اور امین کہا جا سکے، اگر وہ کرپشن میں ملوث ہوگا تو وہ ان آرٹیکلز پر پورا نہیں اترے گا۔ افتخار محمد چوہدری نے کہا کہ جو امیدوار آرٹیکل 62 اور 63 پر پورا نہیں اترتا، اس کے خلاف سپیکر قومی اسمبلی کے پاس مواخذے کی تحریک جمع کرائی جاتی ہے جس کے بعد اسپیکر قومی اسمبلی مواخذے پرمزید کارروائی کے لیے اسے الیکشن کمیشن بھجواتا ہے۔
جسٹس(ر) افتخار چودھری