ڈونلڈ ٹرمپ کا جارحانہ رویہ

ڈونلڈ ٹرمپ کا جارحانہ رویہ
ڈونلڈ ٹرمپ کا جارحانہ رویہ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کا تختہ اقتدار سنبھال چکے اور حسب معمول پہلی تقریر میں انہوں نے اپنا زہر نکالا ہے۔ایگ غیر سیاسی پس منظر رکھنے والے ٹرمپ بچپن سے ہی تیز و تند مزاج سے خاندان بھر میں مشہورہوئے۔ان کے والد فریڈرک کرائسٹ ٹرمپ کا تعلق کوئنز سے تھا ، 1964 میں ابتدائی سکول کی تعلیم مکمل ہونے کے بعد ان کا رخ گلیمر کی دنیا کی طرف ہو گیا، فلمی شوق کے باعث فورڈہم یونیورسٹی میں ایڈمیشن لیا ،اس کے دو سال بعدپینسلوینیا یونیورسٹی میں وارٹن بزنس سے تعلیم مکمل کی۔ 1971 میں ان کی فیملی نیویارک (مین ہیٹن) میں شفٹ ہوگئے جہاں انہوں نے اپنے روابط بزنس مین و کاروباری افراد کے ساتھ قائم ہونے شروع ہو گئے، جس کے بناء پر مین ہیٹن 42 وین سیڑیٹ پر کموڈور ہوٹل خریدا یہ ٹرمپ کی تجارتی کامیابی کا پہلا قدم ثابت ہوا۔ڈونلڈ ٹرمپ کی تینوں بیویوں کا تعلق شوبز اور ماڈلنگ انڈسٹری سے ہے۔
1977 ٹرمپ نے پہلی شادی چیک ریپلک کی ماڈل خاتون ایواناز یلنسیکووا سے ہوئی جن سے ان کے تین بچے ہیں۔ 1988 میں امریکی شہریت ملی اور ان کی مہنگی طلاق جو تقریباً ساڑھے تین لاکھ ڈالر کے ساتھ 1992 میں مارلا میپلز کے معاشقے پر ختم ہوئی۔1993 میں ٹرمپ نے مارلا میپلز کے ساتھ شادی کی جو پروفیشن کے اعتبار سے ماڈ لر اور تعلق جارجیا سے تھا۔ تعلقات کی خرابی کے باعث چھ سال کے بعد تیسری شادی میلانیاناس کے ساتھ ہوئی۔
1982 میں مین ہیٹن پر28 منزلہ ٹرمپ ٹاور کا قیام ہواجس کی تعمیر میں کئی تنازعات نے جنم لیا۔ ٹاور کی تکمیل پر گرینڈ پارٹی کا اہتمام کیا گیا نیویارک کے میئرایڈ کوچ سمیت 700مہمانوں نے شرکت کی۔ ٹاور کی تعمیر سے ٹرمپ کا نام مین ہیٹن کی تاریخ میں رقم ہو گا اور وہ شہرت کی بلندیوں کو پہنچنے لگے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے 1987 میں اپنی پہلی کتاب (دی آرٹ آف ڈیل) میں اپنی کامیابیوں سے ہمکنار ہونے کے طریقوں سے پردہ اٹھایا۔ اس کتاب سے ٹرمپ کو رائیلٹی کے ساتھ خوب شہرت بھی ملی ۔یہ کتاب نیویارک کی بیسٹ سیلر بک میں سے ایک کتاب بنی۔ تجارتی حلقوں میں ٹرمپ نے تجربہ کار بزنس مین ہونے کا لوہا منوایا۔ ڈونلذ ٹرمپ نے کاروباری سرگرمیوں کو بڑھاتے ہوئے ائیر لائنز کا قیام شروع کرنے کے بعد سیکنڑوں تاریخی عمارتیں کی تعمیر کا کام مکمل کیا۔
1990 کی دہائی ڈونلڈ ٹرمپ کے لئے بہت ہی نقصان دہ اور افسوسناک ثابت ہوا۔نیویارک کا ر یٹل سٹیٹ بازار شدید مندی کا شکار ہوا۔ 1991 اٹلانٹک سٹی میں واقع تاج محل کو دیوالیہ قرار دے دیا گیا۔ اس دہائی کے ہچکولے کھانے کے بعد ٹرمپ دوبارہ کمر بستہ ہوئے ۔انہوں نے اپنی یاٹ اور ائیر لائنز کو فروخت کیا۔ جوانی سے رنگ مزاج شخصیت سے پہچانے جانے والے ٹرمپ نے اس بار انٹرٹینمنٹ کی دنیا میں اپنی قسمت آزمانے کا ارادہ کیا۔ مس یونیورس کی فرنچائز پر قبضہ جمایا،جس میں مس امریکہ اور مس ٹین امریکہ مقابلہ حسن بھی شامل حال رہا۔ڈونلڈ ٹرمپ نے اس دوران (دی آرٹ آف کم بیک) اپنی دوسری کتاب کو شائع کیا اس کتاب میں اپنی بیوی مارلا میپلز 1993۔97 کے ساتھ کئی لمحوں اور واقعات کو قلم بند کیا جس سے ٹرمپ کو خوب پذیرائی کے ساتھ رائیلٹی بھی ملی اور ٹرمپ قرضوں کے چنگل سے آزاد ہوئے۔
1999 جون میں ٹرمپ کے والد فریڈرک کرائسٹ ٹرمپ کا انتقال ہو ا ، ان کے آخری رسومات میں بہت بڑی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔ امریکی صدر جان ایف کینڈی جوئینر نے ان کو تعزیت خط بھی ارسال کیا۔والد کے ورثے میں انہیں تقریباً 300 ملین ڈالر ملے۔2000 ء میں سیاست میں قدم رکھا اور ہیلیری کے خلاف صدرارتی مہم کا حصہ بنے۔ ٹی شو د ی اپرینٹس میں مالیاتی شخصیت کے طور پر سامنے آئے اور کئی ایگزیکٹو کردار ادا کئے۔ یہ شو بہت ہی پاپولر ہوا اور اس سے ٹرمپ کو عزت کے ساتھ ساتھ خوب پیسہ ملا۔ ہالی ووڈ فیم نے 2007 میں ڈونلڈ ٹرمپ کو ستارہ سے بھی نوازگیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی یونیورسٹی متنازعات کا شکار رہی۔ یونیورسٹی میں طلبہ علموں کو گریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ پروگرام آفر کئے گئے جن میں طلبہ کو ٹرمپ کی مالیاتی کامیابی کے راز سیکھائے جاتے تھے۔ طلبہ کے مقدمات کے بعد یونیورسٹی کو بند کرانا پڑا۔ 2007 میں ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے والدہ کے نام پر سکاٹ لینڈ میں ایبرڈین کے مقام پر گالف کورس خریدا جس کے دوران مقامی برادری اور ماحولیاتی آلودگی پر کام کرنے والوں اداروں کی جانب سے سخت مزاحمت کا سامنا بھی کرنا پڑا 2012 میں تعمیر مکمل ہونے کے بعد اس کو کھول دیا گیا۔
صداراتی الیکشن کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ نے بہت ہی مضبوط امریکی خاتون ہیلری کلنٹن کو ہر ا کر ساری دنیا کو حیران و پریشان کر دیا۔ ٹرمپ نے الیکشن مہم کے دوران بہت سے اہم اعلانات ، نظریات اور خیالات کا اظہار کیا جس کی بناء پر امریکی کی اکثریت نے ان کو اپنے ووٹ کا حق دار سمجھا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنا زیادہ فوکس ریاست کے شہری علاقہ جات کے ساتھ دیہاتوں اور قصبوں کو کیا۔ ہیلری کارحجان شہری ایریز کی طرف تھا۔ جمہوری ممالک کی روایات کے مطابق ہیلری نے الیکشن رزلٹ کو مانتے ہوئے شکست تسلیم کی اور ڈونلڈٹرمپ کو مبارک باد پیش کی۔ امریکہ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ صدارتی انتخاب کے بعد احتجاج کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے ٹرمپ کے خلاف بڑے شہروں میں افراد سڑکوں میں احتجاج کر رہے ہیں۔
امریکہ کی ریاست کے اندر بہت سے دوسری مذاہب و اقوام کے ساتھ ساتھ بڑی تعداد میں سیاہ اور سفید فارم آباد ہیں۔ آج امریکہ کی ترقی و خوشحالی میں امریکی شہریوں کے ساتھ دوسری قوموں کا بڑا اہم رول ہے۔ حالیہ صدارتی الیکشن مہم کے دوران ٹرمپ نے آئی سولیشن پالیسی کو اپناتے ہوئے فرقہ بندی اور تعصبت کوابھاتے ہوئے نفرت پسندی کو خوب اجاگر کیا،جس سے پوری ریاست کے اندر نسلی تضادات کی فضا قائم ہوئی۔ ٹرمپ نے زیادہ تر اپنا ٹارگٹ کم تعلیم یافتہ اور ان پڑھ افراد کو بنایا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے حکومتی پالیسوں پر شدید تنقید کرتے ہوئے دیگر ممالک سے قائم شدہ پالیسوں اور تعاون پر اپنے تحفظات ظاہر کرتے ہوئے اسے امریکی عوام کا نقصان قرار د یا اور فرمان جاری کیا کہ میرے اقتدار میں آنے کے بعد تمام پچھلی پالیسوں کو ریویو کیا جائے گا۔ پاکستان کے بارے میں سخت موقف اپناتے ہوئے امداد کے تمام منصوبوں کو فوری طور پر ختم کر نے کا اعلان کیا ، دہشت گردی کے خلاف اسپشل قانون معترف کرنے کا ارادہ کیا۔
بھارت کے ساتھ اپنے روابط مزید بڑھانے کی نوعید بھی سنائی، امریکہ اور بھارت دونوں اہم اتحادی ہونے کے ساتھ اسٹر یٹجک پارٹنر ہیں۔ بھارت 30ملین ڈالر سے زیادہ کا اسلحہ امریکہ سے خرید رہا ہے۔ مودی اور ٹرمپ دونوں انتہا پسندی پالیسی کے فالوور ہیں جس سے بھی امریکی ساخت کو شدید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے بیانات سے نہ صرف امریکی معاشرے میں کشیدگی کا اضافہ ہوا سیاہ اور سفید فارم میں نفرت بڑھنے لگی ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی مہم کے دوران تمام رہائش پذیر مہاجرین کو ریاست چھوڑنے کا فرمان بھی جاری کیا۔ میکسیکینز کے بارے میں حکومتی کی موجودہ پالیسی کو رد کرتے ہوئے میکسکو کے ساتھ تمام راستے دیوار سے بند کر کے تمام میکسیکنز کو ملک بدر کا عندیہ دیا۔ ماضی میں امریکہ کی ترقی و خوشحالی میں بڑا رول میکسیکو کا رہا ہے حالیہ اقدامات کے اٹھائے جانے پر لیبر کی کمی کے باعث امریکی معیشت تباہی کے دھانے پر پہنچ سکتی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ سیاہ فام کو پروموٹ کرکے گریٹر امریکہ کا پلان رکھتے ہیں جو کسی صورت بھی امریکہ کی بقاء کا حصہ نہیں ہو سکتاہے۔
ٹرمپ اپنے بیانات کے اندر امن وسکون اور سلامتی کے ساتھ اپنے ملک میں معاشی ترقی کے اقدامات پر عمل درآمد کے خواہاں ہیں۔ان کے خیال میں امریکی عوام نہیں چاہتی ہے کہ امریکہ دوسرے ممالک کی بقاء کی جنگ لڑے۔ موجودہ صدر اوبامہ کی انہیں پالیسوں کے باعث امریکی معیشت کا گراف نیچے کی طرف آیا ہے۔ امریکہ کے اندر فرد واحد کے پاس مختار کل کا اختیار نہیں، ایوان نمائندے گان کی اکثریتی رائے کے مطابق فیصلے عمل پذیر ہوتے ہیں۔
ٹرمپ نے نیو کلیئر ایران معاہدے کی مخالفت کرتے ہوئے فوراً ختم کرنے کا کہا ہے جس کا شدید دباؤ یورپی ممالک کو برداشت کرنا پڑ سکتا ہے جن کی کاوشوں سے ایران کے نیوکلیئر پروگرام کوآگے بڑھانے سے روکاگیا ہے۔ ایران پر دوبارہ پابندی لاحق ہوئی تو معاملہ دوبارہ شدت نوعیت اختیار کر سکتا ہے۔ ٹرمپ نے الیکشن مہم کے دوران نیٹو ممالک پر تنقید کرتے ہوئے تجارتی پالیسی کا اختیار اپنے پاس رکھنے کا اعلان بھی کیا ہے۔ تجارت کے حوالے سے اپنی مرضی کی شراکت کا قانون کا نافذ عمل پذیر ہو گیا۔
ٹرمپ نے مسلم کیمونٹی ،مسلمان اور خواتین کو شدید نشانہ بنایا۔ ٹرمپ نے امریکہ کو مضبوط کرنے کیلئے ایسے اقدامات کا اعلان کیا جس سے عوام میں ہمدردی کا عنصر اْبھارا جائے جس سے امریکی انہیں اپنا خیر خواہ سمجھیں ، جبکہ ہیلری کے بارے میں وہ یہ تاثر دیتے رہے کہ وہ اوبامہ کی باقیات و پالیسیوں کو آئندہ بھی قائم و دائم رکھے گی ۔
امریکہ میں کئی عرصہ سے ری پبلک پارٹی کا ہولڈ پایا جا تا ہے ، اس جماعت کے نمائندے ایوان اور سینٹ کی پالیسوں پر قابض ہیں۔امریکی کے مطابق اوبامہ قوم کے ساتھ کئے گئے وعدوں کو پورا کرنے میں ناکام نظر آتے ہیں اس کا فائدہ ٹرمپ نے جارحانہ لہجہ او ر قومیت پسندی کے طور پر اٹھایا ۔اور اسکا عندیہ انوہں نے تازہ خاطب میں بھیہ کیا ہے۔اب یہ آنے والا وقت ، حالات اور واقعات ہی فیصلہ کرے گا کہ ٹرمپ کے نظریات اور، خیالات امریکی ریاست کی خوشحالی و ترقی میں مدد گار ثابت ہوں گے۔

۔

نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

بلاگ -