دادا مقدمہ درج کرتا ہے پوتے کو اسے لڑنا پڑتا ہے ،سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج نے نظام کی بدقستمی بیان کردی
لاہور(نامہ نگار خصوصی )سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج مسٹر جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے کہا ہے کہ ہمارے نظام کی بد قسمتی ہے یہاں دادا مقدمہ دائر کرتا ہے اورپوتے کواسے لڑنا پڑتا ہے تاہم عوام کو بروقت انصاف کی فراہمی عدلیہ کاولین فریضہ ہے ،انہوں نے پنجاب جوڈیشل اکیڈمی میں پائلٹ کریمینل جسٹس پراجیکٹ کے حوالے سے منعقدہ سمینار سے خطاب کرتے ہوئے مزید کہا کہ انصاف کی جلد فراہمی کے لئے مقدمات کو غیر ضروری ملتوی کرنے کی روایت ختم کرنا ہوگی، مقدمہ صرف اسی صورت میں ملتوی ہو سکتا ہے کہ یا تو وکیل اللہ کو پیارا ہو جائے یا جج فوت ہوجائے.
انہوں نے کہا کہ جس طرح سی پیک پاکستان کےلئے گیم چینجر ثابت ہوگا اسی طرح کریمینل جسٹس کے حوالے سے متذکرہ پائلٹ پراجیکٹ بھی عدلیہ کےلئے گیم چینجر ثابت ہوگا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان کے والد جب وکالت کی پریکٹس کرتے تھے تو اس دور میں کسی بھی فوجداری مقدمے کا تین دن میں فیصلہ ہو جاتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے اپنی 38 سالہ پریکٹس میں دیکھا ہے کہ مروجہ قوانین کے تحت بھی فوجداری مقدمات کا جلد فیصلہ ممکن ہے، انہوں نے کہا کہ ہمیں قوانین نہیں طریقہ کار بدلنے کی ضرورت ہے ۔ جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے کہا کہ ہمارا مقصد جلد اور معیاری انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانا ہے، مقدمات میں تاخیر مسائل کاسبب بنتی ہے، پوری دنیا میں مسلسل ٹرائل کا نظام موجود ہے، کسی بھی مقدمہ کو مخصوص ٹائم فریم میں نمٹا دیا جاتا ہے، ہمیں بھی اپنے نظام کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ فاضل جج نے کہا کہ بطور لاہور ہائی کورٹ جج پہلے دن انکی عدالت میں کوئی وکیل پیش نہیں ہوا لیکن انہوں نے فائلز دیکھ کر میرٹ پر فیصلہ کر دیا، اس دن سے اب تک کبھی کوئی وکیل انکی عدالت سے غیر ضروری غیر حاضر نہیں ہوا اور نہ ہی کسی مقدمہ کو غیر ضروری طور پرملتوی کیا گیا ،مقدمہ صرف اسی صورت میں ملتوی ہو سکتا ہے کہ یا تو وکیل اللہ کو پیارا ہو جائے یا جج فوت ہوجائے، اس کے علاوہ مقدمات کو غیر ضروری التواءمیں ڈالنا انصاف کے قتل کے مترادف ہے۔
فاضل جج نے کہا کہ متذکرہ پراجیکٹ کے تحت وکلاءکی دستیابی کےلئے انفارمیشن ٹیکنالوجی سے استفادہ کرتے ہوئے جدید ترین طریقہ کار اپنانا ہوگا، وکلاءکو مخصوص نمبر کے تحت آئی ڈی کارڈ ایشو کئے جا سکتے ہیں جن کا نمبر ٹرائل کورٹ سے سپریم کورٹ تک یکساں ہو اور اسی نمبر کے مطابق کازلسٹیں جاری ہوں تا کہ وکلاءکی دستیابی کے مطابق تاریخیں دی جائیں۔ فاضل جج نے کہا کہ کریمینل جسٹس کے حوالے سے پائلٹ پراجیکٹ بنیادی طور پر چار اضلاع میں شروع کیاجا رہے جن میں اٹک، چنیوٹ، نارروال اور وہاڑی شامل ہیں، انہوںنے کہا کہ ضلعی پولیس، جیل پولیس، پراسیکیوشن اور جوڈیشل افسران سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز کو اپنا مثبت کردار ادا کرنا ہوگا تاکہ اس پراجیکٹ کے تحت مثالی انصاف کی فراہمی ممکن بنائی جا سکے۔پولیس کی جانب سے تفتیش سے لے کرچالان پیش کرنے تک کا عمل شفاف انداز میں مقررہ وقت میں مکمل ہونا چاہیے، ان کا کہنا تھا کہ ایف آئی آرز میں نامزد ملزمان میں کچھ غیر ضروری افراد کے نام بھی شامل کر دیئے جاتے ہیں جس میں اکثر اوقات مدعی پارٹی کی بد نیتی شامل ہوتی ہے، انہوںنے کہا کہ پولیس تفتیشی ٹیم کو چاہیے کہ جب تک وہ ایف آئی آر کے متن اور تفتیش سے مطمئن نہ ہوں وہ غیر ضروری گرفتاریاں عمل میں نہ لائیں، غیر ضروری گرفتاریاں اور پھر ضمانتیں عدالتوں پر بوجھ بنتی ہیں، ڈسٹرکٹ پولیس افسران اس میں خصوصی دلچسپی لیں،اس معاملے میں کسی بھی قسم کی کوتاہی ناقابل برداشت ہوگی۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ پراسیکیوشن بھی اپنا کردار ادا کرے ، ڈسٹرکٹ پبلک پراسیکیوٹرز 14یا 17دنوں میں عدالتوں میں چالان اور شہادتوں کے حوالے سے عدالتوں کی مکمل معاونت کریں ۔ فاضل جج کا کہنا تھا کہ پائلٹ پراجیکٹ کے تحت جوڈیشل افسران کو انصاف کی مثال قائم کرنا ہوگی، اگر ججز وقت کے پابند ہوں گے تو وکلاءبھی پابندی کریں گے، کیس کی نوعیت کے حوالے سے کیس کی تاریخ دی جائے، ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ تمام مقدمات ملتوی کر دیئے جائیں۔
فاضل جج نے چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ سے کہا کہ وہ ذاتی حیثیت میں اس پراجیکٹ کی نگرانی کریں۔انہوں نے حاضرین کو بتایا کہ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ سید منصور علی شاہ کے ساتھ ایک ملاقات میں متذکرہ پراجیکٹ سے متعلق اپنا آئیڈیا شیئر کیا تھا جسے سید منصور علی شاہ نے قابل عمل قرار دیا اور اس کی تشکیل کے ہر مرحلہ سے متعلق مجھے آگاہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ آ ج ان کے لئے باعث مسرت ہے کہ ان کا آئیڈیا شرمندہ تعبیر ہونے جا رہا ہے۔ قبل ازیں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج اٹک سہیل ناصر نے پائلٹ پراجیکٹ کے اغراض و مقاصد اور افادیت سے متعلق شرکاءکو آگاہ کیا،اس موقع پر مسٹر جسٹس محمد یاور علی، مسٹر جسٹس سید کاظم رضا شمسی، مسٹر جسٹس عبد السمیع خان، مسٹر جسٹس صداقت علی خان ، مسٹر جسٹس چودھری عبد العزیز، رجسٹرار سید خورشید انور رضوری، ایڈووکیٹ جنرل پنجاب شکیل الرحمن، پراسیکیوٹر جنرل پنجاب اور ڈی جی پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی کے علاوہ اٹک، چنیوٹ، ناروول اور وہاڑی سے جوڈیشل افسران، ممبران پنجاب بار کونسل، ڈسٹرکٹ پولیس افسران، ڈسٹرکٹ پبلک پراسیکیوٹرز، بارایسوسی ایشنوں کے نمائندے، جیل سپرنٹنڈنٹس اور فوجداری وکلاءبھی بڑی تعداد میںموجود تھے۔