عمران خان : بم کو لات ماردی!

عمران خان : بم کو لات ماردی!
 عمران خان : بم کو لات ماردی!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ظہیر الحسن جاوید اور اس کے بعد منو بھائی کی یکے بعد دیگرے وفات نے کچھ ہوش ہی نہیں آنے دیا اور ملکی معاملات اور گرم سیاست پیچھے رہ گئی۔

نہ تو متحدہ حزب اختلاف کے جلسے، نہ ہی متحدہ مجلس عمل کے قیام اور نہ ہی پارلیمنٹ کو برابھلا کہنے کے معاملے پر کوئی بات ہوسکی، آج ذرا ہوش سنبھالا تو سوچا، اہم ترین بات تو غالباً پارلیمنٹ ہی ہے کہ محترم کپتان نے فرزند راولپنڈی کی طرف سے لگائی جانے والی شہد کی انگلی کا مزہ لے لیا اور خود بھی اس رو میں بہہ گئے کہ مزاجاً وہ شیخ رشید سے کئی ہاتھ آگے ہیں، فرزند راولپنڈی شیخ رشید اور کپتان عمران خان دونوں قومی اسمبلی کے رکن ہیں اور اس پارلیمنٹ سے دونوں ہی تنخواہ اور مراعات لیتے ہیں۔

حالانکہ عمران خان کا ریکارڈ اتنا ’’اچھا‘‘ ہے کہ وہ بمشکل ہی قومی اسمبلی کے اجلاس میں شکل دکھاتے ہیں، ہماری اس سلسلے میں گزارش یہ ہے کہ سابق وزیر اعظم محمد نواز شریف پر تو دوسرے الزامات کے ساتھ یہ ’’تہمت‘‘ بھی لگائی جاتی ہے کہ وہ مزاجاً آمر ہیں اور کلی اختیار اپنے پاس رکھنا چاہتے ہیں، ہم اس پر کوئی بات نہیں کرتے لیکن اتنا ضرور جانتے ہیں کہ محترم کپتان صاحب کہیں اکھڑ، ضدی اور بہت بڑے آمر اور انا پرست ہیں، ماشاء اللہ اس عمر میں بھی صحت مند اور تندرست ہیں، باقاعدہ ورزش کرتے ہیں اور سیدھے ہو کر چلتے ہیں، جو حضرات باڈی لینگوئج (بدن بولی) کا تجزیہ کرتے ہیں وہ بتاسکتے ہیں کہ عمران خان کے چلنے پھرنے کا انداز بھی آمرانہ اور ماضی کے پلے بوائے والا ہی ہے اور وہ اردگرد دیکھتے تو بجا طور پر انا پرست مزاج کو تسکین دیتے ہیں اور ان کی مسکراہٹ بھی دوسروں کو چڑانے والی ہوتی ہے۔


کپتان نے بھرے جلسے میں کھڑے ہو کر پارلیمنٹ کو براکہا، شیخ رشید کی طرف سے بھیجی گئی لعنت کو اور سخت الفاظ میں دہرادیا، اس پر جب جوابی احتجاج ہوا تو فرماتے ہیں کہ یہ کم سخت الفاظ ہیں میں تو اس سے زیادہ کچھ کہنا چاہتا تھا ساتھ ہی کہا کہ شکر کرو، عمران خان کو قدرت نے سیاست میں بہت بڑا موقع فراہم کیا لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ گھوڑے کی بم کو لات والی مثال کے مطابق از خود بڑھتی شہرت کو ریورس گیئر لگالینے کے عادی ہوگئے ہیں، عمران خان کو پیپلز پارٹی کی مفاہمانہ سیاست نے موقع دیا کہ جو خلاء محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پیپلز پارٹی کے وصیتی راہنما نے پیدا کیا اسے پر کریں اور ملک کی دوسری بڑی پارٹی بن کر پہلے نمبر پر آنے کی جدوجہد کو کامیاب بنائیں، وہ اس موقع سے بھرپور فائدہ نہ اٹھا سکے حالانکہ ’’فرشتوں‘‘ نے ان کے جلسے بہت کامیاب کرائے ان کو چاہنے والے بھی ایسے ملے جنہوں نے بھٹو بے نظیر کے جیالوں کی یاد تازہ کردی اور وہ کپتان کی کسی بھی لغزش یا غلط روی کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں، یہ ان کی خوش قسمتی ہے کہ ان کو اتنی اہمیت اور شہرت ملی کہ لوگ ذوالفقار علی بھٹو کی مثال دینے لگے، لیکن بدقسمتی یا کسی کی خوش قسمتی کہ وہ اپنے مزاج کے ہاتھوں مجبور ہیں اور موقع بے موقع کچھ نہ کچھ کرتے رہتے ہیں جیسے انہوں نے متحدہ حزب اختلاف کے جلسے اور پروگرام کے وقت کیا ہے۔

اگر متحدہ حزب اختلاف کے قیام کے سلسلے کو پیش نظر رکھیں تو واقعات کی ترتیب ہی سے علم ہو جاتا ہے کہ عمران خان طوعاً وکرہاً آمادہ ہوئے ورنہ وہ ڈاکٹر طاہر القادری اور پاکستان عوامی تحریک کے سوا کسی اور جماعت کو درخور اعتناہی نہیں سمجھتے تھے، اسی لئے وہ ڈاکٹر طاہر القادری سے الگ ملے اور پروگرام مرتب کرنے کے لئے جو کمیٹی بنی یا اجلاس ہوئے ان میں بھی ان کی جماعت کے راہنما ہی جاتے رہے، اسی طرح انہوں نے جلسے میں بھی پیپلز پارٹی کی لیڈر شپ کے ساتھ بیٹھنا گوارا نہ کیا اور اپنا شو الگ کرکے جلسہ فلاپ کرالیا، اس سلسلے میں ہم اپنی معلومات کے حوالے سے بات کریں تو سیاست ایسی ظالم ہوتی ہے کہ باپ بیٹے کو نہیں بخشتا، یہاں تو عمران خان تھے، چنانچہ ان کو علم بھی نہ ہوا اور پیپلز پارٹی نے ان کی مذمت کردی، ایک تو یہ کہ پیپلز پارٹی نے اس بار زور لگا کر اپنے کارکنوں اور حامیوں کو جلسہ گاہ پہنچنے کی ہدائت کی اور اس میں کامیاب بھی رہے کہ پہلے سیشن میں معقول تعداد تھی اور کچھ جوش بھی تھا، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تحریک انصاف والے عوامی تحریک اور پیرطریقت ڈاکٹر طاہر القادری پر زیادہ بھروسہ کرگئے خود ڈھیلے رہے اور مسابقت والا انتظام نہ کیا جس کی وجہ سے ان کے چاہنے والے کم تھے، ادھر پیپلز پارٹی نے آصف علی زرداری کی تقریر کے بعد اپنے طور پر جلسہ ختم کردیا اور روانہ ہوگئے یوں کرسیاں خالی کر گئے اور جب کپتان خطاب کے لئے آئے تو مجمع ان کی توقع کے مطابق نہیں تھا اور نہ ہی ان جیسا ماحول تھا، چنانچہ ان کے مخالفین کو پروپیگنڈے کا موقع مل گیا، مسلم لیگ (ن) کے مطابق تو بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹنے والی بات ہوئی اور وہ طنز پر طنز کرتے چلے گئے۔


ادھر محترم عمران خان نے شیخ رشید کی طرف سے پارلیمنٹ کو برا کہنے اور استعفے والا دانہ چگ لیا، حالانکہ وہ بضد ہیں کہ اپنے فیصلے آپ کرتے ہیں، اب عمران خان نے اس پارلیمنٹ کو برا کہا جس میں وہ اور ان کی جماعت کے حضرات موجود ہیں اور تمام مراعات لیتے ہیں، حتیٰ کہ پہلے استعفوں اور غیر حاضر یوں کے باوجود ان تمام دنوں کا معاوضہ وصول کیا اور ذرا بھر بھی اخلاقی جرائت کا مظاہرہ نہ ہوا اب پھر یہی صورت حال ہے تاہم نہ تو شیخ رشید نے استعفے دیا اور نہ ہی خود تحریک انصاف نے کوئی فیصلہ کیا بقول ترجمان ابھی مشاورت ہورہی ہے، یوں کپتان نے آئینی اور اخلاقی محاذ پر ایک اور پسپائی اختیار کی ان کے اس موقف کی وجہ سے ان کی حمائت متاثر ہوئی اور خاموش ووٹر نے ان حالات میں برامنایا ہے اور وہ عمران سے بددل ہورہے ہیں، جبکہ پیپلز پارٹی کا ووٹر پھر اپنی جماعت کی طرف رجوع کرسکتا ہے یہ بلاول بھٹو کی کوشش سے ممکن ہے بشرطیکہ ان کی پالیسیاں بھی بہتر ہوں۔اب ذرا متحدہ حزب اختلاف کے مستقبل پر غور کرلیں تو آپ کو صاف پتہ چل جائے گا کہ عمران خان بوجوہ کنارہ اختیار کرچکے اور اب یہ حربہ کارگر نہیں ہوگا، حالات جاریہ سے نہ صرف متحدہ حزب اختلاف متاثر ہوئی بلکہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے سلسلے میں بھی وزن میں کمی آگئی ہے اور یہ نقصان متاثرین کا ہے، اب ان حضرات سے سوال کریں جو محترم طاہر القادری کا موازنہ نوابزادہ نصراللہ سے کرنے لگے تھے مرحوم نے تو نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کو اکٹھے بٹھادیا تھا اور یہاں ؟۔۔۔

مزید :

رائے -کالم -