بیانیہ تبدیل ہو رہا ہے

بیانیہ تبدیل ہو رہا ہے
 بیانیہ تبدیل ہو رہا ہے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

کوئی مانے نہ مانے بیانیہ تو تبدیل ہو رہا ہے۔ آج صوفی محمد نے بھی یہ کہہ دیا ہے کہ فضل اللہ شریعت کا باغی ہے، بچوں اور خواتین کو مارنا حرام ہے۔ انہوں نے یہ تک کہہ دیا ہے کہ پاک فوج کے خلاف لڑنا حرام ہے۔

حالانکہ سوات کے اپنے آخری باغیانہ جلسے میں انہوں نے جہاد کا اعلان کر دیا تھا، ظاہر ہے یہ جہاد پاک فوج کے خلاف ہی ہونا تھا۔ ابھی چند روز پہلے پاکستان بھر کے علماء نے ایک مشترکہ ضابطے پر دستخط کئے ہیں، جس کی رونمائی اسلام آباد میں ہوئی تو صدرِ مملکت ممنون حسین نے اسے تاریخی کارنامہ قرار دیا۔

قاری حنیف جالندھری کل ملتان ٹی ہاؤس میں منعقد ہونے والی ایک تقریب میں اس نئے بیانیے کی تفصیل بتا رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ اب سب ابہام دور کر دیئے گئے ہیں۔خود کش حملے حرام ہیں، جہاد کا اعلان سوائے حکومت وقت کے اور کوئی نہیں کر سکتا، ایک دوسرے کے مسلک اور عقیدے کا احترام واجب ہے۔

ملک میں فرقہ واریت کی کوئی گنجائش موجود نہیں۔ کل کی اس تقریب میں جاوید ہاشمی صدارت کررہے تھے اور فخر امام مہمانِ خصوصی تھے۔ یہ تقریب تھی ممبر برٹش ایمپائر طہٰ قریشی کی نئی کتاب ’’قیام امن اور اقوامِ عالم‘‘۔۔۔ یہ وہی کتاب ہے، جس کا فلیپ جناب مجیب الرحمن شامی نے لکھا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:


’’ان کی زیر نظر کتاب میں ’’قیام امن اور اقوامِ عالم‘‘ کا تذکرہ عالم اسلام کی سسکتی ہوئی صورتِ حال کے تناظر میں کیا گیا ہے، جہاں انہوں نے مغرب کے دہرے معیارات کی نشاندہی کی ہے، وہاں مسلمان ممالک کی بے حسی اور بے حمیتی کو بھی نظر انداز نہیں کیا، بلکہ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ ’’اپنوں‘‘ کو انہوں نے ’’غیروں‘‘ سے بڑھ کر آئینہ دکھایا ہے۔ ان کی تحریر اس بات کا ثبوت ہے کہ زوال امت کے حقیقی اسباب پر ان کی نظر ہے اور ان کے خاتمے کے لئے بھی ان کی بصیرت پر اعتماد کیا جا سکتا ہے‘‘۔

شامی صاحب نے اس کتاب کے موضوع کو کوزے میں بند کر دیا ہے۔ حالانکہ یہ پندرہ ابواب پر مشتمل ایک ایسی دستاویز ہے، جس میں قومی سے لے کر عالمی مسائل تک کو احاطہ ء تحریر میں لایا گیا ہے، نہ صرف مسائل کی نشاندہی بلکہ ان کا حل بھی پیش کیا ہے۔

قاری حنیف جالندھری نے اس تقریب میں جہاں پاکستان میں جنم لینے والے نئے بیانیے پر روشنی ڈالی، وہیں اس بات کا تذکرہ بھی کیا کہ جب 2002ء میں امریکہ نے افغانستان کو اپنا نشانہ بنایا تو ہم نے اس وقت بھی کہا تھا کہ یہ اسلام یا پاکستان کی نہیں، بلکہ اغیار کی جنگ ہے۔

صد شکر کہ اب اس بات کو ریاستِ پاکستان نے بھی تسلیم کر لیا ہے۔ یہ فیصلہ ہماری ریاست کے لئے امرت دھارا ثابت ہوگا، کیونکہ ہم نے دیکھ لیا ہے کہ امریکی استعمار کا حصہ بن کر ہم نے پاکستان کو اغیار کی جنگ کا میدان بنایا اور اپنا سب کچھ تباہ کر لیا۔

انہوں نے اپنا ایک واقعہ سنایا کہ جب امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا تو اس کے کچھ عرصے بعد مجھے ایک سرکاری وفد کے ہمراہ امریکہ جانے کا موقع ملا۔ وہاں ہماری ملاقات اس وقت کے امریکی وزیرخارجہ کولن پاول سے ہوئی۔

انہوں نے مجھ سے ایک سوال کیا کہ اسلامی دنیا اور امریکہ کے درمیان غلط فہمیاں کیوں ہیں اور یہ کیسے ختم ہو سکتی ہیں۔ میں نے کہا اس کا سبب بھی امریکہ ہے اور ختم بھی وہی کر سکتا ہے، اگر اپنے دہرے معیار کو ختم کر دے۔

میں نے انہیں مثال دی کہ جب پاکستان ایٹم بم بناتا ہے تو آپ اسے اسلامی بم کا نام دیتے ہیں، لیکن برطانیہ یا اپنے بم کو عیسائی بم نہیں کہتے، نہ اسرائیل کے بم کو یہودی بم کا نام دیتے ہیں۔ یہ آپ کا ڈبل سٹینڈرڈ ہے۔ اگر آپ اسے ختم کر لیں اور اسلامی دنیا کے ساتھ تعصب نہ برتیں تو یہ دوریاں اور غلط فہمیاں بآسانی ختم ہو سکتی ہیں۔


سابق اسپیکر قومی اسمبلی سید فخر امام ایک نئی تھیوری نکال لائے۔ انہوں نے کہا کہ اس کتاب میں اپنا دشمن خارج میں ڈھونڈنے کی کوشش کی گئی ہے، حالانکہ ہمیں اسے اپنے اندر ڈھونڈنا چاہیے، جب تک ہماری لیڈرشپ دوسروں کی طرف دیکھنا بند نہیں کرتی، امریکہ اور دیگر طاقتوں کی نظر کرم کے لئے اپنے آپ کو ان کے سامنے جھکانے سے باز نہیں آتی، پاکستان میں استحکام آ سکتا ہے اور نہ دنیا میں ہماری عزت ہو سکتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ چین کو ایک لیڈر نے زمین سے آسمان تک پہنجا دیا۔ پاکستان کے پاس بھی قائداعظم کی صورت میں ایک لیڈر آیا تھا، مگر قدرت نے انہیں وقت نہیں دیا، مگر کیا وہ اپنا نظریہ نہیں چھوڑ گئے، کیا ہم ان کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے ملک کو ایک ایسی لیڈرشپ نہیں دے سکتے جو ہمیں زوال سے نکال کر عروج کی طرف لے جائے۔

انہوں نے سوال کیا کہ یونیورسٹیوں میں افکار قائد اور ان کی شخصیت کو نصاب کا حصہ کیوں نہیں بنایا گیا۔ آج ہماری نئی نسل سمجھتی ہے کہ ہماری سیاست اور قیادت یہی ہے جو اردگرد نظر آتی ہے، جس پر کرپشن کے سنگین الزامات ہیں اور جس کے بارے میں سب کو معلوم ہے کہ وہ امریکہ کی دستِ نگر ہے، حالانکہ ہماری یہ سیاست نہیں ہے۔ ہماری سیاست وہ ہے جو قائداعظمؒ نے کی اور اپنی شخصی ایمانداری، خودداری اور تدبر سے ایک علیحدہ وطن حاصل کر لیا۔

بدقسمتی سے بعد میں ہم نے ان کے بیانیے کو یکسر تبدیل کر دیا اور آج مسائل میں گھری ہوئی قوم کا منطر پیش کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اقوامِ عالم میں اسلامی دنیا اپنا اثر کھو چکی ہے۔

اس پر عالمی طاقتوں نے غلبہ پا لیا ہے، وہ بے تحاشہ وسائل ہونے کے باوجود امریکہ کی دستِ نگر بنی ہوئی ہیں، کیونکہ اس نے انہیں سلامتی کے خوف میں مبتلا کر دیا ہے۔ جب تک وہ اس خوف سے نہیں نکلتیں، ان کی حالت ایسی ہی رہے گی۔

مخدوم جاوید ہاشمی جو اس تقریب کی صدارت کررہے تھے۔ کتاب پر بات کرنے کی بجائے حسبِ روایت سیاست کی طرف نکل گئے۔ ان کا استدلال وہی تھا کہ جس ملک میں پندرہ وزراء اعظم کو ان کی آئینی مدت پوری نہ کرنے دی گئی ہو، وہاں استحکام کیسے آ سکتا ہے۔

چونکہ میں اپنی تقریر میں یہ کہہ چکا تھا کہ نوازشریف کے بیانیے پر کتاب میں جو کچھ لکھا گیا ہے میں اس سے اتفاق نہیں کرتا۔ نوازشریف کو کسی آمر نے نہیں، بلکہ ملک کی سب سے بڑی عدالت نے نکالا ہے اور کرپشن کے الزام میں یہ فیصلہ ان کے خلاف آیا۔

ظاہر ہے جاوید ہاشمی اس بات کو کہاں بھولنے والے تھے۔ انہوں نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا پروفیسر صاحب نوازشریف کو چھوڑیں، میں نہیں کہتا کہ ان کے ساتھ اچھا ہوا یا بُرا، لیکن مجھے یہ بتائیں کہ باقی 14وزراء اعظم کے ساتھ ایسا کیوں ہوا۔ کیا کوئی ایک بھی ایسا نہیں تھاجو اپنی آئینی مدت پوری کر سکتا۔

اب ایک نئی روایت ڈال دی گئی ہے کہ اسمبلیوں کو تو مدت پوری کرانی ہے، مگر وزیراعظم کو گھر بھیج دینا ہے۔ پہلے یوسف رضا گیلانی کو عدالتی احکام سے گھر بھیجا گیا اور اب نوازشریف اس کی زد میں آ گئے۔

ان کا کہنا تھا کہ جب وزیراعظم کو اندر سے اتنا کمزور رکھا جائے گا تو وہ عالمی طاقتوں کے سامنے کیسے کھڑا ہو سکے گا۔ پھر تو اسے اپنی سلامتی کی بھیک ہی مانگنی پڑے گی۔ اگر پاکستان کو مضبوط و مستحکم کرنا ہے تو پارلیمنٹ کو مضبوط کرنا پڑے گا۔ پارلیمنٹ کی سب سے بڑی علامت وزیراعظم ہوتا ہے۔

جو قائد ایوان ہونے کے ناطے پارلیمنٹ کی آزادی و خودمختاری کا آئینہ دار بن جاتا ہے، جب ملک کے وزیراعظم کا عہدہ ہی بے توقیر ہو جائے تو ملک میں جمہوریت یا پارلیمنٹ کی کیا عزت رہ جاتی ہے۔


صاحبِ کتاب طہٰ قریشی نے کہا جب میں نے یہ کتاب لکھنے کا ارادہ کیا تو مجھے یقین نہیں تھا کہ اس کے ساتھ انصاف کر سکوں گا۔ میں نے اپنے عالمی رابطوں سے جو کچھ سیکھا اور حاصل کیا، میں اس کا نچوڑ اس کتاب میں شامل کرنا چاہتا تھا۔

مجھے سب سے زیادہ حوصلہ مجیب الرحمن شامی صاحب کی رائے نے دیا، انہوں نے میری ذات اور اس کتاب کے بارے میں جن خیالات کا اظہار کیا ، میں سمجھ گیا کہ جو کچھ میں نے لکھا ہے، وہ رائیگاں نہیں گیا۔ انہوں نے کہا کہ اس کتاب میں وہ سب کچھ سمو دیا گیا ہے، جس کا آج کل عالم اسلام اور اقوامِ عالم کو سامنا ہے۔

میں نے لندن میں ایک اعلیٰ سطحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھاکہ یہودی، عیسائی اور مسلمان ملت ابراہیمی کا حصہ ہیں، سبھی کا خدا ایک ہے اور سب کو امن کا درس بھی دیا گیا ہے۔

اس لئے یہودی و عیسائی اگر مسلمانوں کے مقابل لاکر کھڑے کر دیئے گئے ہیں تو یہ ایک بہت بڑی عالمی سازش ہے، جس کا مقصد عالمی امن کو تباہ کرنا ہے۔ انہوں نے کہا گزشتہ دنوں میں ایک سرکاری وفد کے ہمراہ افغانستان گیا تو وہاں عبداللہ عبداللہ سے ملاقات میں یہ کہا کہ پاکستان اور افغانستان دو بھائی ہیں، انہیں اپنے مسائل اسلام آباد اور کابل میں حل کرنے چاہئیں دہلی ہی نہیں، کیونکہ بھارت ہمارا بھائی نہیں بس محلے دار ہے، جس کی کوشش ہے کہ ہمارے درمیان اتفاق و اتحاد نہ رہے۔

اس کتاب کا مرکزی نقطہ ء نظر یہ ہے کہ اقتصادی خود انحصاری کے بغیر آزادی و اقتداراعلیٰ کا کوئی تصور نہیں ۔اس تقریب میں ہی صوفی محمد کے بیان کا ذکر بھی ہوا اور کہا گیا کہ جو بیانیہ ہم نے امریکہ کے سامنے تبدیل کیا ہے، اس کی وجہ سے ہر بیانیہ تبدیل ہو رہا ہے اور یہ بات ایک بڑی تبدیلی کو ظاہر کر رہی ہے، جو ہمارے روشن مستقبل کا پیش خیمہ بھی ثابت ہو سکتی ہے۔

مزید :

رائے -کالم -