فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر336
امّاں کو علم نہیں تھا کہ السر کیا بیماری ہوتی ہے۔ انہوں نے بس ہمیں گاڑھے خون کی اُلٹیاں کرتے ہوئے دیکھا تھا اور حواس باختہ ہوگئی تھیں۔ سچ پوچھئے تو اس وقت تک خود ہمیں بھی السر کے بارے میں بہت زیادہ معلومات نہ تھیں۔ اتنا سنا تھا کہ یہ ایک خطرناک مرض ہوتا ہے اور ڈاکٹر عموماً اس کے مریضوں کا آپریشن کرتے ہوئے گھبراتے ہیں کیونکہ اس زمانے میں السر کے مریضوں کے صرف 25 فیصد آپریشن ہی کامیاب ہوتے تھے۔ باقی 75 فیصد اللہ کو پیارے ہوجاتے تھے۔
امّاں نے کہا ’’ڈاکٹر صاحب۔ اتنے خوفناک مرض کا نام لے دیا آپ نے۔ کچھ خدا کا خوف تو کیا ہوتا۔‘‘
فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر335 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
حالات کی سنگینی کے باوجود ڈاکٹر اکرم کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی۔ انہوں نے کہا ’’امّاں۔ ڈاکٹر کا تو کام ہی مریضوں کو ان کی بیماریوں کے بارے میں بتانا ہوتا ہے اور یہ السر اتنا خوفناک مرض تو نہیں ہوتا۔۔۔ یہ جلد ہی ٹھیک ہوجائے گا۔‘‘
’’شُکر ہے۔‘‘ امّاں نے اطمینان کی سانس لی ’’اب آپ نے ڈاکٹروں والی بات کی ہے مگر ڈاکٹر صاحب۔ اتنا بہت سا خون کہاں سے آیا ہے؟‘‘
’’یہ توچیک اپ کرنے کے بعد ہی معلوم ہوگا۔ انہیں فوراً ہسپتال لے جانا چاہیے۔‘‘
امّاں نے فوراً اپنا بُرقع اٹھایا اور بولیں ’’ڈاکٹر صاحب جلدی کیجئے۔ فوراً ہسپتال لے چلئے۔‘‘
ڈاکٹر صاحب نے انہیں سمجھایا کہ آپ فی الحال نہ جائیں۔ خواہ مخواہ پریشان ہوں گی اور ہسپتالوں والوں کو بھی پریشان کریں گی۔
رانا صاحب بولے ’’امّاں۔ ڈاکٹر صاحب ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ میں ان کے ساتھ جارہا ہوں۔ آپ کو فوراً اطلاع کردوں گا۔‘‘
امّاں کو بڑی مشکل سے سمجھا بجھا کر روکا گیا۔ ہمارا سوٹ خون میں بھیگ چکا تھا مگر لباس تبدیل کرنے کا وقت اور موقع نہیں تھا اس لیے کوٹ اُتارنے پر اکتفا کیا گیا۔ رانا صاحب ہمیں سہارا دے کر کار تک لے گئے۔ ڈاکٹر اکرم نے بھی ہاتھ بٹایا۔ امّاں کوٹھی کے گیٹ تک گھبراہٹ کے مارے کار کے ساتھ چلی گئیں۔ انہیں ہوش نہیں تھا کہ وہ بُرقع کے بغیر ہی کوٹھی کے گیٹ تک آگئی ہیں۔
اِدھر ہم ہسپتال گئے۔ اُدھر امّاں نے ہر طرف ٹیلی فون کھڑکا دیئے۔ کراچی‘ اسلام آباد اور فیصل آباد ہر طرف ہماری بیماری کی اطلاع پہنچ گئی۔ اسٹوڈیو سے ہمارے اسسٹنٹ کا ٹیلی فون آیا۔ وہ ہم سے پوچھنا چاہ رہا تھا کہ ہم کس وقت اسٹوڈیو پہنچیں گے۔ جواب میں ہماری بیماری کی اطلاع ملی تو اس اللہ کے بندے نے سارے اسٹوڈیو میں صور پھونک دیا۔ تھوڑی ہی دیر کے اندر ساری فلمی دنیا کو ہماری بیماری کی اطلاع مل گئی تھی۔ اس زمانے میں لوگوں کا آپس میں میل ملاپ بہت زیادہ تھا۔ پیار اور خلوص بھی کم نہ تھا۔ ہر شخص دوسرے کی خبر رکھتا تھا اور سبھی ایک دوسرے کے دُکھ درد میں شریک ہونا اپنا فرض سمجھتے تھے۔ وہ ایسا زمانہ تھا کہ نہ تو بیماریاں اتنی زیادہ ہوتی تھیں اور نہ ہی حادثے اور جرائم کی بہتات تھی۔ چوری‘ ڈاکے کی خبر کبھی کبھار ہی سننے میں آتی تھی۔ قتل تو ایسی چیز تھی کہ مہینوں‘ برسوں کے بعد ہی کہیں سے خبر آتی تھی اور ہر طرف سنسنی سی پھیل جاتی تھی۔ ہر شخص خوف زدہ ہوجاتا تھا۔ شدید بیماریوں کا زیادہ چرچا نہیں تھا۔ عام بیماریوں کا تذکرہ ہی عموماً سننے میں آتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ السر کا نام سن کر سبھی پریشان ہوگئے تھے۔ اس مرض کے بارے میں تفصیلی معلومات ہر ایک کو حاصل نہ تھیں اور پھر جس کسی نے بھی سُنا کہ ہمیں خون کی الٹیاں ہوئی ہیں وہ بوکھلا کررہ گیا۔ سب نے ایک دوسرے کو اطلاع فراہم کردی اور پھر جس کو بھی موقع ملا اس نے ہمارے گھر سے اور ایک دوسرے سے معلومات حاصل کرنی شروع کردیں۔
یو۔ سی۔ ایچ گلبرگ لاہور میں امریکی انتظامیہ کے زیراہتمام چلایا جاتا تھا۔ یہاں بیشتر ڈاکٹر امریکن تھے اور جو پاکستانی تھے بھی تو بیرونی تعلیم یافتہ تھے۔ ہسپتال کا نظم و نسق امریکی طرز کا تھا۔ یہ ایک بہت خوبصورت اور صاف ستھری عمارت تھی۔ جدید ترین سازو سامان سے سجی ہوئی۔ آس پاس سبزہ زار‘ پھول اور قد آور درخت تھے۔ عملہ بھی نہایت مُستعد اور فرض شناس تھا۔ یہ ہسپتال مکمّل طور پر ائرکنڈیشنڈ تھا۔ پرائیویٹ کمرے اس قدر شفّاف اور خوبصورت تھے کہ اس زمانے میں تو لاہور کے بہت اچھے ہوٹلوں میں بھی یہ معیار نہیں تھا۔
ہسپتال پہنچتے ہی ہمیں فوراً چیک اپ کے لیے پہنچا دیا گیا۔ مختلف ٹیسٹ شروع ہوگئے۔ اس اثنا میں ہمارے دوست احباب بھی ہسپتال پہنچ گئے لیکن ہم ان کی آمد سے بے خبر تھے۔ ہماری حالت خاصی تشویش ناک تھی اس لیے فوراً ایک کمرے میں پہنچا دیا گیا جہاں ہر قسم کے ملاقاتیوں کا داخلہ ممنوع تھا۔ صرف رانا صاحب ایک بار ہمارے پاس تشریف لائے تھے۔ انہوں نے ہمیں تسلّی دی اور بتایا کہ تمام عزیزوں اور دوستوں کو آپ کی بیماری کی خبر دے دی گئی ہے۔
ابھی وہ ہمارے پاس ہی موجود تھے کہ اچانک ایک بار پھر ہمارا دل گھبرانے لگا۔ ہم اٹھ کر بیٹھ گئے۔ سر چکرا رہا تھا۔ متلی سی ہورہی تھی اور جسم پسینے میں ڈوب گیا تھا۔ ایک سانولی سلونی نرس برف کی طرح سفید اور شفّاف لباس پہنے کمرے میں داخل ہوئیں۔ ہم نے بے بسی سے کہا ’’سسٹر۔۔۔‘‘
وہ لپک کر ہمارے پاس آئیں اور اسی وقت ہم نے ابکائیاں لینی شروع کردیں۔ نرس نے فوراً بیڈ پین اٹھا کر ہمارے سامنے کردیا مگر اس سے پہلے ہی ہم نے خون کی ایک الٹی کردی جس سے نہ صرف ہمارا لباس اور بستر بلکہ فرش تک رنگین ہوگیا۔ نرس نے آگے بڑھ کر ہمیں سنبھالنا چاہا مگر ہم الٹیاں کرنے کے موڈ میں تھے۔ اوپر تلے پانچ خون کی الٹیاں کرنے کے بعد ہمیں قدرے سکون محسوس ہوا مگر اس اثنا میں نرس کی یونیفارم خون میں لت پت ہوچکی تھی۔
ہمارے بستر پر اور آس پاس تمام کمرے میں خون ہی خون بکھرا ہوا تھا۔ بے چارے رانا صاحب جو ہمیں تسلّی دینے کے لیے آگے بڑھے تھے ان کا تمام لباس بھی خون میں لت پت ہوگیا تھا مگر ہمارے پاس شرمندہ ہونے کے لیے بھی وقت نہیں تھا۔ اُلٹیاں کرنے کے فوراً بعد ہماری آنکھوں میں اندھیرا چھا گیا اور ہم ایک بار پھر بے ہوش ہوگئے۔
ہوش میں آئے تو دیکھا کہ کمرے میں صفائی ہورہی ہے۔ ایک امریکی ڈاکٹر ولیم بھی موجود ہیں۔ ان کی نگرانی میں ہمیں دوسرے بیڈ پر لٹا دیا گیا۔ اس سے پہلے دو نرسوں نے آگے بڑھ کر ہماری قمیص اتار کر ہسپتال کا گاؤن پہنا دیا تھا۔ شرم تو بہت آئی مگر مجبور تھے اس لیے چپ چاپ لیٹے رہے۔
رانا صفدر جنگ بدستور کمرے میں موجود تھے اور ڈاکٹر ولیم سے ہماری تازہ ترین صورت حال کے بارے میں تبادلہ خیال کررہے تھے۔ ڈاکٹر ولیم کا کہنا تھا کہ جب تک تمام رپورٹیں نہ آجائیں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا مگر ان کا اندازہ یہی تھا کہ ہمارا السر پھٹ گیا ہے۔ فوری طور پر السر کی دوائیاں بھی ہمیں دے دی گئی تھیں اور انجکشن وغیرہ بھی لگا دیا گیا تھا۔ اس سے پہلے کہ ہم پر پوری طرح غنودگی طاری ہوتی‘ رانا صاحب نے ہمارے پاس آکر بہت محبت اور ہمدردی سے دلاسا دیا اور کہا کہ دیکھئے۔ ’’میں فی الحال آپ کی تازہ ترین حالت کے بارے میں امّاں کو نہیں بتاؤں گا۔ وہ بہت پریشان ہوجائیں گی اورہسپتال آنے کے لیے ضد کریں گی۔ آپ کا کیا خیال ہے؟‘‘
ہم نے ان کی رائے سے اتفاق کا اظہار کیا اور پھر گہری نیند سو گئے۔ جب ہماری آنکھ کھلی تو معلوم ہوا کہ صبح ہوچکی ہے۔ سامنے فرنچ کھڑکی کے شیشے میں سے باہر کا خوبصورت منظر نظر آرہا تھا۔ سورج کی روشنی ہر طرف پھیل چکی تھی۔ پرندے محو پرواز تھے۔ نیلے آسمان پر کہیں کہیں بادل کے ٹکڑے بہت دل فریب لگ رہے تھے۔
ہم کو خیال ہی نہ رہا کہ ہم شدید بیمار ہیں۔ بے خیالی میں اٹھ کر بیٹھ گئے۔ جب بیڈ سے سر ٹکایا تو احساس ہوا کہ ہم اپنے بیڈ روم میں نہیں ہسپتال کے کمرے میں ہیں۔ پھر ہمیں اپنی بیماری کی تفصیلات یاد آگئیں۔ جسم سے خون کافی مقدار میں نکل چکا تھا اس لیے نقاہت بھی محسوس ہورہی تھی مگر پھر بھی ہم فوراً بیڈ سے اتر کر کھڑے ہوگئے۔ آنکھوں میں اندھیرا سا لہرایا اور ہم تھوڑے سے لڑکھڑائے بھی تھے۔ اسی وقت ایک نرس نے کمرے میں داخل ہوکر ہمیں تھام لیا۔
’’یہ آپ کیا کررہے ہیں؟‘‘ اس نے نرم لیکن تادیبی لہجے میں پوچھا۔
’’باتھ روم جارہے ہیں!‘‘ ہم نے جواب دیا۔
’’ٹھیک ہے۔ مگر ذرا احتیاط سے کام لیں۔ آہستہ آہستہ اُٹھ کر کھڑے ہوں اور پھر یہ دیکھیں کہ کھڑے ہونے یا چلنے میں کمزوری تو محسوس نہیں ہوتی۔‘‘
ہم نے نرس کے مشورے پر عمل کیا۔ پھر کہا ’’ہم بالکل ٹھیک ہیں۔ باتھ روم جاسکتے ہیں۔‘‘
’’آریو شؤر!‘‘ اس نے تصدیق چاہی۔
ہم نے سرہلا کر اقرار کیا اور آہستہ آہستہ باتھ روم کی طرف چل پڑے۔ باتھ روم بھی نہایت خوبصورت اور صاف شفّاف تھا۔ لگتا ہی نہ تھا کہ یہ ہسپتال کا باتھ روم ہے۔ ایک قابل تعریف بات یہ تھی کہ عام ہسپتالوں کے برعکس یہاں دوائیوں اور فینائیل کی بدبو بھی نہیں تھی۔
غسل خانے سے باہر نکلے تو نرس نے ہمیں بستر پر لٹا کر ہمارا بلڈ پریشر چیک کیا۔ ٹمپریچر لیا اور پھر ایک ننّھی منّی سی رنگین گولی ہمارے منہ میں ڈال دی۔ پانی کا گلاس بھی موجود تھا۔
’’اب آپ لیٹ جائیے۔ بلاضرورت بسترسے نہ اٹھئے۔ ٹھیک ہے؟‘‘
ہم نے سر ہلا دیا۔
’’بھوک لگی ہے۔ ناشتا کریں گے؟‘‘
ہم نے انکار میں سر ہلا دیا۔
نرس نے کہا ’’آپ کو ناشتا ملے گا بھی نہیں۔ ابھی بیریم پلا کر آپ کا ایکسرے لیا جائے گا۔‘‘
کچھ دیر بعد وہ ایک گلاس پانی میں سفید سفید گاڑھی سی چیز گھول کر لے آئی اور فرمائش کی کہ اسے پی جائیے۔ عجیب بے مزہ سی چیز تھی مگر پی گئے۔
کچھ دیر بعد فلمساز اور ہدایتکار اقبال شہزاد آگئے۔ ان کا فلک شگاف قہقہہ ہر وقت ان کے ساتھ رہتا تھا مگر اس روز انہوں نے بڑی مشکل سے اپنے قہقہے کو روکا۔ ہمارا جائزہ لینے کے بعد حال چال پوچھا اور پھر کہا ’’یارسوفی۔ میں تو گھبرا گیا تھا یار۔ مگر تم تو ٹھیک ٹھاک نظر آرہے ہو۔ ڈاکٹر نے کہا ہے کہ تمہیں خون دینا پڑے گا۔ تم تو اچھّے خاصے شریف آدمی ہو۔ ڈریکولا کب سے بن گئے؟‘‘
ہم نے مسکرانے کی کوشش کی مگر ایک کمزور اور شرمندہ سی مسکراہٹ چہرے پر آکر رہ گئی۔ حقیقت یہ ہے کہ اب ہمیں بھی کمزوری اور نقاہت کا احساس ہونے لگا تھا۔ اسی وقت ڈاکٹر ولیم بھی آگئے۔ ڈاکٹر ولیم دراز قد‘ سُرخ و سفید آدمی تھے۔ آنکھیں نیلی‘ بال سنہرے۔ کم گو تھے مگر کچھ دیر بعد ہم انہیں اپنے ڈھب پر لے آئے اور وہ کچھ دیر رک کر ہم سے باتیں کرنے لگے تھے۔ وہ سفید شیشوں کی عینک لگاتے تھے جس کے پیچھے ان کی ہلکی نیلی آنکھیں مختلف تاثرات کا اظہار کرتی رہتی تھیں۔ وہ ایک ہمدرد‘ غم گسار اور دردمند انسان تھے۔ جب ہم انہیں اپنی پریشانی تکلیف یا بے چینی کا حال سناتے تو ان کی آنکھوں میں ایک درد کی سی کیفیت چھلکنے لگتی تھی۔
انہوں نے ہماری مزاج پرسی کی پھر بتایا ’’میرے اندازے کے مطابق آپ کا السر پھٹ گیا ہے۔ مزید تفصیلات ٹیسٹ مکمل ہونے کے بعد معلوم ہوں گی۔ زیادہ اور اچانک خون نکل جانے کی وجہ سے آپ کو خون دینا ضروری ہے۔ آپ کے ان دوست نے خون کی چھ سات بوتلیں فراہم کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ اس کے بعد اگر مزید ضرورت پڑی تو دیکھا جائے گا۔ خون آپ کو ابھی لگا دیا جائے گا اور ہسپتال کی طرف سے فراہم کیا جائے گا۔‘‘ اس زمانے میں یو سی ایچ میں خون کی سربند تھیلیاں امریکہ سے سپلائی کی جاتی تھیں تاکہ فوری طور پر مریض کو ہنگامی حالت میں خون دے دیا جائے۔ اس کے لواحقین بعد میں یہ کمی پوری کردیا کرتے تھے۔ یہ خون پلاسٹک کی صاف شفاف تھیلیوں میں سردخانوں میں رکھا جاتا تھا اور مریض کو دینے سے پہلے یہ تصدیق کرلی جاتی تھی کہ اس کے خون کے گروپ کے مطابق ہی اس کو خون دیا جارہا ہے۔ خون کو مزید چیک بھی کرلیا جاتا تھا اور مکمّل اطمینان کرنے کے بعد ہی استعمال کیا جاتا تھا۔ اس طریقے کا فائدہ یہ تھا کہ مریض کو فوری طور پر بلاتاخیر خون کی فراہمی شروع ہوجاتی تھی۔ یہ نہیں ہوتا تھا کہ خون دینے کے انتظار میں وہ بے چارہ اللہ کو ہی پیارا ہوجائے۔(جاری ہے )
فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر337 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں