ساہیوال کا انتہائی افسوسناک سانحہ
ساہیوال کے قریب جی ٹی روڈ پر سی ٹی ڈی اہلکاروں نے کار پر فائرنگ کر کے تین چھوٹے بچوں کے سامنے ماں باپ اور اُن کی 13سالہ بہن کو قتل کر دیا، کار ڈرائیور بھی مارا گیا، ایک بچہ زخمی ہو گیا۔ یہ فیملی لاہور سے بوریوالا شادی کی تقریب میں شرکت کے لئے جا رہی تھی کہ قادر آباد کے قریب سی ٹی ڈی اہلکاروں نے کار پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی، پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ ہلاک افراد خطرناک دہشت گرد تھے۔
ترجمان سی ٹی ڈی کے مطابق کار کا پیچھا کرتے ہوئے پنجاب پولیس کے محکمہ سی ٹی ڈی کے اہلکار قادر آباد پہنچے اور گاڑی کو روکا، جہاں فائرنگ کا تبادلہ ہوا اور فائرنگ کے نتیجے میں مبینہ دہشت گرد دو مرد اور دو خواتین ہلاک ہو گئیں۔ ایک بچہ زخمی ہو گیا۔ ترجمان کے ابتدائی بیان کے مطابق مرنے والے دہشت گرد تھے،ان کے قبضے سے تین بچے بھی بازیاب کرائے گئے ہیں۔
سی ٹی ڈی نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ مارے جانے والے دہشت گردوں کے سہولت کار تھے،تاہم پنجاب پولیس نے واقعے سے لاعلمی کا اظہار کر دیا ہے، کار سوار بچوں نے عینی شاہدین کو بتایا کہ اُن کے ماں باپ کو پولیس نے مارا۔
عینی شاہدین نے بتایا کہ پولیس نے نہ گاڑی روکی نہ تلاشی لی، بلکہ سیدھی فائرنگ کر دی، گاڑی سے کوئی اسلحہ برآمد نہیں ہوا، واقع کی تحقیقات کے لئے جے آئی ٹی بنا دی گئی، وزیراعلیٰ عثمان بزدار کے حکم پر سی ٹی ڈی اہلکاروں کو گرفتار کر لیا گیا اور 16کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا
پولیس جسے ’’دہشت گردوں سے مقابلہ‘‘ قرار دے رہی ہے پورا مُلک اس کی تفصیلات سُن کر سکتے میں ہے، گاڑی میں سوار زندہ بچ جانے والے بچے نے جس کے ماں باپ اور بہن کو اُس کی آنکھوں کے سامنے گولیوں سے بھون ڈالا گیا اِس ساری کہانی کے تارو پود بکھیر دیئے ہیں،جو پولیس نے اپنی روایت کے عین مطابق گھڑی اور جس پر حکومت کے ذمہ داروں نے آنکھیں بند کر کے یقین بھی کر لیااور اس کا اظہار وفاقی اور صوبائی وزرائے اطلاعات کے بیان میں بھی ہوا،جس میں انہوں نے بڑے فخر سے بتایا کہ چار دہشت گرد مارے گئے ہیں،اُن کی یہ کہانی میڈیا پر بھی دہرائی جاتی رہی،انہوں نے تو اپنا بیان اُس وقت بدلا جب وزیراعظم عمران خان نے وزیراعلیٰ پنجاب کو گولیاں چلانے والوں کی گرفتاریوں کا حکم دیا،وزیراعلیٰ ’’اپنے پسندیدہ ترین ضلع‘‘ میانوالی کا دورہ کر رہے تھے جہاں سے اُنہیں ساہیوال پہنچنے میں بارہ گھنٹے لگ گئے۔
عینی شاہدین نے تو فوری طور پر ہی کہہ دیا تھا کہ کار سے فائرنگ ہوئی نہ وہاں سے کوئی ہتھیار ملے۔
ڈپٹی کمشنر ساہیوال بھی یہ کہہ رہے ہیں کہ گاڑی سے کوئی مزاحمت نہیں ہوئی، ایسے میں دہشت گردی کی کہانی گھڑنے کا کیا مقصد تھا، فرض کر لیں پولیس کا یہ موقف درست ہے تو بھی کوشش یہ ہونی چاہئے تھی کہ ’’دہشت گردوں اور اُن کے ساتھیوں‘‘ کو زندہ گرفتار کیا جاتا۔
اگر ایسا ہوتا تو اُن سے دہشت گردوں کے کسی نیٹ ورک تک رسائی آسان ہو جاتی،لیکن یہ جانتے ہوئے بھی کہ گاڑی میں بچے اور خواتین بھی سوار ہیں پولیس نے گاڑی پر سیدھی فائرنگ کی، چار افراد کو ہلاک کیا اور موقع سے چلے گئے اگر یہ دہشت گرد ہی ہوتے اور پولیس کی کہانی کے مطابق ان کے ساتھی موٹر سائیکل سوار اُن کی حفاظت کے لئے آ رہے ہوتے تو وہ یوں غائب نہ ہوتے بلکہ کوئی نہ کوئی کارروائی کرتے سب سے پہلے لاشوں کو غائب کرتے تاکہ مرنے والوں کا اتہ پتہ ہی نہ چلتا۔
یہ بھی کہا گیا ہے کہ مرنے والوں نے بچوں کو اِس لئے گاڑی میں سوار کرایا تھا تاکہ تلاشی سے بچے رہیں۔ اُن کے مرنے کے بعد بھی اگر گاڑی سے کوئی اسلحہ نہیں نکلا تو پھر اِن لوگوں کو تلاشی دینے سے کیا امر مانع ہوتا،جبکہ واضح ہو چکا ہے کہ مقتولین بوریوالا شادی کی تقریب میں جا رہے تھے۔ لگتا ہے کہانی کی کڑیاں درست طور پر نہیں ملائی گئیں،جس کی وجہ سے ان میں جا بجا ایسے خلا رہ گئے ،جو پولیس کی ساری کہانی کو مشتبہ بنانے کے لئے کافی ہیں اور ایسا ہونا شروع بھی ہو گیا ہے۔
واقعہ کے بارے میں بار بار بدلے جانے والے بیانات نے اس معاملے کو اور بھی سنگین بنا دیا ہے،پولیس نے ابتدا میں تو یہ الزام بھی لگایا کہ گاڑی میں تین بچوں کو اغوا کیا جا رہا تھا، اب یہ بھی کہا گیا کہ ذیشان دہشت گرد بن چکا تھا،لیکن خلیل وغیرہ اس سے بے خبر تھے،پولیس گاڑی سے جو تھیلا ساتھ لے گئی اس کے بارے میں ابتدائی رپورٹ میں بتایا گیا کہ اس میں اسے ایک خود کش جیکٹ بھی ملی ہے،لیکن پھر یہ پتہ چلا کہ یہ وہ کپڑے تھے جو فیملی کے ارکان شادی والے گھر میں جانے کی وجہ سے ساتھ لے کر جا رہے تھے۔
یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ ذیشان خود تو اس گاڑی میں گیا،جبکہ اس کے دو ساتھی جواس کے گھر میں رہ رہے تھے گوجرانوالہ چلے گئے، جہاں اُنہیں گرفتاری کا خدشہ پیدا ہوا تو انہوں نے اپنے آپ کو اُڑا لیا۔ابتدا سے لے کر اب تک اس کہانی کو ہر تھوڑے عرصے بعد ایک نیا موڑ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے اور جب معاملہ ٹھنڈا ہو گیا تو آہستہ آہستہ گرفتار اہلکاروں کو بھی کسی نہ کسی طریقے بری الذمہ قرار دینے کی کوشش کی جائے گی،لیکن حقیقت کی تہہ تک پہنچنے کا انحصار بھی اب جے آئی ٹی کی رپورٹ پر ہے، جو لگتا ہے جلد بازی میں تشکیل کی گئی،کیونکہ اس کا سربراہ پہلے ایک افسر کو بنایا گیا۔
بعدازاں چند گھنٹوں کے بعد ایک دوسرے افسر کو یہ ذمے داری دے دی گئی۔ یہ اقدامات بذاتِ خود اِس امر پر دلالت کرتے ہیں کہ حکومت نے اِس سلسلے میں جو بھی قدم اٹھایا ،اس پر اضطراب اور پریشانی کے سائے لہرا رہے تھے، جے آئی ٹی کی سربراہی چند گھنٹوں کے اندر تبدیل کرنے کی ضرورت اگر کسی مجبوری کی وجہ سے کی گئی تھی تو بھی اس پر اُنگلیاں اُٹھ سکتی ہیں۔
اس واقع کی جو تازہ ویڈیو اُن مسافروں کے ذریعے سامنے آ رہی ہیں جو گاڑی کے پیچھے آنے والی بس میں سوار تھے اور جنہوں نے اپنے موبائل کیمروں سے ویڈیوز بنائیں اُن سے اتنا تو اندازہ ہو جاتا ہے کہ گاڑی میں سوار لوگوں نے نہ کوئی مزاحمت کی اور نہ ہی وہاں کوئی اسلحہ تھا۔ سی ٹی ڈی کے اہلکار انتہائی قریب سے اطمینان کے ساتھ گولیاں چلا رہے تھے۔ اگر مقابلہ دہشت گردوں سے ہو تو اس طرح یکطرفہ گولیاں نہیں چلتیں، نہ کوئی دہشت گرد ایسی بے بسی کی موت مرتا ہے۔
حالیہ برسوں میں پولیس اور دہشت گردوں کے مقابلے کے جو واقعات بھی سامنے آئے اس میں انہوں نے مرنے سے قبل مقابلہ بھی کیا اور ایسے مقابلے میں پولیس یا کسی بھی دوسری فورس کے لوگ بھی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے، وزیراعظم عمران خان نے اپنے ٹویٹ میں جن خیالات کا اظہار کیا ہے اس میں انہوں نے دہشت گردی کے خاتمے کے لئے سی ٹی ڈی کی کارروائیوں کو سراہا بھی ہے،لیکن دہشت گردوں سے مقابلہ یا ان کا خاتمہ ایک بات ہے مگر کسی فیملی کے ارکان کو بچوں کی آنکھوں کے سامنے گولیوں سے بھون دینا بجائے خود دشت گردی ہے،اِسی لئے صدر عارف علوی نے اپنے ٹویٹ میں اس واقعہ میں مرنے والوں کو شہید کہا ہے۔
ان سارے واقعات پر وقتاً فوقتاً آنے والے موقف کو یکجا کر کے دیکھا جائے تو تاثر یہ بنتا ہے کہ پوری حکومت کے درمیان اوپر سے نیچے تک کہیں بھی ربط نہیں،ورنہ دو وزرائے اطلاعات ایسے بیانات نہ دیتے، جو انہوں نے واقعہ کے فوراً بعد جاری کر دیئے۔