سپریم جوڈیشل کونسل
عالمی طاقتوں کے اس اکھاڑے یعنی اسلامی جمہوریہ پاکستان کے سیاسی کینوس پر کبھی کبھی، اگرچہ بہت کم، کوئی نہ کوئی بصیرت افروز بات سننے پڑھنے کو مل جاتی ہے۔ اس کے بعد معلوم نہیں، کیوں ایک طویل سناٹا مشاہدے میں آتا ہے کہ دل میں ہول سا اُٹھتا ہے۔ اللہ کرے، اس دفعہ ایسے نہ ہو۔ ملک کے نئے چیف جسٹس جناب آصف سعید کھوسہ صاحب نے اپنی پہلی غیررسمی گفتگو میں بعض ایسی باتیں کہی ہیں،جنہیں اگر اصول فقہ کے پیمانے دلالات پر پرکھا جانچا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ وہ نہ کہتے ہوئے بھی بہت کچھ کہہ گئے ہیں۔
صرف ایک دو جملے ملاحظہ ہوں اور اگر ان کی کاٹ سے بچ سکیں تو تجزیہ کرنے میں آپ کو آسانی ہو گی: ’’تمام اداروں کو ان کے دائرۂ اختیار میں رکھنے کے لئے اداروں کے سربراہوں کے مابین ڈائیلاگ ہونا چاہئے۔ وہ صدر پاکستان سے گزارش کریں گے کہ وہ اعلیٰ سطحی اجلاس بلائیں اور خود اس کی سربراہی کریں‘‘۔ یہ تجویز ایک اعلیٰ ریاستی ستون کے سربراہ کی طرف سے آئی ہے، اس لئے اس نے خاصی توجہ حاصل کی۔میرا اپنا خیال ہے کہ جناب چیف جسٹس نے عامۃ الناس کے احساسات کی ترجمانی کی ہے۔ ترجمانی کی یہ شکل واقعتا اس لائق ہے کہ اسے عمل کی کوئی شکل دی جائے۔
اگر اس وقت اسے نظرانداز کر دیا گیا تو ان تمام اداروں اور فریقوں کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا، جن کا ذکر جناب چیف جسٹس نے اپنی تجویز میں کیا ہے: عدلیہ، انتظامیہ، مقننہ، مسلح افواج اور خفیہ اداروں کی اعلیٰ قیادت۔ ایک دوسری نظر سے دیکھا جائے تو اب اس ملک میں سیاسی سطح پر کیا رہ گیا ہے کہ مَیں کہوں کہ کسی کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔ آئینی حدود کے اندر رہتے ہوئے اس سطح کی دھماچوکڑی سے زیادہ افراتفری ممکن ہی نہیں ہے۔
جناب چیف جسٹس کی تجویز، میرا خیال ہے، ہر پاکستان کی خواہش ہو گی لیکن ذرا ترمیم کے ساتھ جس کا ذکر میں آگے چل کر کروں گا۔ اس وقت جس ادارہ جاتی ٹکراؤ کا سامنا ہم کر رہے ہیں، اسے دو حصوں میں بآسانی تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ٹکراؤ کی ایک شکل تو وہ ہے جو انتظامی اداروں کے مابین ہے۔ اس ٹکراؤ کا نہ تو کوئی جواز ہے او ر نہ یہ تادیر قرار پکڑ سکے گا۔ دو ایک دفعہ انتخابات بروقت ہو گئے تو سول حکومت اپنی رِٹ بحال کر ہی لے گی۔ قوموں کی زندگی میں ستر سال کوئی زیادہ مدت نہیں ہوتی۔
مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کے درمیان میثاقِ جمہوریت وہ اہم ترین دستاویز ہے، جس کے باوصف ملک میں دوسری دفعہ اسمبلیاں اپنی آئینی مدت پوری کرنے میں کامیاب رہی ہیں۔ ان دونوں جماعتوں کے تعلقات میں اُتار چڑھاؤ آتے رہے، لیکن جن نکات پر اُن کا اتفاق ہوا تھا، اس پر یہ دونوں قائم ہیں۔
فیصل واوڈا کا یہ بیان کہ ’’حکومت تو ہمارے پاس ہے، اقتدار نہیں ہے‘‘ سیاسی درجۂ حرارت کا پتہ دے رہا ہے۔ کوئی عجب نہیں کہ اقتدار کے حصول، یعنی سول حکومت کی رِٹ کی بحالی کی خاطر آنے والے دِنوں میں تحریک انصاف بھی دیگر جماعتوں کے ساتھ مل کر یا از خود اسی موجودہ میثاقِ جمہوریت میں شامل ہو جائے۔ آج بعض لوگوں کو یہ امکانی صورت بعید از فہم لگے تو دس سال قبل اس جماعت کے سربراہ کی آرا، بابت ایم کیو ایم دیکھ لیں۔ مغلظات کی کون سی شکل ہے، جو سربراہ تحریک انصاف نے مسلم لیگ(ق) کی بابت استعمال نہ کی ہو۔ آج یہ دونوں جماعتیں سیاسی سفر میں اس کی ہم رکاب ہیں۔ پس انتظامی اداروں کی خودسری اب کچھ ہی سالوں کی مہمان ہے۔
اس بارے میں جو ٹکراؤ اس وقت دیکھنے کو مل رہا ہے، آنے والے دنوں میں مجھے اس پر قومی اتفاق رائے ہوتا نظر آ رہا ہے، جس کے نتیجے میں سول حکومت کی رِٹ بحال ہو کر رہے گی، کوئی بھی غیرآئینی مہم جوئی اب کی بار ملک کو اس بند گلی میں لے جائے گی جس سے واپسی کا کوئی راستہ ہمارے پاس نہیں ہو گا۔
پے در پے عوامی رائے کی توہین اب پوری قوم کو اس نہج پر لے آئی ہے کہ اب ہم ہر قسم کی غیرآئینی چنگاری سے خاصے فاصلے پر رہیں توبہتر ہے۔ بدین میں سابق صدر آصف علی زرداری کا یہ کہنا کہ ’’زمینیں ختم ہو گئی ہیں، اب یہ چاہتے ہیں گیس اور تیل بھی لے لیں۔‘‘ ظاہر کر رہا ہے کہ اب کسی غیرآئینی ایڈونچر کی صورت میں وہ پاکستان کھپے کا نعرہ لگا بھی بیٹھے تو شایداسے وہ پذیرائی حاصل نہ ہو سکے گی جو ماضی میں ایک دفعہ ہو چکی ہے۔
ٹکراؤ کی دوسری شکل وہ ہے جو عدالتی اختیارات یا یوں کہیے کہ عدلیہ کی موجودہ ساخت کے باعث ہے۔ ذرا یاد کر لیں، ابھی کل کے سابق چیف جسٹس نے اپنے عدالتی اختیارات کی مدد سے کیا معاشرے کے ہر طبقے۔۔۔ ماسوائے ایک ۔۔۔ کے افراد کی پگڑی نہیں اچھالی اور قانون اس کا نہ کچھ بگاڑ سکا ہے اور نہ آئندہ بگاڑ سکتا ہے۔
کرنل انعام الرحیم نے مجھے خود بتایا کہ مَیں نے عدالت عظمی میں کھڑے ہو کر ان پانچ ریفرنس کی فائلیں دکھائیں کہ جناب پانچ ریفرنس آپ کے اپنے خلاف فائل ہو چکے ہیں۔ آپ کسی اور کے خلاف تو سماعت کرنے کے مجاز ہی نہیں ہیں۔ قاعدے قانون کا ذکر تو بعد میں آتا ہے، شرف انسانیت اور انسان کی از لی توقیرانسانیت کا تعلق کسی مذہب یا نظام سے نہیں ہوتا۔ بی بی سی کے الفاظ ملاحظہ ہوں۔ ’’اعلیٰ عدلیہ کے علاوہ ماتحت عدلیہ سے بھی ان کا سلوک خبروں اور تبصروں کی زینت بنتا رہا۔
انہوں نے لاڑکانہ کی ایک بھری عدالت میں ایڈیشنل سیشن جج گل ضمیر سولنگی کے ساتھ جو روّیہ اپنایا وہ کئی دن تک ٹی وی چینلز اور ٹاک شو پر زیرِبحث رہے اور پھر اس کے نتیجے میں مذکورہ جج کا استعفیٰ بھی سامنے آیا‘‘۔یہ صرف ایک مثال ہے جو قارئین کی یاددہانی کے لئے مَیں نے دی، ورنہ قارئین کا حافظہ اتنا ناقص نہیں کہ ان کا طرزِ انصاف بھلا بیٹھیں۔
مَیں نے ٹکراؤ کی جو شکل پہلے بیان کی ہے، اس کا کوئی آئینی حل نہیں ہے، بلکہ اس کی تحلیل وقت کے ساتھ ساتھ سیاسی انداز میں ہو گی، لیکن عدالتی اختیارات کی موجودہ شکل وہ اہم نکتہ ہے، جس پر فوری توجہ کی ضرورت ہے۔
آپ نے دیکھا کہ سابق چیف جسٹس کبھی ڈیم کی تعمیر پر کمربستہ رہے، کبھی اپنے ہی ہم جلیسوں کی کردار کشی کرتے رہے، کبھی جی چاہا تو آبادی پر قابو پانا ان کا مقصد حیات قرار پایا اور اس منصب پر براجمان ہوتے ہوئے وہ یہ سب کچھ عوام کے محصولات سے کرتے رہے،جس کے تقاضے مطلقاً دیگر ہیں۔
کوئی قانون، کوئی پارلیمان، کوئی آئین، کوئی ادارہ نہ تو ان کا احتساب کر سکا، نہ ان سے پوچھ سکا کہ عزت مآب آپ کے کرنے کے کام تو کچھ اور ہیں، آپ یہ کیا کر رہے ہیں۔ میرے خیال میں اب میں اپنی ایک سال قبل پیش کردہ تجویز دہرا دوں تو کوئی مضائقہ نہیں۔
میری ذاتی رائے میں سپریم جوڈیشل کونسل اپنی موجودہ ساخت میں علی الاطلاق بے بس ہے کہ وہ انصاف کے تقاضے پورے کرے۔ اللہ نے تو فیق دی تو اس بابت میں الگ سے بھرپور تجویز قلم بند کروں گا۔ فی الحال اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ آئینی ترمیم ہی اس کا مداوا کر سکتی ہے، لیکن یہ کام خاصی طوالت کا تقاضا کرتا ہے۔ فی الحال اگر پارلیمان اس کونسل پر تفصیلی قانون سازی ہی کر گزرے تو بہت بڑا کام ہوگا۔
اس کونسل کا نہ تو کوئی مستقل سیکرٹریٹ ہے، نہ یہ پارلیمان کو جوابدہ ہے، اس کے موجودہ قواعد تقریباً وہی منظر کشی کر رہے ہیں کہ جس طرح پانامہ لیکس کے لگ بھگ چار سو پاکستانی عہدیداروں میں سے ایک وزیراعظم کو پکڑ لیا گیا ،باقی کا کیا ذکر اور کیا مذکور۔ بعینہٖ کونسل کے چیئرمین کے خلاف پانچ ریفرنس اور دیگر متعدد ججوں کے خلاف بھی اس طرح کے ریفرنس کے ہوتے ہوئے بھی ایک جسٹس شوکت صدیقی ہی کو سزا دلوا دی گئی اور اسی کونسل کے توسط سے دلوائی۔
موجودہ حالت میں سپریم جوڈیشل کونسل ایک لحاظ سے بے بس اور ایک لحاظ سے گھڑے کی مچھلی ہے۔ بی بی سی نے سابق چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ پر جو سرخی جمائی، ملاحظہ ہو: ’’ثاقب نثار: پاکستان کے سب سے متنازع چیف جسٹس‘‘ اب میرے قارئین، ساحر کی میری بار بار کی تکرار سے شاید اُکتا چکے ہوں:
لوگ کہتے ہیں تو پھر ٹھیک ہی کہتے ہوں گے
عزت مآب چیف جسٹس نے جس قومی ڈائیلاگ کی مفید تجویز دی ہے، اس میں لاینحل دستوری مسائل بھی سر اُٹھا سکتے ہیں۔ ممکن ہے ، کوئی شخص عدالتی چارہ جوئی کر گزرے۔ اس صورت میں اب عدالتیں وہی فیصلہ دیں گی،جو آئینی حدود کے اندر ہو گا۔ امید ہے، اہلِ نظر اس پر مزید غور کریں گے۔
