ساہیوال میں گاڑی پر فائرنگ کر نےکے بعد جب سی ٹی ڈی اہلکار قریب آئے تو خلیل اور اہلکاروں کے درمیان کیا مکالمہ ہوا؟ حامد میر نے بڑ انکشاف کر دیا
ساہیوال (ڈیلی پاکستان آن لائن )ساہیوال میں دو روز قبل سی ٹی ڈی اہلکاروں نے ایک سفید رنگ کی گاڑی پر فائرنگ کر کے اس میں سوار تمام افراد کو قتل کر دیا ہے جبکہ تین بچے زندہ بچنے میں کامیاب ہو گئے ہیں لیکن وہ اپنے ماں باپ کی شفقت اور محبت سے زندگی بھر کیلئے محروم ہو گئے ہیںاور اس پر پوری قوم ہی افسردہ ہے اور حامد میر نے بھی آج اپنے کالم میں بے انتہا اہم ترین انکشافات کیے ہیں ۔
سینئر صحافی حامد میر نے اپنے آج اپنے کالم میں اپنے احساسات کو کچھ یوں بیان کرتے ہوئے کہا کہ ”آج اپنے دل کا کیا حال سناﺅں؟ یہ دل بہت زخمی ہے۔ ان زخموں کے پیچھے ایک بے بسی کا احساس ہے۔ بے بسی کا یہ احساس نشتر بن کر بار بار دلِ ناتواں پر زخم لگا رہا ہے۔ آج صرف میرا نہیں، اکثر اہلِ وطن کا دل زخمی ہے۔ جس جس نے سانحہ ساہیوال میں زندہ بچ جانے والے تین بچوں کے چہروں پر دکھ اور بے بسی کو محسوس کیا ہے، اسے ان بچوں کی بے بسی میں اپنی بے بسی نظر آئی ہو گی۔ جب بھی کسی بے گناہ کو گولیاں مار کر دہشت گرد یا لٹیرا قرار دیا جاتا ہے تو میری آنکھوں کے سامنے وہ تمام واقعات گھومنے لگتے ہیں جن میں پہلے کسی بے گناہ پر ظلم کیا گیا، پھر اس ظلم کو چار چاند لگا کر ایک کارنامہ بنا دیا گیا۔
حامد میر کا کہناتھا کہ ساہیوال میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ 19جنوری کی دوپہر بارہ بجے کے قریب ساہیوال ٹول پلازہ کے قریب کاﺅنٹر ٹیررازم (سی ٹی ڈی) کے اہلکاروں نے لاہور سے آنے والی ایک کار کے ٹائروں پر فائرنگ کی۔ جب یہ کار سڑک کنارے رک گئی تو اس پر تین اطراف سے فائرنگ کی گئی۔ فائرنگ کے باعث کار میں موجود عورتوں اور بچوں نے چیخ و پکار شروع کی تو رنگ برنگے کپڑوں میں ملبوس سی ٹی ڈی اہلکار کار کے قریب آئے۔ کار میں موجود زخمی خلیل نے کہا کہ ہماری تلاشی لے لو، ہم غیر مسلح ہیں، ہم شادی میں جا رہے ہیں، تم نے جو لینا ہے لے لو، ہمیں چھوڑ دو۔ پھر اس نے کہا کہ ہماری گاڑی میں بچے ہیں، ہمارے بچوں کو مت مارو۔ ایک سی ٹی ڈی اہلکار نے خلیل سے کہا کہ بچوں کو کار سے باہر نکالو۔ اس دوران خلیل اپنے ہوش کھو چکا تھا۔ پچھلی سیٹ پر موجود اس کی بیوی نبیلہ اور 13سال کی بیٹی اریبہ خاموش ہو چکی تھیں۔ دو سی ٹی ڈی والوں نے پچھلے دروازے کھول کر دس سالہ عمیر، سات سالہ منیبہ اور چار سالہ ہادیہ کو نکالا اور پھر بڑی سفاکی کے ساتھ کار میں موجود دو زخمی عورتوں اور دو زخمی مردوں پر مزید گولیاں برسائیں تاکہ ان میں سے کوئی زندہ نہ بچ جائے۔