آپریشن دہشتگردوں کیخلاف اور انٹیلی جنس بیسڈ تھا توسی ٹی ڈی اہلکاروں کیخلاف مقدمہ کیوں؟

آپریشن دہشتگردوں کیخلاف اور انٹیلی جنس بیسڈ تھا توسی ٹی ڈی اہلکاروں کیخلاف ...
آپریشن دہشتگردوں کیخلاف اور انٹیلی جنس بیسڈ تھا توسی ٹی ڈی اہلکاروں کیخلاف مقدمہ کیوں؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

لاہور(ویب ڈیسک)سی ٹی ڈی کے ہاتھوں سانحہ ساہیوال کے بعد سی ٹی ڈی کے اعلیٰ افسران نے اپنے ماتحت اہلکاروں کو بچانے کے لئے تھانہ سی ٹی ڈی میں الٹا مقتول ذیشان اور اسکے دونوں مبینہ ساتھیوں کے خلاف قتل، اقدام قتل، دہشت گردی اور دھماکہ خیز مواد رکھنے کے تحت مقدمہ درج کرلیا۔سانحہ ساہیوال کے بہت سارے شواہد نے اس ایف آئی آر کو جھوٹا ثابت کردیا۔چار صوبائی وزراکی پریس کانفرنس نے مزیدسوالات کھڑے کردیئے ۔

روزنامہ 92 نیوز کی رپورٹ کے مطابق ماہرین کا کہنا ہے کہ سی ٹی ڈی اہلکاروں کے خلاف تحقیقات ہو رہی ہیں تو محکمہ کے سربراہ ایڈیشنل آئی جی رائے محمدطاہرکی موجودگی تحقیقات پر اثرانداز ہو سکتی ہے ، اس لئے انہیں اس عہدے سے ہٹایا جانا ضروری ہے ،قانونی ماہرین نے سوال اٹھایا کہ صوبائی وزرا نے پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ یہ آپریشن دہشت گردوں کے خلاف تھا اور 100فیصد انٹیلی جنس کی بنیاد پر کیا گیا، اگر ایسا تھا تو پھر سی ٹی ڈی اہلکاروں کیخلاف مقدمہ کیوں درج کیا گیا؟صوبائی وزرا نے کہا کہ جے آئی ٹی کی جو بھی رپورٹ آئی ، اس پر مکمل عمل کیا جائے گا اگر یہ رپورٹ وزرا اور سی ٹی ڈی کے دعوے کے خلاف آئی تو پھر کس کو ذمہ دار ٹھہرایا جائے گا۔ماہرین نے کہا کہ سپروائزر کی معطلی سے کیا ہوگا، اصل میں تو محکمہ کے سربراہ کو معطل کیا جانا چاہیے ورنہ وہ تفتیش پر بھی اثرانداز ہو سکتے ہیں، انکے دور میں پہلے ہونے والے مقابلوں پر بھی سوالیہ نشان اٹھ گیا۔جب عینی شاہدین اور وقوعہ کی فوٹیجز میں ایسے کوئی شواہد نہیں ملے کہ کارسواروں کی طرف سے فائرنگ کی گئی تو پھر انہیں کیوں نشانہ بنایا گیا اورگرفتار کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی گئی۔اس طرح کے کیسز میں متعلقہ شخص کو مارنے کے بجائے حراست میں لینے کی کوشش کی جاتی ہے تاکہ اس سے اس کے نیٹ ورک کے بارے میں معلومات حاصل کی جائیں، تو پھر ذیشان کو قتل کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ سی ٹی ڈی کا کہنا ہے کہ گاڑی ان کے زیرنگرانی تھی تو پھر اسے لاہور میں ہی کیوں نہیں روکا گیا، یہاں جدید ترین سیف سٹی سسٹم کام کر رہا ہے ، اس سے مدد کیوں نہیں ملی، ساہیوال میں یا ٹول پلازہ کے کیمروں کی مدد حاصل کرنے کا دعویٰ کیوں کیا گیا؟گاڑی میں خود کش جیکٹیں ، دستی بم اور دیگر اسلحہ ہونے کا دعویٰ کیا گیا تو سی ٹی ڈی نے یہ اسلحہ میڈیا کو دکھایا کیوں نہیں اور اتنی زیادہ فائرنگ کے باوجود بارود کیوں نہیں پھٹا؟وزرا کی پریس کانفرنس پر عوامی حلقے یہ سوال نہیں اٹھائیں گے کہ اسے سی ٹی ڈی کے کوراپ کے طورپراستعمال کیا گیا۔قانونی ماہرین کے مطابق جھوٹی دفعہ درج کرنا قانوناً جرم ہے اور اس جرم میں دوران تفتیش ایف آئی آر کا مدعی سب انسپکٹر صفدر بھی سزا کا مستحق ہو گا،سانحہ ساہیوال میں سی سی ٹی وی فوٹیج میں کوئی ایسے شواہد نہیں ملتے جس سے ظاہر ہو کہ مین روڈ پر فائرنگ کا تبادلہ ہوا یا کار سوار ذیشان یا کسی اور کی طرف سے کوئی مزاحمت کی گئی ہو،کار سوار ذیشان کی سیٹ بیلٹ بھی نہیں اتری تھی تو اسکی طرف سے پہلافائرکرنا جھوٹ کا پلندہ ظاہر ہوتا ہے اور اسکی گاڑی سے کوئی دھماکہ خیز مواد ملااور نہ ہی کوئی ایسے شواہد ملے جن سے ظاہر ہو کہ ذیشان کے ساتھ موٹر سائیکل پر اسکے دو ساتھی دہشت گرد موجود تھے۔ کوئی ایسا ثبوت بھی نہیں پایا گیا کہ دونوں موٹر سائیکل سوار دہشت گردوں کی طرف سے فائرنگ کی گئی، وہ فرارہوتے بھی دکھائی نہیں دیئے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ سانحہ ساہیوال کے بعد سی ٹی ڈی کی جانب سے کی گئی دیگر کارروائیاں اور مقابلے بھی مشکوک بن گئے ہیں اسکے علاوہ وزیر اعلیٰ اور آئی جی پنجاب پولیس خود ساہیوال پہنچے تو انہیں بھی کوئی ایسے شواہد نہیں دکھائے گئے جس سے یہ ثابت ہو سکے کہ سی ٹی ڈی اور کار سواروں کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہوا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ سی ٹی ڈی سربراہ سمیت اعلی ٰافسروں میں بھی کھلبلی مچ گئی ہے کہ ان کی کارروائیوں کا بھانڈا پھوٹنے کا خدشہ ہے اور گرفتار کئے گئے سی ٹی ڈی کے اہلکار تفتیش کے دوران اپنا منہ نہ کھول دیں کہ یہ خونی آپریشن کس کے حکم پر کیا گیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ افسران خود کو بچانے کی خاطر اس تفتیش پر اثر انداز ہو سکتے ہیں تاکہ ان قاتل اہلکاروں کو بچایا جا سکے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ گرفتار کئے جانے والے اہلکاروں کو ان کے افسروں نے حوصلہ دیا ہے کہ انہیں بچانے کے لئے ہرممکن کوشش کی جائے گی۔