مقبوضہ وادی جموں و کشمیر میں آزار دہی کا 170واں دن
کشمیر کی شیرعورتوں کو سلام
مقبوضہ وادی جموں و کشمیر میں بھارتی فوجی محاصرے کو آج 170واں دن ہے۔ ریاست کی 80لاکھ نفوس سے زائد آبادی غاصب بھارتیوں کے ظلم و ستم کا سامنا جس ہمت اور ولولے سے کر رہی ہے وہ کشمیریوں ہی کا خاصہ ہے۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے حالیہ جائزہ اجلاس میں چین نے کہا ہے کہ بھارت مسئلہ کشمیر پر سلامتی کونسل کو جواب دے۔ سلامتی کونسل کے ارکان مقبوضہ جموں و کشمیر کی صورت حال پر تشویش میں مبتلا ہیں جہاں گزشتہ سال 5اگست سے غیر قانونی طور پر ریاست کی نیم آزادانہ حیثیت کا خاتمہ کرکے معمولاتِ زندگی کو معطل کر دیا گیا ہے۔
مقبوضہ وادی میں کشمیری خواتین مردوں سے زیادہ آزار دہی کا شکار ہیں۔ آزادی کے حصول کی قیمت وہ اپنی عزتوں اور جانوں کی صورت میں ادا کر رہی ہیں۔ بدباطن ہندو صاحبانِ اقتدار اپنی دریدہ دہنی سے باز نہیں آتے۔ ہندو رہنماؤں کے بے ہودہ فقرے بھارت کی گھناؤنی تاریخ کا حصہ بن رہے ہیں۔ بی جے پی کا ایم ایل اے وکرم سنگھ بولتا ہے۔”جماعتی کارکن کشمیر جائیں اور وادی کی اجلی رنگت والی عورتوں سے شادیاں کریں“ بھارتی فوجیوں نے وادی میں دہشت اور خوف کی فضا قائم کر رکھی ہے۔ بہت کم خبریں وادی سے باہر آتی ہیں اور جو آتی ہیں وہ انتہائی پریشان کن اور اندوہناک ہوتی ہیں۔
ہمالیہ کے دامن میں پھیلی ہوئی جنت نظیر وادی زمین پر فردوسِ بریں ہے۔ سُدھاکول (Sudha Kaul) کشمیری برہمن خاندان سے تعلق رکھنے والی ایک پڑھی لکھی خاتون ہے۔ انڈین سول سروس میں کمشنر کے عہدہ سے ریٹائر ہو کر امریکہ منتقل ہو چکی ہے۔ اس نے خود کو سماجی بہبود اور تعلیم کے لئے مخصوص کر لیا ہے۔ سُدھاکول نے کشمیری خواتین کے حوالے سے وادی کے بارے میں ایک خوبصورت کتاب The Tiger Ladies (شیر عورتیں) لکھی ہے جو چار نسلوں یعنی اس کی دادی، والدہ، خود اور اس کی بیٹیوں کے حوالے سے کشمیر کی یادداشتیں ہیں۔ کھرے اور سادہ پیرائے میں یہ یادداشتیں اس بے نظیر وادی کا تعارف ہیں جو زمین پر ایک جنت تھی اور بتدریج جسے جہنم بنا دیا گیا۔یہ کتاب پرعزم اور جفاکش کشمیری مرد اور عورتوں کے ذکر پر مشتمل ہے۔ آب و ہوا، بود و باش، خوراک اور پشمینوں کی باتیں دل میں اترنے والے انداز میں پیش کی گئی ہیں۔
ڈاکٹر سُدھاکول آج یقینا Tiger Ladies کی حالت زار پر کڑھتی ہو گی جو وادی میں 170 دنوں سے غاصب بھارتی فوجیوں کے گھیرے میں ہیں اور برفباری اور یخ بستہ موسم کی سختیوں کا مقابلہ کر رہی ہیں۔ ان کی آنکھوں کے سوتے خشک نہیں ہوئے اور ان کے سینوں سے اٹھنے والی آہ و فغاں کا دھواں کم نہیں ہوا۔ کشمیری خواتین مردوں کے شانہ بشانہ آزادی کی جدوجہد میں سرگرمِ عمل ہیں۔ خوف کا عنصر خواتین کے دلوں سے نکل چکا ہے۔ ان کے احتجاج میں تندی ہے اور ان کے فلک شگاف نعروں میں وہ شور ہے جو برف سے ڈھکے پہاڑوں پر سنسناتی ہواؤں کی گونج کا حصہ ہوتا ہے۔
اپنے وطن کی آزاد فضاؤں میں ہم لوگ آرام کی نیند سوتے اور پُرسکون دن گزارتے ہیں۔ ہم مقبوضہ وادی کے محصور باشندوں کے تجربات و مشاہدات کا صحیح طور پر ادراک نہیں کر سکتے۔ تاہم ہمیں ہر دم انہیں یاد رکھنا ہے اور عالمی ضمیر کو جگانا ہے کہ وہ وادی کے مجبور و مقہور لوگوں کی حمایت اور مدد کے ضمن میں اپنا فرض ادا کرے۔ مقبوضہ وادی کے لوگ میری دعاؤں میں ہمیشہ سرفہرست رہتے ہیں۔ میرا دل تڑپتا ہے جب میں وادی کی محبوس خواتین کو تصور میں لاتی ہوں۔ میں جانتی ہوں کہ میرا اضطراب تب ہی دور ہو گا جب وادی کے لوگ بھارتی غلامی اور استبداد سے نجات پائیں گے اور آزاد فضاؤں میں سکھ کا سانس لیں گے۔
کشمیر ایک ایسا خطہ ہے کہ جسے روحانی قوت سے تو فتح کیا جا سکتا ہے مگر بزورِ شمشیر نہیں (کلہن راج ترنگتی 392-1)
اے بلبل یہ نالہ و فغاں بے سود ہے، تجھے کون آزاد کر سکتا ہے۔ تیری رستگاری تیری سعی پیہم میں مضمر ہے۔ یہ تیرے ہاتھ ہی اپنی زنجیریں توڑیں گے(مہجور کشمیری)
نیند کے ماتے گُلوں کو اگر تجھے بیدا رکرناہے تو ان حقیر نغمہ سرائیوں کو چھوڑ دے۔ یہاں برق کے کوندوں، تُند و تیز طوفانوں اور زلزلوں سے کام لے(مہجور کشمیری)