پاکستان کے خلاف بھارت کی نئی آبی دہشت گردی
دریائے سندھ پر بھارت کی جانب سے چھ نئے ڈیموں کی تعمیر پر کام جاری ہے، جبکہ سندھ طاس معاہدے کی رو سے پاکستان کے حصے میں آنے والے دریاؤں پر ڈیموں کی تعمیر سے قبل بھارت پاکستان کو مقررہ معلومات کی فراہمی کا پابند ہے، تاہم بھارت نے تاحال دریائے سندھ پر 6 نئے ڈیموں کی تعمیر کے حوالے سے پاکستان کو نہ تو آگاہ کیا اور نہ ہی کوئی معلومات فراہم کی ہیں جس پر پاکستان کی طرف سے تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے اور معاملے کو متعلقہ فورم پر بھی اٹھانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ بھارت دریائے سندھ پر 12 میگا واٹ کا پن بجلی منصوبہ اور19 میگا واٹ کا دربک شیوک ہائیڈرو پاور منصوبہ تعمیر کر رہا ہے، جبکہ بھارت کی جانب سے24 میگا واٹ کے نیمو شلنگ منصوبے،25 میگا واٹ کے کارگل ہنڈر مین منصوبے،19میگا واٹ کے منگدم سنگرا منصوبے اور18اعشاریہ 5 میگا واٹ کے سنوک ہائیڈرو پاور منصوبے کی تعمیر کا بھی اعلان کیا گیا ہے……
یہ بھارت کا پاکستان پر پہلاآبی حملہ نہیں، بلکہ بھارت کی پاکستان کے خلاف آبی دہشت گردی کاسلسلہ قیام پاکستان کے ساتھ ہی شروع ہوگیا تھا۔ بھارت نے پاکستان پرپہلاآبی حملہ یکم اپریل 1948ء کومادھوپور ہیڈورکس سے کیا تھا۔ مادھوپور ہیڈورکس 1851ء میں دریائے راوی پر تعمیرکیا گیاتھا۔اس ہیڈورکس سے دونہریں لاہوربرانچ اورمین برانچ پنجاب کے ان علاقوں کوسیراب کرتی تھیں، جواب پاکستان کے پاس ہیں۔اسی طرح بہاولپورکی ریاستی نہراور9چھوٹے راجباہ سنٹرل باری دوآب سے پانی لیتے تھے اورسنٹرل باری دوآب کامنبع بھی مادھوپورہیڈورکس تھا۔بھارت نے یکم اپریل1948ء کو لاہوربرانچ، مین برانچ،اورسنٹرل دوآب باری نہروں کا 34 روز تک پانی بندرکھا، اس کے نتیجے میں پاکستان کی متاثرہ نہروں پرگندم کی فصل سوکھ گئی،لوگ اپنے جانوروں کے ساتھ نقل مکانی کرنے لگے اور ہزاروں جانورپانی نہ ملنے کی وجہ سے مرگئے تھے۔یہ بہت ہی ظالمانہ فعل تھاجوصرف ہندوبنیاہی کرسکتاتھاجو انسانی ہمدردی کے جذبات سے عاری ہے۔یہاں سے پاک بھارت آبی تنازع شروع ہواجوآگے چل کرسندھ طاس معاہدے کی بنیادبنا۔سندھ طاس معاہدے کامقصدبظاہر منصفانہ طریقے سے پانی کے مسئلے کاحل تھا،لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ معاہدہ ایک پھنداہے جوورلڈ بینک کے ذریعے پاکستان کے گلے میں ڈال دیاگیاہے۔
1911ء میں انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل لاء نے پانی کے صنعتی اورزرعی استعمال کے حوالے سے بین الاقوامی حدوں سے گزرنے والے دریاؤں کے لئے کچھ قانون وضع کئے تھے۔ان قوانین کی ایک اہم شق یہ ہے: ”کوئی بھی ملک اپنی حدودمیں پانی اس طورپراستعمال نہیں کر سکتاکہ جس سے دوسرے ملک کے لئے اس پانی کے استعمال میں حقیقی رکاوٹ پیداہوتی ہو“……مندرجہ بالابین الاقوامی قانون کی روسے یہ بات صاف عیاں ہے کہ بھارت پاکستان کی طرف بہنے والے پانی کوروکنے یاچھیننے کاکوئی حق نہیں رکھتاتھا۔بہرحال پانی کے استعمال کے اس انٹرنیشنل لاء کی موجودگی کے باوجودبھارت نے پاکستان کاپانی روکا۔یہی وقت تھا جب5فروری1954ء کوورلڈ بینک نے سندھ طاس معاہدے کامنصوبہ پیش کیاجس کی روسے تین مشرقی دریا، یعنی ستلج،راوی اوربیاس بھارت کے تصرف میں اوردریائے سندھ،جہلم اورچناب پاکستان کودینے کی تجویزپیش کی گئی۔سندھ طاس معاہدے کے پاکستان کے لئے مضمرات ونقصانات ا پنی جگہ ایک الگ اور تفصیل طلب موضوع ہے جوکسی دوسری نشست کامتقاضی ہے، یہاں صرف یہ بتانامقصودہے کہ جن مقاصدکی خاطرسندھ طاس معاہدہ کیاگیاتھا،پاکستان وہ مقاصدہنوزحاصل نہیں کرپایا۔اس معاہدے کاایک بڑامقصدیہ تھاکہ بھارت پاکستان کے حصے کاپانی ناجائزطریقے سے استعمال نہ کرے، جبکہ بھارت بدستورپاکستان کے پانیوں پرڈاکہ ڈال رہاہے۔سندھ طاس معاہدے کی ایک اہم شق یہ تھی کہ بھارت ستلج،بیاس اورراوی میں اتنا پانی ضروربہنے دے گاکہ جس سے ان دریاؤں کی آبی گزرگاہیں زندہ ر ہیں۔اس کے برعکس آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ یہ تین دریامکمل طورپرخشک ہوچکے، مرچکے اوران کی آبی گزرگاہیں فناکے گھاٹ اترچکی ہیں۔ مزیدستم یہ کہ بھارت دن بہ دن دریائے سندھ،جہلم اورچناب کاپانی بھی روک رہاہے جوسندھ طاس معاہدے کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ پاکستان کی اجازت کے بغیر ان دریاؤں پر ڈیم تعمیرکررہا ہے۔
بھارت یہ سب اس لئے کررہاہے کہ پاکستان کی زمینیں بنجرہوجائیں،یہاں کے لوگ پانی کی بوندبوندکوترس جائیں۔سوال یہ ہے کہ کیاہم پانی کی اہمیت نہیں سمجھتے،کیاہم نہیں جانتے کہ پانی زندگی ہے پانی آب حیات ہے۔زندگی کادارومدارپانی پرہے۔ انسان کی تخلیق پانی کی مرہون منت ہے۔پانی انسان کے لئے اتنا ہی ضروری ہے جتنی کہ آکسیجن۔دنیا کے تمام چرند،پرند اور نباتات کے لئے پانی ایک جزولاینفک ہے۔ سرسبز وشا داب، لہلہاتی فصلوں کے لئے پانی رگ جان ہے۔ انسان خوراک اور دیگر مسائل سے تو کسی نہ کسی طرح نبٹ لیتا ہے، مگر جہاں پانی نہ ہو، وہاں زندگی کا نام ونشان بھی مٹ جاتا ہے۔پاکستان جہاں کبھی پانی وافر مقدار میں پایاجا تھا آج پانی کی شدید کمی کا شکار ہے، اسے ریڈ زون میں گنا جانے لگا ہے۔ پاکستان کے دریا بوند بوند پانی کو ترس رہے ہیں۔ ڈبلیو ایچ او کے مطابق پاکستان میں 37 بیماریوں میں سے 21 کا تعلق گندے پانی اور سیوریج کے نظام سے ہے۔
پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسز کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کی85فیصد شہری آبادی پینے کے صاف پانی سے محروم ہے۔اسی طرح جناح انسٹی ٹیوٹ کی رپو ر ٹ میں بتایا گیا ہے کہ قیام پاکستان کے وقت ہر پاکستانی کے لئے 5 ہزار کیوبک میٹر پانی دستیاب تھا، جو 2011ء میں ایک ہزار 400 مکعب میٹر رہ گیا ہے۔2014ء میں یہ مقدار ایک ہزار مکعب میٹر تھی جو کہ 2025ء میں 550مکعب میٹر رہ جائے گی۔ پاکستان میں پانی کی کمی کا اصل مجرم ہمارا دشمن بھارت ہے۔بھارت کی آبی جارحیت کا مقصد پاکستان کی زمینوں کو بنجر اور 22 کروڑ افراد کے ملک کوبغیرجنگ کے فتح کرنا ہے۔بھارت ایک طرف ہمیں مسلسل پانی سے محروم کررہا ہے اوردوسری طرف اپنے ہاں پانی کے ذخائرمیں اضافہ کررہاہے۔اس وقت بھارت کے پاس پانی جمع کرنے کی صلاحیت 33فیصد جبکہ ہماری استعداد صرف 10فیصد ہے۔.بھارت 114سے زائد ڈیم بنا چکا ہے، اس کے برعکس پاکستان میں پانی ذخیرہ کرنے کے صرف دو بڑے ذخائر، یعنی منگلا اور تربیلا ہیں۔ ہمارے موجودڈیموں میں پانی کی گنجائش15,6 ملین ایکڑفٹ تھی جو اب 12ملین ایکڑ فٹ رہ گئی ہے۔ڈیم نہ ہونے سے ملکی معیشت کو سالانہ 36 ارب ڈالر کا نقصان پہنچ رہاہے۔بجلی کی زیادہ پیداوار اسی صورت میں ممکن ہے کہ بھارت کو آبی جارحیت سے روکا جائے۔
نریندر مودی اور آر ایس ایس کے دہشت گرد 1960ء کے سندھ طاس معاہدے کی دھجیاں اڑانے اور ہمارے دریاؤں میں پانی کی بجائے خون بہانے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔بھارت دریا ئے جہلم کا پانی روک کر اس پر 400میگا واٹ بجلی کی پیداوار کا حامل کرشن گنگا ڈیم بنا رہا ہے جو سندھ طاس معاہدے کی کھلی خلاف ورزی ہے۔بگلہیار ڈیم بھی بھارت کی آبی جارحیت کا منہ بولتا ثبوت ہے، جس سے دریائے چناب 98فیصد تک خشک ہو چکا ہے، اس کی وجہ سے چار لاکھ ایکڑ سے زائد اراضی بنجر ہو چکی ہے۔ ہماری 70فیصد آبادی کا انحصار زراعت پر ہے جس کے لئے دریا کا پا نی نہ ہونے کے برابر ہے۔ انڈس ڈیلٹاریگستان میں تبدیل ہو رہا ہے، جہاں لاکھوں ایکڑ زمین تباہ ہو چکی ہے۔آبی حیات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ چکا ہے۔بھارت ہماری تباہی کا کوئی موقع ضائع جانے نہیں دیتا۔ جب ہمیں گندم اور چاول کی فصل کے لئے پانی درکار ہوتا ہے تو وہ ہمارا پانی روک لیتا ہے اور جب مون سون میں پانی وافر ہو جاتا ہے تو وہ پانی چھوڑ کرہمیں سیلاب سے دو چار کر دیتا ہے۔پاکستان میں 1950ء سے 2018ء کے دوران شدید قسم کے تقریباََ 30 سیلابوں سے لاکھوں لوگ لقمہء اجل بنے، ہزاروں مکانات تباہ ہوئے، جبکہ مالی نقصان دس بلین ڈالر سے زائد کا ہوا اورلاکھوں مربع کلو میٹر رقبہ متاثر ہوا۔
بھارت اس وقت بے شمار ڈیم اور بیراج بنا چکا ہے۔پاکستان میں جب بھی کوئی ڈیم بننے لگتا ہے تو بھارت شور مچانا شروع کر دیتا ہے کہ یہ متنازعہ علاقہ ہے، لیکن وہ خودکشمیر جیسے متنازعہ علاقے میں دس لاکھ فوجی سنگینوں کے پہرے میں کشمیریوں کے خون سے ڈیم بنانے میں جتا ہوا ہے۔ان حالات میں دریائے سندھ پر چھ نئے ڈیموں کی تعمیر ہمارے خلاف کھلی اوراعلانیہ جنگ ہے۔سوال یہ ہے کہ ہم کب تک اس صورت حال پرآنکھیں بندکئے بیٹھے رہیں گے اور اپنی بے بسی کاتماشہ دیکھتے رہیں گے،اب وقت آپہنچا ہے کہ بھارت کی پاکستان کے خلاف آبی دہشت گردی کے خلاف پاکستان کے تمام سٹیک ہولڈرز،تمام مذہبی وسیاسی جماعتیں مشترکہ ومتفقہ لائحہ عمل اختیارکریں، تاکہ بھارت جیسے کھلے دشمن کو اس کی جارحانہ کارروائیوں سے روکا جا سکے۔