اسٹیبلشمنٹ کا ڈیٹھ وارنٹ

اسٹیبلشمنٹ کا ڈیٹھ وارنٹ
اسٹیبلشمنٹ کا ڈیٹھ وارنٹ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


اگرچہ نون لیگ کامطالبہ ہے کہ وہ کسی عبوری سیٹ اپ کا حصہ بننے کی بجائے پی ٹی آئی حکومت کے خاتمے کے نتیجے میں فوری انتخابات کی طالب ہوگی لیکن بعض ایک میڈیا رپورٹس کے مطابق شہباز شریف نے عبوری سیٹ اپ کا حصہ بننے کے لئے ایک پروپوزل بنا کرنواز شریف کوبھجوائی تھی جس میں پارٹی کی جانب سے نگران وزیر اعظم کے عہدے کیلئے چار نام تجویز کئے تھے۔ تاہم یہی میڈیا رپورٹس بتاتی ہیں کہ نواز شریف نے اس پروپوزل کو سختی سے رد کردیا ہے اورپارٹی سے کہا ہے کہ وہ نئے انتخابات کے مطالبے کے سوا کسی اور آپشن کو مدنظر نہ رکھے جس کے بعدپی ٹی آئی حکومت کے ترجمان افواہوں کے گند سے بھرا ٹرک لے کر شہر میں نکل کھڑے ہوئے ہیں اور تعفن کے سبب شہریوں نے اپنے ناکوں کو ہاتھوں، رومالوں اور فیس ماسکوں سے ڈھانپا ہوا ہے اور ان ڈرائیوروں کو برا بھلا کہتے پائے جاتے ہیں جو مزے سے ٹرک کے شیشے چڑھائے جگہ جگہ افواہوں کا گندپھیلاتے جا رہے ہیں اور کوئی ان کو پوچھنے والا نہیں ہے۔ 


سیاسی حالات کا جائزہ لیا جائے توایسا محسوس ہوتا ہے کہ نواز شریف اس وقت ایک مضبوط پوزیشن پر کھڑے ہیں کیونکہ نہ صرف یہ کہ وہ خود اس وقت پنجاب سمیت ملک کے مختلف علاقوں میں مقبولیت کے اعلیٰ درجے پر نظر آتے ہیں بلکہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ یعنی پی ڈی ایم کے نام پرانہوں نے ملک بھر کی سیاسی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر بھی اکٹھا کر رکھا ہے جو نون لیگ کے موقف کی رطب اللسان نظر آتی ہیں۔ نواز شریف کی عوامی مقبولیت کا اندازہ تو محترمہ مریم نواز کے ان دو ٹوئٹس سے بآسانی ہوجاتا ہے جو ان دنوں سوشل میڈیا کی زینت بنے ہوئے ہیں جن میں سے ایک میں پشاور کے ایک ٹرک کے پیچھے نواز شریف کی جاذب نظر تصویر کے اوپر مشہور سرائیکی گیت ”پِچھاں مڑ وے ڈھولا تیری لوڑ پے گئی اے“ جلی حروف میں درج ہے جبکہ دوسرے میں ایک رکشے کے پیچھے رکشہ ڈرائیور نے اپنے ہاتھ سے Miss You Nawaz Sharifلکھ کرساتھ میں ایک اور لائن کااضافہ کیا ہوا ہے کہ ”ہمیں پرانا پاکستان چاہئے!“۔ اسی طرح ایک تیسرے ٹوئیٹ میں مریم نواز نے نواز شریف کو Comback Kidقرار دیا ہے جس سے مراد ایک ایسے شخص سے ہوتی ہے جو اپنی بھرپور کردارکشی کے باوجودعوامی مقبولیت کی بنا پردوبارہ سے پردہ سکرین پرابھرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔


یہ سب کچھ ایک ایسی صورت حال میں ہو رہا ہے جب ملک میں بے تحاشا مہنگائی اور تحریک لببیک پاکستان کے دوبارہ سے سر اٹھانے پر عوام عمران خان سے ناراض ہیں اور اطلاعات کے مطابق اسٹیبلشمنٹ نے پیغام دے دیا ہے کہ وہ وزیر اعظم کے عہدے سے ازخود 20نومبر سے پہلے پہلے مستعفی ہو جائیں وگرنہ اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے ان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک میں حائل ہر رکاوٹ ہٹالی جائے گی۔ اس میں شک نہیں ہے کہ موجودہ حالات میں فری اینڈ فیئر انتخابات کا انعقاد کروانا دراصل اسٹیبلشمنٹ کا خود اپنے ہاتھوں سے اپنے ڈیتھ وارنٹ پردستخط کرنے کے برابر ہے لیکن چونکہ بیوروکریسی کسی بھی طور اسٹیبلشمنٹ کے کہنے میں نہیں ہے اور حکومت کو گڈ گورننس میں معاونت نہیں دے رہی ہے اس لئے اسٹیبلشمنٹ کو ایک قدم پیچھے ہٹنا پڑاہے۔ یہی نہیں بلکہ اگر ایم آرڈی کی تحریک کے دوران سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا اس کے خلاف صف آرا ہو گئے تھے اورپی ڈی ایم کی تحریک میں اب پنجاب بھی باقی تین صوبوں کے ساتھ جاکھڑا ہواہے اور اسٹیبلشمنٹ راہ فرار اختیار کرتے ہوئے جنوبی پنجاب کے سہارے پر اپنی ساکھ بچائے کھڑی ہے۔ اسلئے اس کے باوجود کہ پی ٹی آئی دامے، درمے، سخنے اس کی ترجمان بنی ہوئی ہے لیکن گورننس کے محاذ پراس کی فقیدالمثال نااہلی نے اس ترجمانی کو بھی زنگ آلود کردیا ہے اور اگرچہ اس میں شک نہیں ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اسی طرح پی ٹی آئی کی حفاظت کرتی نظر آتی ہے جس طرح بتیس دانت مل کر زبان کی حفاظت کرتے ہیں مگر پھر بھی ہر گزرتے دن کے ساتھ سیاسی صورت حال اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھ سے ریت کی طرح پھسلتی جا رہی ہے۔


جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کے خلاف ایم آرڈی کی تحریک بارے کہا جاتا ہے کہ وہ اندرون سندھ سے تعلق رکھنے والی بائیں بازو کی جماعتوں کا اتحاد تھااور پنجاب میں اسے خاص پذیرائی نہیں مل پائی تھی۔ اس کے علاوہ تحریک کے پرتشدد ہونے کی وجہ سے جہاں 199گرفتاریاں ہوئی تھیں وہیں 189ہلاکتیں اور 126کارکنوں کے زخمی ہونے کی رپورٹیں بھی تھیں لیکن اس کے مقابلے میں پی ڈی ایم رائٹ اورلیفٹ ونگ کی جماعتوں کاحسین امتزاج ہے۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ ایم آرڈی کی جانب سے جنرل ضیاء کے ریفرنڈم اور 1985کے عام انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان ایک فاش غلطی ثابت ہوا تھالیکن جہاں تک پی ڈی ایم کا تعلق ہے تو اس نے نہ صرف یہ کہ سینٹ کے انتخابات کے بائیکاٹ کا فیصلہ واپس لیا بلکہ اب تک ہر سیاسی فیصلے کا حصہ بن کر اپنے آپ کوایسی فاش غلطیوں سے محفوظ رکھاہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پی ڈی ایم کی جانب سے ایک آزاد اور شفاف انتخاب کے مطالبے کے سامنے اسٹیبلشمنٹ ہر آئے دن کے ساتھ ڈھیر ہوتی جا رہی ہے اور صورت حال پی ڈی ایم کی مرضی و منشا کے مطابق آگے بڑھ رہی ہے۔ اس لئے فوری انتخابات کا نہیں توعام انتخابات کا مطالبہ پورا ہوتا نظر آتا ہے۔نوا ز شریف اسٹیبلشمنٹ کو دباؤ میں لانے میں کامیاب ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی کو بھی اس بس میں سوا ہوناپڑے گا یا پھر بلاول کو اس برس بھی امریکہ کا ایک اور دورہ کرنا پڑے گا!

مزید :

رائے -کالم -