تبدیلی کیسے آئے؟

Jan 21, 2025

نسیم شاہد

ڈرائیور آپ جتنا بھی اچھا بٹھا دیں، اگر گاڑی خراب ہے، اس کا انجن ہلکا ہے، تیز چلنے سے قاصر ہے تو ڈرائیور کی ساری مہارت جاتی رہے گی۔ یہ بات برسوں پہلے مجھے پروفیسر خالد سعیدنے سمجھائی تھی۔ وہ نفسیات کے استاد تھے، تاہم علم و دانش کا ایک بحرِ بیکراں تھے۔ مجھے یاد ہے بات اس موضوع پر ہو رہی تھی پاکستان میں اچھے حکمران بھی آئے اور بُرے بھی لیکن دونوں کی کارکردگی کا گراف ایک ہی رہا۔ اچھے حکمران اپنا کوئی نقش نہ چھوڑ سکے۔ خالد سعید جو ذوالفقار علی بھٹو کو ایک اچھا حکمران سمجھتے تھے، یہ کہنے پر مجبور تھے کہ وہ اچھے ڈرائیور ہونے کے باوجود ملک کی گاڑی کو اس لئے آگے نہیں لے جا سکے کہ اس کے رنگ پسٹن بیٹھے ہوئے تھے۔ اس سے ان کی مراد یہ تھی کہ جس نظام کے تحت بھٹو کو پاکستان کی تقدیر بدلنی تھی، وہ ایک ناکارہ، کرپٹ اور استحصالی نظام تھا، چونکہ نظام کی جڑیں مضبوط تھیں، طاقت کے مراکز بھی اس کے ساتھ تھے، اس لئے بھٹو پر غالب آ گیا۔بھٹو اس میں دب گئے۔ اس کابال بھی بیکا نہ کر سکے، الٹا اس نظام کی سنگینی کا شکار ہو گئے۔ آج ان کی باتیں مجھے اس لئے یاد آئیں کہ اس وقت بھی حالات ویسے ہی ہیں،اچھا ڈرائیور مل بھی جائے تو یہ ملک نہیں چلتا، اس کی گاڑی بس رینگتی رہتی ہے۔ اس گاڑی کو بدلنے کا کسی حکمران کو موقع نہیں ملا جس نے تھوڑی بہت کوشش کی تو اسے خمیازہ بھگتنا پڑا۔ نام لینے کی ضرورت نہیں، سب جانتے ہیں، جس نظام میں استحصالی طبقوں کے مفاد کو اولیت دی گئی ہو اور ملک کے کروڑوں عوام کو پس پشت ڈال دیا جاتا ہو، اس میں اتنی سکت کہاں ہوتی ہے کہ وہ کوئی تبدیلی لا سکے۔  اس ملک میں انقلاب لانے کی باتیں بھی کی جاتی رہی ہیں۔ کون سا انقلاب اس نظام کے ذریعے آ سکتا ہے، جو خود غاصب ہو۔ہم اکثر اپنی سوچ کی تان اس نکتے پر توڑتے ہیں کہ اس ملک میں سیاستدانوں نے کچھ نہیں کیا، ہاں درست ہے کچھ نہیں کیا مگر ان کے ہاتھ میں تھا ہی کیا۔ ذرا سی طاقت پکڑتے تو پکڑ لئے جاتے تھے۔ عوامی مقبولیت سیاستدانوں کی دشمن بن جاتی ہے۔ اس نظام کی چھتری تلے رہیں تو جب تک چاہیں سیاست اور حکمرانی کریں ذرا سا اس نظام کو بری نظر سے دیکھنے کی جرائت کی تو نشان عبرت بننے کے لئے تیار ہو جائیں۔ محمد خان جونیجو جیسا بھلا مانس وزیراعظم اپنی معصومیت میں یہ غلطی کر بیٹھا تھا۔ غلطی بھی کچھ زیادہ بڑی نہیں تھی، بس ججوں، جرنیلوں، بیورو کریٹوں اور وزراء کو بڑی گاڑیوں کی بجائے چھوٹی گاڑیوں پر بیٹھانے کا فیصلہ کیا تھا۔ ضیاء الحق جو اس وقت نظام کے کسٹوڈین تھے، ان سے ناراض ہو گئے۔ وزیراعظم کی حیثیت سے جونیجو سندھڑی گئے تھے مگر وزیراعظم کے طور پر انہیں اسلام آباد آنا نصیب نہیں ہوا۔ صرف سیاستدانوں کو اس بات کا دوش دینا مناسب نہیں کہ وہ عوام کے لئے کچھ نہیں کر سکے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ ان میں کبھی وہ اتحاد نہیں پیدا ہوا جو نظام کی تبدیلی کا باعث بن سکتا۔ ایک کے بعد دوسرے نے اپنا کندھا صرف اسی لئے پیش کیا تاکہ استحصالی نظام برقرار رہے۔

یہ تو ہیں اوپر کی باتیں، اب ذرا نیچے کی طرف آتے ہیں۔ کوئی بھی حکمران اس دور میں اتنا طاقتور نہیں جتنے طاقتور ہماری تاریخ کے حکمران نظر آتے ہیں۔ ملک کا پھیلاؤ اور عوام کی آبادی کا بے تحاشہ بڑھنا، گڈگورننس کے لئے ایک چیلنج ہے۔لوگ نواب آف کالا باغ کی مثال دیتے ہیں کہ اس نے اپنے دور اقتدار میں پنجاب کی انتظامیہ اور پولیس کو سیدھا کر دیا۔ کسی کی جرائت نہیں تھی حکم عدولی کر سکے۔ لیکن صاحبو! اس دور اور آج کے حالات میں بہت فرق ہے۔ آج اچھے سے اچھا حکمران بھی انتظامیہ کی نااہلی یا مجرمانہ غفلت کے باعث بے توقیر ہو جاتا ہے۔ فرض کرتے ہیں وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز بہت کچھ کرنا چاہتی ہیں۔ کیا ان کے پاس صوبے میں نچلے درجے تک ایسا نظام ہے جس پر بوجھ ڈال کے وہ اپنا ایجنڈا پورا کر سکیں۔ ایک ضدی اور نااہل بیورو کریسی ہے جو آج بھی حکمرانوں کو بے وقوف بنانے کا ہنر جانتی ہے۔ جو مریم نواز کے دورے پر اعلیٰ انتظامات کرکے، بڑی تقریب سجا کے ان کا دل خوش کر دیتی ہے۔ گزشتہ دنوں مریم نواز ملتان آئیں تو پرانا شجاع آباد روڈ تجاوزات سے پاک کرکے چمکا دیا گیا، کیونکہ انتظامیہ کو خدشہ تھا مریم نواز نشتر ہسپتال ٹو کا دورہ کرنے نہ آ جائیں۔ انتظامیہ نے وہاں سستے ریڑھی بازار بھی لگوا  دیئے جن پر بینرز آویزاں تھے ”مریم نواز وزیراعلیٰ پنجاب کے ویژن اور احکامات پر عوام کی خدمت کا مشن“ میرے ایک جاننے والے دوست اپنی بچی کو نوازشریف زرعی یونیورسٹی چھوڑنے گئے جو پرانا شجاع آباد روڈ پر واقع ہے۔ اس وقت سستے بازار بھی لگے ہوئے تھے،سڑک پر پھول اور گملے بھی سجائے گئے تھے۔ صفائی بھی اعلیٰ درجے کی تھی جب وہ شام کے وقت بیٹی کو لینے یونیورسٹی گئے تو وہاں کسی چیز کانام و نشان نہیں تھا۔ اس کی جگہ ریڑھی والوں نے پوری سڑک روک رکھی تھی۔ ٹریفک جام تھیا ور گندگی کے ڈھیر بھی موجود تھے۔ اب آپ خود ہی بتائیں اس قسم کی شعبدہ بلکہ ڈرامے باز سرکاری مشینری کے ذریعے کوئی حاکم، کوئی وزیراعلیٰ، کوئی وزیراعظم تبدیلی لا سکتا ہے؟ اس کا ویژن کتنا ہی کشادہ ہو، جب عمل کرنے والے ایک ناکارہ گاڑی کی صورت موجود ہوں تو ڈرائیور کیا کر سکتا ہے۔

دوسری طرف ہمارے حکمران بھی اپنی سوچ میں تبدیلی نہیں لاتے۔ وہ کاریگر بیورو کریسی کے جال میں آجاتے ہیں جو ان کے شاہانہ استقبال اور بادشاہی فیصلوں کا پرچار کرکے انہیں شیشے میں اتار لیتی ہے جس بیورو کریسی کا انداز ہی یہ ہو کہ حکمرانوں کو خوش کرنا ہے اور اس کے بعد عوام کی درگت بنانے کا سلسلہ جاری رکھ کے کام چلانا ہے، وہ گڈگورننس کیسے قائم ہونے دے گی۔ مریم نوازویسے تو بہت متحرک ہیں صوبے کے مختلف حصوں میں جا رہی ہیں، ان کے جانے پر اس شہر کی حالت ایک روز کے لئے سنور جاتی ہے لیکن اس سے عوام کو کوئی ریلیف تو نہیں ملتا۔ریلیف تو تب مل سکتا ہے جب نچلی مشینری ان احکامات پر عملدرآمد کرے جو عوام کی فلاح و بہبود کے لئے جاری ہوتے ہیں۔ مریم نواز نے دو باتوں کا ٹاسک دے رکھا ہے۔ ایک صوبے سے پکی اور عارضی تجاوزات کا خاتمہ اور دوسرا مصنوعی مہنگائی کے خلاف ایکشن، کیا ان دونوں پر عملدرآمد کے لئے چیف سیکرٹری پنجاب نے کوئی لائحہ عمل بنایاہے۔ اگر بنایاہے تو کیا اس کی نگرانی اور جائزے کا بھی کوئی انتظام کیا ہے، اگر انہی افسروں کو ٹاسک دے کر جو ذمہ دارہیں، نگرانی بھی انہی کو سونپنی ہے تو یہ بیل منڈھے نہیں چڑھ سکتی۔ جعلی اعداد و شمار اور منتخب علاقوں کی تصویریں اور وڈیوز بنا کر وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ بھیجنا ایک بہت پرانی روایت ہے۔

مزیدخبریں