شا ٹاپو، بندر کلہ، پٹھو گرم، کو کلا چھپاکی، بول میری مچھلی، لکن میٹی، بنٹے مقامی کھیل تھے گردش ایام کاشکار ہو چکے، گلی ڈنڈا اور لٹو اب بھی کھیلے جاتے ہیں 

Jan 21, 2025 | 10:11 PM

مصنف:شہزاد احمد حمید
قسط:56
 بچپن کے کھیل؛
 ”شا ٹاپو، بندر کلہ، پٹھو گرم، کو کلا چھپاکی، بول میری مچھلی، لکن میٹی، لٹو چلانا، بنٹے“وغیرہ مقامی کھیل تھے جو اب گردش ایام کاشکار ہو چکے ہیں۔ البتہ گلی ڈنڈا اور لٹو اب بھی کھیلے جاتے ہیں۔میں نے بچپن میں بنٹے بھی کھیلے، پٹھو گرم بھی کھیلا، بہنوں کے ساتھ سٹاپو بھی کھیلا، لٹو بھی خوب گھمائے اور تانگے پر بھی بے شمار بار سواری کی۔ گدھوں کو بار برداری کا کام بھی کرتے دیکھا۔ اماں ماچھن کے تندور سے روٹیاں بھی لگوائیں اور معاوضہ میں آ ٹے کے2 پیڑے بھی دئیے۔ تندور سے گرم گرم سرخ ہوئی روٹی، مسور کی دال، اچار کے ساتھ بھی کھائی۔ دال کا ”چھونگا“ بھی لیا۔ کہیں شرینی تقسیم ہو رہی ہوتی تو بہن یا بھائی کاحصہ لینا بھی نہ بھولتے تھے۔ کتنی معصومیت تھی ہم میں کتنی سادگی۔ غرض میں نے اس زمانے کی ہر روایت کو نہ صرف دیکھا بلکہ اس کا حصہ بھی رہا۔ 
بچپن کی یادوں میں ساگ، مکئی کی روٹی،چنے بھوننے کی بھٹی، مرونڈا، دال سویاں، ٹیکری، نمک اور شکر پارے،بیل گاڑی(گڈے)پر لدا چارہ یا گنااور گڈے کے ساتھ چلتے بھونکتے رکھوالی والے کتے۔ سائیکل پر یا پیدل ڈاک تقسیم کر تا ڈاکیا، منی آرڈر سے بھیجے گئے پیسے، بچوں کو سنا ئی جانے والی نظمیں ”بلبل کا بچہ، ٹوٹ بٹوٹ نے کھیر پکائی، بابا بلیک شیپ۔“(یہ نظمیں میں اپنی ڈیڑھ سالہ پوتی امیری کو سناتا ہوں تو وہ ایسے غور سے سنتی ہے جیسے ایک ایک لفظ سمجھ رہی ہو۔ماشا اللہ۔) عورتیں صبح صبح ہی بیدار ہو جاتی تھیں۔ دودھ بلوتیں، مکھن نکالتیں۔صبح ناشتے میں تندور ی روٹی اور چاٹی کی لسی لازمی جزو ہو تی تھی۔اس دور میں ”تام چینی“ کے برتن ہوا کرتے تھے۔ پیتل کی ہانڈیاں جن کو کلی بھی کرائی جاتی تھی۔سٹیل کے برتن تو بہت بعد میں آئے۔
پرانے پیشے؛
کمہار، لوہار، بڑھئی، موچی، گھوڑے کی نعل ٹھوکنے والا یہ میرے بچپن کے با کمال گاریگر تھے۔ کمہار برتن بناتا، گھر کی تعمیر کا سامان ڈھوتا (اینٹ، ریت، مٹی وغیرہ) لوہار لوہے کے آلات(درانتی، کسی، قینچی، کھرپے وغیرہ بناتا)بڑھئی لکڑی کا کام کرتا، موچی جوتے بناتا اور مرمت بھی کرتا۔ ساراسال ان کے پاس فرصت نہ ہوتی، پینے کا پانی گھڑونجی میں رکھے گھڑوں میں ہوتا، لوہار کی بھٹی سارا دن ہی گرم رہتی۔ فرنیچر میں کرسی بھی پرانی طرز کی تھی اور بہت کم گھروں میں ہوتی، بیٹھنے کے لئے زیادہ تر چارپائی استعمال ہوتی تھی۔ ادب اور احترام کے لئے مہمان یا بزرگ کو چارپائی کے سرہانے کی جانب بٹھایا جا تا تھا۔ چارپائی پر ہی سوتے، کھانا بھی کھاتے تھے۔مٹی کے علاوہ پیتل کے برتن تھے۔ گلاس، پیالے عموماً مٹی کے ہی ہوتے تھے اور چائے کے پیالے بھی۔بچپن کی ایک اور یاد وہ چلتی پھرتی دوکان تھی جو مالک نے کندھوں پر بانس کی لچک دار لاٹھی کی مدد سے اٹھائی ہوتی جس کے ایک پلڑے میں دال سویاں، نمک پارے، بھنے چنے، بھنی مکئی، دوسرے میں مرونڈا، ٹانگری، وغیرہ ہو تی تھی۔میلے اور عرس ان چلتی پھرتی دوکانوں کے بغیر جچتے نہیں تھے۔ ہاں اس دور کے”ماشکی“کو بھلا کیسے بھولا جا سکتا ہے۔ گلی میں چڑھکاؤ کرنا ہو یا گھر میں پانی بھرنا ہو اس کی کمر سے لٹکا چمڑے کامشکیزہ اور ہنستا مسکراتا ماشکی چاچا یہ سارے کام خوشی خوشی کرتا تھا۔ وقت اور زمانے نے ان پیشوں کو اپنی رفتار میں گم کر دیا ہے۔ 
 (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزیدخبریں