مصنف:ڈاکٹر وائن ڈبلیو ڈائر
ترجمہ:ریاض محمود انجم
قسط:116
باربر نے یہ فیصلہ بھی کیا کہ وہ اب اپنی والدہ کے پاس بھی بہت کم جائے گا جو اس کے پاس اکثر آ جاتی اور دیکھتی کہ وہ اپنی زندگی کیسے گزار رہا ہے اور اسے زیادہ خوراک کھلا کھلا کر تباہ کر رہی ہے۔ جب باربر کو یہ معلوم ہو گیا کہ اس کی والدہ نے اسے کبھی بھی زیادہ کھانے سے منع نہیں کیا اور ہمیشہ زیادہ کھانے کی حوصلہ افزائی کی تو اسے ان لمحات پر غصہ آنے لگا جو اس نے اپنی والدہ کے ساتھ گزارے تھے۔
بالآخر باربر کو احساس ہوگیا کہ ا س کا موٹاپا دور کرنے کے لیے کوئی بھی بیرونی طریقہ کارگر ثابت نہیں ہو سکتا کیونکہ صرف اس کا اندرونی عزم وارادہ ہی اس کا موٹاپا کم کرنے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ اب میں بھی باربر کوتبدیل نہیں کر سکتا تھا، اسے اب خو دکو خو دہی تبدیل کرنا تھا۔ اب آہستہ آہستہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ باربر نے بیرونی محور کے حصار سے آزاد ہو کر اندرونی محور کے حصار کو اپنا لیا۔ اب باربر بہت ہی پتلا دبلا ہے اور ساتھ ہی خوش بھی ہے۔ اب اس کو علم ہو چکا ہے کہ اس کی والدہ، بیوی، بچے یا ستارے، اس کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کر رہے بلکہ وہ خود اپنے آپ کے ساتھ اچھا سلوک کر رہا ہے۔
نجومی، ماہرین فلکیات، جو لوگ خوش قسمتی پر یقین رکھتے ہیں، بیرونی عوامل و عناصر کی حیثیت سے آپ کے کردار اورشخصیت پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ یا آپ کو یہ یقین دلایا جاتا ہے کہ آپ کی زندگی فلاں مخصوص ڈگر اختیار کرے گی تو پھر آپ بغیر سوچے سمجھے لوگ اس راستے پرچلے جائیں گے اور دوسروں کے روئیے اور رائے کے مطابق اپنی زندگی گزاریں گے۔
جب آپ اپنے اندازفکر، اپنی شخصیت اوراپنے کردار کی ذمہ داری، دوسروں کے ہاتھ میں دے دیتے ہیں تو پھر آپ کبھی بھی کامیاب، پرمسرت اور بھرپور زندگی نہیں گزر سکتے۔ مؤثر زندگی گزارنے سے مرا دیہ نہیں ہے کہ آپ نے اپنی زندگی کے تمام مسائل حل کر لیے ہیں۔ مؤثر زندگی گزارنے سے مراد یہ ہے کہ آپ بیرونی محور کے حصار کو ترک کر اندرونی محور کے حصار کے اندر آ گئے ہیں۔ اس طرح آپ اپنے روزمرہ معمولات زندگی میں تمام جذباتی اورذہنی فیصلوں کی ذمہ داری خود اٹھاتے ہیں۔ آپ ایک مشینی انسانی نہیں ہیں جو بٹن دبانے کے ذریعے حرکت کرتا ہے اور دوسروں کی ہدایات اور احکامات پر عمل کرتا ہے۔ آپ مروجہ معاشرتی روایات اور اقدا رپر ناقدانہ نظر ڈال سکتے ہیں اوراپنے اندازفکر، سوچ اور رویے کو اپنی شخصیت اور ذات کے زیراثر لا سکتے ہیں۔
الزام تراشی اور شخصیت پرستی…… بیرونی عوامل و عناصر کے دو رخ
جب آپ اپنی زندگی میں کسی کام کی ذمہ داری اٹھانا نہیں چاہتے تو الزام تراشی ایک نہایت ہی آسان طریقہ ہے۔ الزام تراشی پر مبنی رویہ اور طرزعمل بیرونی محورکے حصار میں مقید شخص کی پناہ گاہ ہے۔
ہر قسم کی الزام تراشی محض وقت ضائع کرنے کے مترادف ہے۔ کسی دوسرے شخص کا خواہ کس قدر قصو رہو اورقطع نظر اس کے کہ آپ اسے کس قدر موردالزام ٹھہراتے ہیں اس کے باعث آپ میں تبدیلی رونما نہیں ہو سکتی۔ الزام تراشی اس لحاظ سے مفید ثابت ہوتی ہے کہ آپ اپنی پریشانی اور مایوسی کے لیے کسی بھی بیرونی عنصر کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں لیکن الزام تراشی، بذات خود ایک احمقانہ فعل ہے۔ اگر الزام تراشی کا کوئی اثر ہے تو اس کا آپ پر اثر مرتب نہیں ہو گا۔ آپ کسی پر الزام تراشی کے ذریعے اسے شرمندگی اور ندامت میں مبتلا کر سکتے ہیں لیکن آپ دوسرے شخص کے اس روئیے کو تبدیل نہیں کر سکتے جس کے ذریعے آپ پریشان ہو رہے ہیں۔ آپ اس کے روئیے کے متعلق نہ سوچنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں لیکن اس کے روئیے کو تبدیل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔