بچوں سے مشقت کی ممانعت کا پنجاب آرڈیننس2016 ء(2)
آرڈیننس کے مطابق آجر اپنے بالغ ملازم سے ایک دن میں آرام کے وقفے کے ایک گھنٹے کے لازمی دورانیہ سمیت سات گھنٹو ں سے زائد اوقات کار سے ہر گز تجاوز نہیں کرے گا، جبکہ بالغ افراد کے لئے شام سات بجے سے صبح آٹھ بجے کے دوران کام یا اوور ٹائم کی ممانعت ہو گی، نیز کام کے اوقات سکول یا تعلیمی ادارو ں کے اوقات سے متصادم نہیں ہوں گے، جبکہ ہفتہ وار ایک تعطیل کی اجازت ہو گی ۔آرڈیننس کے مطابق کسی بھی صنعتی،تجارتی و کاروباری اداروں میں ملازمین سے اس آرڈیننس کے بر خلاف کام لینے پر آجر کو کم از کم سات دن اور زیادہ سے زیادہ چھ ماہ تک قید، جبکہ دس ہزار روپے سے پچاس ہزار روپے جرمانے کی سزا دی جا سکے گی اور سات دن کے لئے اس صنعتی،تجارتی، کاروباری یا کمرشل ادارے کو سیل بھی کیا جاسکے گا۔اس کے علاوہ خطرناک پیشوں میں بالغ افراد سے مشقت لینے یا اس کی اجازت دینے پر چھ ماہ قید ،75ہزار روپے جرمانہ یا دونوں سزائیں اکٹھی دی جا سکیں گی۔
ان سزاؤں کے اگلے مرحلے میں خلاف ورزی پر کم از کم تین ماہ اور زیادہ سے زیادہ پانچ سال تک قید کی سزا سنائی جا سکے گی ۔بچوں ا ور بالغ افراد کو غیر اخلاقی سر گرمی ،جسم فروشی ،منشیات کی تیاری یا خرید و فروخت کے لئے غلام بنانے پر 10لاکھ روپے تک جرمانہ ،پانچ سال قید یا دونوں سزائیں اکٹھی دی جا سکیں گی۔گارڈین یا والدین کی موجودگی میں اس آریننس کے بر خلاف بچوں اور بالغ افراد سے کام لینے پر گارڈین اور والدین کوبھی آجر کے برابر سزا دی جائے گی۔کسی بھی کاروباری ،تجارتی یا صنعتی ادارے کی حدود میں بچوں اور بالغ افراد کی موجودگی ان کی مشقت یا ملازمت تصور کی جائے گی ۔آرڈیننس کے مطابق خطرناک پیشوں کی تعریف میں کسی بھی ریلوے اسٹیشن پر مسافر ٹرانسپورٹ، سامان یا مال برداری اور کیٹرنگ کے شعبے میں ایک پلیٹ فارم سے دوسرے پلیٹ فارم تک آنا جانا ،چلتی ٹرین میں آمدورفت ،ریلوے لائنوں کے درمیان کام کی انجام دہی،بندر گاہ کی حدود،زیرزمین مائنز کے اندر اور زمین کے اوپر پتھر کی کانوں، جہاں بلاسٹ کیا جاتا ہے، پر کام یا اس میں مدد ،بجلی سے چلنے والی کٹنگ مشینوں، جیسے آراء،قینچی، گلوٹین،زرعی مشینری،تھریشرز، چارہ کاٹنے والے مشینیں، 50والٹ سے زائد بجلی کی تاروں کا کام،چمڑے کی رنگائی ،کرم کش و حشرات کش کی تیاری،ہر قسم کے زہریلے مواد یا سرطان پیدا کرنے والے کیمیکلز ،سیمنٹ انڈسٹری،آتش بازی ،لیکوڈ پٹرولیم گیس اور کمپریسڈ نیچرل گیس سلنڈرو ں کی بھرائی ،شیشے اور دھاتوں کی فرنس ،چوڑیوں کی تیاری ،کپڑا و قالین بافی ،سیوریج لائنوں ،جوہڑ اور سٹوریج ٹینکوں میں کام ،پتھروں کی کٹائی ،تمباکو ،نسوار اوربیڑی کی تیاری ،سرجیکل آلات کی تیاری،مسالوں کی پسائی ،بوائلر ہاؤس ،سینما و منی سینماگھر اور سائبر کلب ،صابن کی تیاری ،بلڈنگ اور کنسٹرکشن انڈسٹری وغیرہ شامل ہیں۔
حکومت پنجاب چائلڈ لیبر کے خاتمے کے حوالے سے مناسب قانون سازی ، انتظامی و دیگر معاملات کے لئے مشاورت کی غرض سے آٹھ رکنی صوبائی کمیٹی برائے چائلڈ لیبر بھی تشکیل دے رہی ہے جس میں حکومت ، آجر ، اجیر اور سول سوسائٹی کے اراکین شامل ہوں گے۔ بھٹہ خشت پر چائلڈ لیبر کے تقریباً خاتمے کے بعد اب حکومت پنجاب ورکشاپوں ، پٹرول پمپس ، ہوٹلوں اور ریستورانوں پر چائلڈ لیبر کے شکار 15سال سے کم عمر بچوں کو فارمل ایجوکیشن کے ساتھ فنی تربیت اور کفالت کے لئے مناسب وظائف بھی فراہم کرے گی ۔ چائلڈ لیبر سروے کے دوسرے مرحلے میں صوبائی دارالحکومت لاہور سمیت مظفر گڑھ ، ساہیوال ، سرگودھا ، لودھراں ، بہاولپور ، چکوال ، منڈی بہاؤالدین ، نارووال ، چنیوٹ ، جھنگ اور بھکر کے اضلاع میں ان تین سیکٹرز میں ہونے والے چائلڈ لیبر کے بارے میں مستند اور تصدیق شدہ اعداد و شمار کے حصول کا کام 15اگست تک مکمل کر لیا جائے گا ۔ پہلے مرحلے میں 10اضلاع سے حاصل ہونے والے اعداد وشمار کے مطابق آٹوورکشاپس پر 5420، پٹرول پمپس پر 71،جبکہ ہوٹلوں اور ریستورانوں میں 1636بچے چائلڈ لیبر کر رہے ہیں، جنہیں مرحلہ وار سکولوں میں داخل کرواکر رسمی تعلیم کے ساتھ ساتھ ان کے انتخاب کے مطابق تربیتی اداروں سے سکلز ٹریننگ فراہم کی جائے گی، تاکہ وہ مستقبل میں بہتر آمدن حاصل کر سکیں ۔
چائلڈ لیبر سروے کے تیسرے مرحلے میں باقی 13اضلاع میں اعدادوشمار 15ستمبر تک حاصل کر لئے جائیں گے۔ ایسامربوط اور پائیدار لائحہ عمل تشکیل دیا جارہا ہے جس کے تحت بہتر مستقبل کو مد نظررکھتے ہوئے والدین اپنے بچوں کی از خود تعلیم و فنی تربیت کے لئے آمادہ ہوں ۔ چائلڈ لیبر خاتمے کے منصوبے کے لئے مالی سال 2016-17ء میں 449ملین روپے مختص کئے گئے ہیں، تاکہ تما م اضلاع میں متحرک این جی اوز اور ضلعی انتظامیہ کے تعاون سے بچوں کو نان فارمل سکولوں میں تعلیم کی فراہمی بھی یقینی بنائی جاسکے ۔ صوبہ پنجاب کی پہلی لیبر پالیسی اور ڈومیسٹک لیبر پالیسی بھی منظور کی جاچکی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ بحیثیت قوم ہم بھٹہ خشت، آٹوورکشاپس، ہوٹلوں و ریستورانوں سمیت تمام صنعتی ، تجارتی ،کاروباری و کمرشل اداروں سے چائلڈ لیبر کے خاتمے کے لئے موثرکردار اداکریں، کیونکہ چائلڈ لیبر کا خاتمہ صرف حکومت کی ہی ذمہ داری نہیں ،یہ ہم سب کا مشترکہ فریضہ ہے اور آنے والی نسلوں کی بہتری کے لئے یہ ہم سب کا فرض ہے کہ بچوں کے حقوق سے متعلق شعور اجاگر کیا جائے ۔لوگوں کو بھی حکومتی آرڈیننس سے مستفید ہونے کے لئے یہ سمجھنا ہو گاکہ ان کے بچوں کا درخشاں مستقبل صرف اور صرف تعلیم کے حصول ہی میں پنہاں ہے۔صوبائی ادارے اور تمام متعلقہ سٹیک ہولڈرز مربوط رابطوں اور موثر نگرانی کے ذریعے اس آرڈیننس پر عملدرآمد یقینی بنائیں۔ مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد، این جی اوز، علماء اکرام اور سیاست دانوں سمیت تمام مکاتب فکر کو مل کر کوشش کرنا ہوگی، تب ہی اس معاشرے سے چائلڈ لیبرکا خاتمہ ممکن ہوگا اور اپنے نونہالوں کے تابناک مستقبل کے حوالے سے پاکستان کا مثبت تشخص ابھرکرسامنے آئے گا۔ حکومت پنجاب پاکستان بھر میں چائلڈ لیبر کے خاتمے کے لئے آرڈی ننس اور چائلڈ لیبر کا شکار بچوں کے لئے خصوصی تعلیمی وامدادی پیکج کے حوالے سے ایک بار پھر دوسرے صوبوں سے سبقت لے گئی ہے۔امید واثق ہے کہ ان حکومتی اقدامات سے کم از کم صوبائی سطح پر چائلڈ لیبر کا خاتمہ یقینی ہو جائے گا۔(ختم شد)