پولیس یونیفارم پھر تبدیل!

پولیس یونیفارم پھر تبدیل!
 پولیس یونیفارم پھر تبدیل!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

خواتین و حضرات! پنجاب پولیس کی وردی ایک بار پھر تبدیل کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے ،جس کی وزیراعلیٰ پنجاب نے منظوری بھی دے دی ہے۔ 18جولائی کے تقریباََ سبھی اخبارات میں یہ خبر شائع ہوئی ہے۔ پولیس کی اولیو گرین یونیفارم پذیرائی حاصل نہیں کر سکی جس پر پولیس افسروں نے وزیراعلیٰ کو وردی تبدیل کرنے کی تجویز دی ، جبکہ وزیراعلیٰ نے منظوری دیتے ہوئے تجاویز مانگ لیں۔ اس منظوری پر کئی سوالات جنم لے رہے ہیں۔ پہلا سوال تو یہ ہے کہ وہ اولیو گرین ان لاکھوں وردیوں کا اب کیا ہو گا؟ کیا اُنہیں پولیس کے پاس ہی رہنے دیا جائے گا، نیلام کیا جائے گا یا لنڈا بازار میں فروخت کر دیا جائے گا؟۔۔۔دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ ان وردیوں اور ٹوپیوں پر اُٹھنے اخراجات کو اب کس مد میں شمار کیا جائے گا؟ مزید یہ کہ نئی وردیوں کے لئے پھر کروڑوں روپے خرچ کرنے کا تجربہ کیا جائے گا۔۔۔اور پھر ناکامی کی صورت میں کیا ہو گا؟ سب سے پہلا سوال تو یہ ہے کہ اس موجودہ یونیفارم کے تبدیل کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ تو اس کا جواب ہم دیں گے۔ پہلی وجہ تو یہ ہے جیسا کہ خود محکمہ پولیس نے تسلیم کیا ہے کہ نئی وردی پذیرائی حاصل نہیں کر پائی۔ اس کی وضاحت انہوں نے نہیں کی، تاہم قوی امکان یہی ہے، جیسا کہ ہماری چند پولیس والوں سے بات چیت ہوئی ہے، کہ عوام نے پولیس کو اس حلیہ میں تسلیم نہیں کیا، بلکہ اُنہیں Easy لیا ہے۔

یہ وردی کہیں سے پولیس کی وردی نہیں لگتی، بلکہ خاص طور پر اس وردی کی شرٹ جو ٹی شرٹ ہے وہ تو بالکل Casual سی لگتی ہے، جس پر پولیس والے کا نہ تو نام لکھا ہے، نہ ہی کوئی بیج بِلا وغیرہ لگا ہے۔ لگتا ہے کوئی لونڈا لپاڑا موٹرسائکل لے کر تفریح کے لئینکلا ہے، اُس پر پی کیپ اسے مزید غیر سنجیدہ بناتی ہے۔ جب وہ کسی نوجوان کو روکتے تھے تو وہ کوئی نوٹس نہیں لیتے تھے۔ اگر رک بھی جاتے تھے اور پولیس والا اپنا تعارف کراتا تھا کہ مَیں پولیس آفیسر ہوں، تو لوگ جواباََ کہتے: ’’اوجا کم کر‘‘۔ اس وردی کا کوئی رعب نہیں تھا جو ہماری پولیس کا خاصا ہے، جسے لوگ دور سے دیکھ کر خوف زدہ ہوجایا کرتے تھے۔ پھر یہ بھی دیکھنے والی بات ہے کہ افسر اور ماتحت کی وردی ایک جیسی ہے، لہٰذا یہ رعب نہیں پڑتا تھا کہ کون آفیسر ہے اور کون ماتحت۔ اس کا مٹی سا رنگ یہ تاثر دیتا ہے کہ کوئی شخص مٹی میں لوٹ پوٹ کر آیا ہے۔ کالی قمیض اور خاکی پینٹ انگریزوں کے زمانے سے خوف، دہشت اور برتری کی علامت چلی آرہی تھی، یوں اچانک تبدیل ہونے سے پولیس کا سارا وقار اور رعب خاک میں مل گیا۔ وہ عام شہریوں کے قریب ہو گئے ، جو انہیں قبول نہیں۔


خواتین و حضرات !ہر تجربے، تحقیق اور کام کو شروع کرنے سے پہلے اس پر فیڈبیک لیا جا تا ہے، اس کا Pre-test کیا جاتا ہے۔ اس اولیو گرین وردی کا بھی جائزہ لیا جانا چاہیے تھا۔ مثلاًاس وردی میں ملبوس چند پولیس والوں کو کسی گلی محلے یا بازار میں بھیجا جاتا۔ گلی محلے کے بچے اور لڑکے اگر ان سے خوف زدہ ہو کر گھروں میں گھس جاتے اور دروازہ اندر سے بند کرلیتے، تو وردی پاس تھی۔ اسی طرح بازار میں اگر دکاندار اور ریڑھی والے، پھل فروش اور قلفی والے گھبرا کر انہیں سلام کرتے اور باداموں والی قلفی پیش کرتے، تو وردی پاس تھی۔ کالی شرٹ اور خاکی پتلون والی وردی میں پولیس والے کو کچھ کہنا سننا نہیں پڑتا تھا۔ نہ رعب ڈالنا پڑتا تھا، نہ موٹی موٹی گالیاں دینا پڑتی تھیں۔ سارا کام وردی ہی کر دیتی تھی، جو علامت تھی خوف کی، ہٹو بچو کی۔ اب تو وہ ایک عام شہری لگتے ہیں جن کی کوئی وقعت نہیں ہوتی۔ وردی کی بہت اہمیت ہوتی ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں تو وردی بہت اہم ہوتی ہے جو کسی شخص کی حیثیت، رتبے، وقار اور رعب کی نشاندہی کرتی ہے۔ یہ پہچان ہے کسی شخص کے اسٹیٹس کی۔ خاص طور پر پولیس کی وردی میں کوئی چور ڈاکو آرام اور تسلی سے واردات کرسکتا ہے اور ایسی واداتیں ہوتی رہتی ہیں۔ اب ایسی غیر قانونی حرکتوں کا ارتکاب کرنے والوں کے لئے بھی مشکلات پیش آرہی تھیں۔


کالی شرٹ اور خاکی پینٹ والی وردی کی یہ خاصیت بھی تھی کہ کالی قمیض کو ہفتوں مہینوں دھونے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔ وردی کا ایک ادب اور احترام بھی ہوتا ہے اوراسے اس انداز میں ہی تیار کرنا چاہیے کہ اس کو زیبِ تن کرنے والے شخص کا احترام از خود بلند ہو جائے، اس میں سنجیدگی اور متانت بھی ہو۔ ورنہ ایک عام شہری اور باوردی شخص میں کیا فرق ہوا۔ اب رہا سوال کہ پولیس کی نئی وردی کیا ہو اور کسی ہو؟ تو اس بارے میں چند اشارے ہم اوپر دے چکے ہیں۔ ویسے ہماری دانست میں پرانی وردی ،یعنی کالی شرٹ خاکی پتلون ہی بہتر ہے جو دور سے ان کی شناخت کرادیتی ہے جو خود پولیس والوں اور عوام کے حق میں بہتر ہے۔ اس سے اپنی جیپ میں سوئے ہوئے پولیس والے، موٹرسائیکل پر تین پولیس والوں کا (بغیر ہیلمٹ) کے گشت کرنا، گنڈیری والے کی ریڑھی پر سے مفت گنڈیریاں چوسنا، تھانوں میں ملزم کی تفتیش کے لئے ظلم و تشدد کرنے کی تصاویر لینے اور عوام کے سامنے لانے میں آسانی رہے گی۔ دوسری جانب پولیس والوں کے لئے قانون شکن اور غنڈا عناصر کی سر کوبی میں آسانی رہے گی۔


خواتین و حضرات! تازہ تازہ خبر آئی ہے کہ پولیس کی وردی کی بغیر پلاننگ تبدیلی سے ملکی خزانے کو کروڑوں روپے کا نقصان ہوا ہے۔ متعلقہ ذمہ داران کے خلاف کارروائی کی قرارداد پنجاب اسمبلی میں جمع کرادی گئی ہے۔ قرارداد مسلم لیگ (ق) کی جانب سے جمع کرائی گئی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس پر کوئی عمل ہوتا ہے یا اسے بھی روی کی ٹوکری کی نذر کر دیا جاتا ہے۔ ہمیں یونیفارم کے تبدیل کرنے پر اعتراض نہیں ، تاہم قومی خزانے کے ضیاع پر تشویش ضرور ہے،جس کی تفتیش ہونی چاہیے۔ قرارداد میں مزید کہا گیا ہے کہ حکومت پولیس کی وردی درست نہیں کر سکی تو لاء اینڈ آرڈر کیسے کنٹرول کرے گی؟پنجاب پولیس وردی جو مرضی پہنے، پر اپنی ذمہ داری محنت، توجہ، ایمانداری اور فرض شناسی سے ادا کرے۔ پھر عوام اُنہیں پہچاننے لگیں گے:

وہ اس ادا سے جو آئے تو کیوں بھلانہ لگے
ہزار بار ملوں پھر بھی آشنا نہ لگے

مزید :

کالم -