وہ پاکستانی جن کی زندگی مشکیزہ کی محتاج ہے

وہ پاکستانی جن کی زندگی مشکیزہ کی محتاج ہے
وہ پاکستانی جن کی زندگی مشکیزہ کی محتاج ہے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تصاویر :بلاچ قادر
یقیناً اب لوگ ماشکی کو بھول چکے ہوں گے ۔ماشکی مشکیزے میں پانی بھر کے گھروں میں پینے کا پانی مہیا کیا کرتا تھا ۔اب یہ کردار مفقود ہیں سمجھیں ۔اگر کبھی کسی میوزیم میں جانے کا اتفاق ہوتو وہاں مشکیزہ دیکھ کر آپ کو احساس ہوسکتا ہے کہ ماضی میں پانی کا یہ کولر کیا کیا کام دکھاتا تھااور اس کو کیسے بنایا جاتا تھا۔ ماضی میں بجلی کی سہولیات موجود نہ ہونے کی وجہ سے لوگ ٹھنڈا ٹھار پانی پیتے تھے اور یہ مشکیزہ کا مرہون منت ہوتا تھا ۔یہ مشکیزہ چیز کیا تھا ۔
مشکیزہ کو بلوچی زبان میں ’’مشک‘‘کہا جاتا ہے ۔زمانہ قدیم میں پانی کو ٹھنڈا کرنے کے لئے مشکیزہ ایجاد کیا گیاتھا ۔ مشکیزہ بنانے کا کام کافی مشکل اور کھٹن ہونے کی وجہ سے بہت کم لوگ اس کو بناتے ہیں اور زیادہ تر بلوچ خواتین مشکیزہ بنانے کا کام کرتے ہیں.مشکیزہ بنانے کے لئے بکری اور بکرا کی کھال استعمال کی جاتی ہے.بکری یا بکرے کو ذبح کرنے کے بعد کھال کو اتارنے میں کافی احتیاط کی جاتی ہے تاکہ اس میں سوراخ نہ ہونے پائے اور سوراخ ہونے کی صورت میں کھال مشکیزہ بنانے کے لئے کام نہیں آتا .یہ کام بھی ماہر لوگ ہی کرتے ہیں.کھال کو اتارنے کے بعد تقریباً چار ہفتوں تک ا سورج کی تپش میں رکھ کر خشک کیا جاتا ہے اور پھر کیکر کے چھلکے لیکر انکو گرم پانی میں ابالا جاتا ہے۔ دس دن تک یہ کھال پانی میں رکھی جاتی ہے.جس سے یہ چمڑہ مضبوط ہوجاتا اور پھٹنے کا خطرہ ٹل جاتا ہے ۔اسکے بعد پریشم کے دھاگوں سے غیر ضروری سوراخ بند کرکے صرف پانی ڈالنے اور نکالنے کے لئے ایک بڑا سوراخ رہ جاتا ہے . پانی اس میں رکھنے کی وجہ سے کھال کی اصل رنگت تبدیل ہوجاتی ہے تو اسکا رنگ سرخ ہوجاتا ہے ۔کھال مضبوط اور پائیدار بن جاتی ہے. بعد میں مشکیزہ براؤن کلر کا بن جائے گا جو اس کا اصل شکل کہلائے گا.


مشکیزہ کو بلوچ ثقافت کا ایک اہم حصہ سمجھا جاتا ہے اس حوالے سے معروف بلاگراور مقامی صحافی غلام یاسین بزنجو کہتے ہیں کہ مشکیزہ کو لوگ پانی ٹھنڈا کرنے کے لئے استعمال کرتے اور مشکیزہ میں پانی رکھنے سے اسکی رنگت اور ذائقہ برقرار ہوتی.انکا کہنا ہے کہ مشکیزہ کی تیاری کا مرحلہ انتہائی مشکل اور کھٹن کام ہے جسے آج بھی مکران کے دہیی علاقوں میں استعمال کیا جارہا ہے.اور جب ماضی میں پوری دنیا میں پانی ٹھنڈا کرنے کے ذرائع نہ تھے تو بلوچوں نے اپنی ضرورت کے پیش نظر مشکیزہ بناکر دنیا کو فریج اور ڈیفریزر بنانے کا آئیڈیا فراہم کردیا...


رائٹر اور محقق گلزار گچکی کا کہنا ہے کہ جب انسانوں نے گاؤں کی صورت میں رہائش اختیار کرنا شروع کی تو قحط کے دنوں میں پانی کو ذخیرہ کرنے کے آغاز خیال کیا۔ تب سے مشکیزے کا استعمال شروع ہواہے.وہ کہتے ہیں آج بھی ان علاقوں میں مشکیزے کا استعمال ہورہا ہے جہاں اب تک بجلی نہیں پہنچی ہے.غلام یاسین بزنجو کہتے ہیں کہ آج بھی کیچ اور آواران کے دور افتادہ گاؤں میں مشکیزے کا استعمال کیا جارہا ہے کیونکہ بجلی کی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے دیہاتوں میں پانی کو ٹھنڈا کرنے کے لئے مشکیزہ استعمال کرنے کی قدیم روایت زندہ ہے...


مشکیزہ کی ایک چھوٹی قسم بھی ہے جسے مقامی زبان میں "کلی"کہا جاتا ہے اور یہ چھوٹی بکری یا بکرے کی کھال سے تیار کی جاتی ہے. اسے عام طور پر چرواہے استعمال کرتے ہیں جوکہ چھوٹا ہونے کی وجہ سے ہلکی وزن کا ہوتا ہے۔


مشکیزے پاکستان کے دور افتادہ پہاڑی اور میدانی علاقوں میں لوگوں کے لئے ڈیپ فریزر اور فریج کا کام دیتے ہیں. ہرپاکستانی ان پسماندہ پاکستانیوں کی زندگی کے اس معمول کا اندازہ کرسکتا ہے خاص طور پر وہ جو فریج ،ڈیپ فریزر،کولر کے ٹھنڈے پانی کے عادی ہوں ۔
(بلاگر۔۔۔بلوچستان کے ساحلی شہر پسنی سے تعلق رکھنے والے ظریف بلوچ ماحولیات اور سیاحت پر فیچر لکھتے اور سماجی موضوعات پر مختلف ویب سائٹس میں بلاگ لکھتے ہیں.بلوچستان یونیورسٹی سے سیاسیات میں ماسٹر کرچکے ہیں)

.

نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

بلاگ -