25جولائی کو کیا ہونے جا رہا ہے؟
طبل جنگ بج چکا ، اب میدان سجے گا 25 جولائی کو جب پاکستان کی تا ریخ کا ایک دلچسپ ترین انتخابی معرکہ ہوگا، یہاں پر دلچسپ ترین کے الفاظ دانستہ طور پر استعمال کئے جا رہے ہیں،کیونکہ ہماری ملکی تاریخ میں 1970ء کے انتخابات کے بعد 2018ء کے انتخابات ہی ایسے انتخابات ہیں جن کے نتائج کے بارے میں حتمی طور پر کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا۔ 90کی دہائی میں پاکستان میں جتنے بھی انتخابات ہوئے ان میں ذرا سا بھی سیاسی شعور اور ادراک کرنے والے شخص کے لئے یہ جاننا مشکل نہیں ہوتا تھا کہ مرکز میں کس کی حکومت قائم ہو رہی ہے۔ اس دور میں پہلے سے ہی انتخابی نتائج کو بھانپنے کا ایک آسان اور سادہ فارمولہ یہ ہوتا تھا کہ جس جماعت کی حکومت برطرف کی جاتی تو اس امر کو یقینی بنایا جاتا تھا کہ اگلے انتخابات میں اس جماعت کو اقتدار میں واپس نہیں لایا جائے گا۔
1990ء میں بے نظیر کی حکومت توڑی گئی تو انتخابات میں ان کے سیاسی مخالف نواز شریف کی حکومت بنی، 93میں نواز حکومت توڑی گئی تو بے نظیر بھٹو کی حکومت آئی اسی طرح96میں بے نظیر کی حکومت کو برطرف کیا گیا تو 97 کے انتخابات میں نواز شریف کی حکومت بنی، اس دور میں یہ سیاسی کھیل بہت واضح ہوتا تھا۔ 2002ء کے انتخابات کو کسی بھی طور ایک جمہوری الیکشن قرار نہیں دیا جاسکتا، اس لئے اس کو انتخابی پیمانے کے طور پر بھی استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ 2008ء کے انتخابات سے پہلے مشرف کے خلاف وکلا تحریک اور بے نظیر کے سیاسی منظر سے ہٹنے سے کا فی حد تک واضح ہوگیا تھا کہ انتخابات میں کس طرح کے نتائج آئیں گے، اسی طرح 2013ء کے انتخابات میں ’’اسٹریٹ‘‘ اور میڈیا کی حد تک تو پاکستان تحریک انصاف کی ہی لہر تھی، مگر انتخابی حرکیات اور زمینی صورت حال کو سمجھنے والے انتخابی ماہرین کا یہی دعویٰ تھا کہ مسلم لیگ (ن) ہی اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگی۔ تمام سنجیدہ انتخابی سرویز بھی اسی جانب اشارہ کر رہے تھے، مگر اس مرتبہ صورت حال انتہائی پیچیدہ ہے۔
میڈیا اور اخبارات میں اپنی اپنی ادارتی پالیسی کے تحت ایسے جائزے بھی پیش کئے جا رہے ہیں کہ کونسی جماعت کتنی نشستیں حاصل کرے گی، تاہم تمام سنجیدہ سرویز اور انتخابی جائزے اس بات کا واضح طور پر اشارہ کر رہے ہیں کہ اس مرتبہ ’’معلق‘‘ پارلیمنٹ وجود میں آرہی ہے، جس میں کسی جماعت کے پاس بھی 272 نشستوں کا نصف سے زائد یعنی137 کا جادوئی نمبر موجود نہیں ہوگا اور شاید آزاد حیثیت سے منتخب ہونے والے اراکین اسمبلی کے پاس ’’فیصلہ کن پوزیشن‘‘ آجائے۔ سب سے بڑا گھمسان کارن پنجاب میں پڑنے جا رہا ہے۔ 2013ء کے انتخابات میں قومی اسمبلی کی کل 272 براہ راست منتخب نشستوں میں سے پنجاب کی نشستوں کی تعداد 148تھی، جو اب کم ہوکر141رہ گئی ہے۔ 2013ء کے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) نے پنجاب کی 148 نشستوں میں سے 117 نشستیں حاصل کی تھیں، اب 2018ء کے انتخابات میں یقینی طور پر مسلم لیگ (ن) کے لئے 2013ء جیسی صورت حال ہرگز نہیں، مگر نواز شریف اور مریم شریف کی پاکستان واپسی اور جیل جانے کے فیصلے سے مسلم لیگ (ن) کسی بڑی ٹوٹ پھوٹ سے بچ گئی ہے۔ یہ نظر آرہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کا روایتی ووٹر ابھی مسلم لیگ (ن) سے ما یوس نہیں ہوا، 25جولائی کو اگر یہ ووٹر نواز شریف سے ہمدردی کے اظہار کے لئے پولنگ اسٹیشن تک آگیا تو وسطی پنجاب اور شمالی پنجاب میں مسلم لیگ (ن) اکثر نشستوں پر کامیاب ہوسکتی ہے۔
وسطیٰ پنجاب کا علاقہ دریائے جہلم کے جنوبی کنارے سے ہوتا ہوا فیصل آباد، لاہور، جھنگ، سرگودھا، گجرات، سیالکوٹ، گوجرانوالہ اور اِردگرد کے علاقوں پر مشتمل ہے۔ قومی اسمبلی میں پنجاب کی 141 نشستوں میں سے 82نشستیں وسطی پنجاب کے علاقوں پر ہی مشتمل ہیں۔ جنوبی پنجاب کا علاقہ 48نشستوں پر مشتمل ہے اوراس علاقے میں بڑی تعداد میں انتخابی گھوڑوں کی اکثریت پی ٹی آئی میں شامل ہوچکی ہے، جس کے باعث انتخابی جائزوں کے مطابق جنوبی پنجاب کی 48نشستوں میں سے پی ٹی آئی اکثریت حاصل کرسکتی ہے۔ پنجاب میں جہاں تک پیپلز پارٹی کا تعلق ہے تو 2008ء کے انتخابات میں پنجاب سے پی پی پی نے قومی اسمبلی کی45نشستیں حاصل کی تھیں، 2013ء کے انتخابات میں پنجاب سے 28لاکھ ووٹ حاصل کرنے کے باوجود پی پی صرف دو نشستیں حاصل کرسکی، اس مرتبہ بھی پنجاب میں پی پی پی کو شدید مایوسی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
صوبہ سندھ کی بات کی جائے، جہاں پر قومی اسمبلی کی61نشستیں ہیں تو دیہی سندھ میں پی پی پی کے خلاف فنگشنل لیگ کی قیادت میں گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس میدان میں اتر چکا ہے، غوث علی شاہ، ارباب غلام رحیم، ڈاکٹر مرزاجیسے بڑے انتخابی گھوڑے بھی اس الائنس میں شامل ہو چکے ہیں، مگر انتخابی جائزوں کے مطابق پیپلز پا رٹی دیہی سندھ میں چونکہ جاگیرداروں، وڈیروں اور بڑے زمین داروں پر ہی انحصار کرتی ہے، اس لئے یہ گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس، سندھ میں پیپلز پارٹی کو شکست دینے میں کامیاب نظر نہیں آرہا، تاہم یہ الائنس آٹھ، دس نشستوں پر ڈینٹ ضرور ڈالے گا۔ اندرون سندھ سے زیادہ دلچسپ صورت حال کراچی کی ہے، جہاں پر 1988ء سے انتخابات میں کامیاب ہونے والی ایم کیو ایم شدید بحران اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوچکی ہے۔ 2013ء کے مقابلے میں اب ایم کیو ایم کا روایتی مہاجر ووٹ بینک کئی جماعتوں میں تبدیل ہوچکا ہے۔کراچی کی سیاست پر نظر رکھنے والے ماہرین کے مطابق 2018ء کے انتخابات میں کرا چی کی سیاست میں 30سال کے بعد ایک بڑی تبدیلی نظر آرہی ہے، تاہم یہ بات کہنا ابھی مشکل ہے کہ ایم کیو ایم کی اس ٹوٹ پھوٹ کا فائدہ پاک سرزمین پارٹی کو ہوگا یا پھر پی ٹی آئی یہ مہاجر ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگی۔ قومی اسمبلی میں 39 نشستیں رکھنے والے صوبے خیبر پختونخوا پر سب کی نظریں اس لئے لگی ہوئی ہیں،کیونکہ اس صوبے میں پی ٹی آئی کو پانچ سال تک حکومت کرنے کا موقع ملا، تاہم انتخابی جائزوں کے مطابق خیبرپختونخوا کے پختون اضلاع میں پختون سیاست کی علمبردار جماعت عوامی نیشنل پارٹی اپنی کھوئی ہوئی پوزیشن واپس لیتی دکھائی نہیں دیتی، اس لئے تحریک انصاف خیبر پختوانخوا کے پشتون علاقوں میں اپنی کامیابی کو برقرار رکھ سکتی ہے، جبکہ ہزارہ بیلٹ میں مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی کے مابین دلچسپ مقابلے کا امکان نظر آرہا ہے۔ متحدہ مجلس عمل بھی اپنے مخصوص علاقوں سے کامیاب ہوتی دکھائی دیتی ہے یہ خیبر پختوانخوا میں کوئی بڑا سیاسی طوفان برپا نہیں کر پائے گی۔ بلوچستان میں قومی اسمبلی کی نشستوں کی تعداد 16ہے، مگر بلوچستان کی سیاسی حرکیات پر نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ بلوچستان میں سیاست قبائلی عصبیت اور وفا داریوں کے گرد ہی گھومتی ہے۔ اس سال جنوری میں بلوچستان میں جو کچھ ہوا، جس طرح دیکھتے دیکھتے بلوچستان عوامی پارٹی کھڑی کی گئی، اس سے واضح ہوتا ہے کہ 2018ء کے انتخابات میں بھی اس صوبے سے حیران کن سیاسی نتائج ہی برآمد ہوں گے۔ یہ پورا تناظر مختلف سرویز اور کئی انتخابی ماہرین کے تجزیات کی روشنی میں بنایا گیا ہے۔ کونسی جماعت کتنی نشستیں حاصل کرے گی، اس بارے میں بہت زیادہ تضاد پایا جا رہا ہے، اگر چند سنجیدہ سرویز سے رہنمائی لی جائے تو قومی اسمبلی کی کل 272 نشستوں میں سے پی ٹی آئی 75 سے 90 مسلم لیگ (ن) 60 سے75پی پی پی 35سے 40نشستیں حاصل کرسکتی ہے، تاہم یہ اعداد و شمار چونکہ سرویز پر مبنی ہیں، اس لئے غلط بھی ثابت ہوسکتے ہیں۔ حتمی نتائج کے