پری پول رگنگ کا شوشہ کیوں؟

پری پول رگنگ کا شوشہ کیوں؟
پری پول رگنگ کا شوشہ کیوں؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


پری پول رگنگ کا بڑا چرچا ہے،لیکن اگر کسی سے پوچھ لیا جائے کہ پری پول رگنگ کہتے کسے ہیں تو وہ بغلیں جھانکنے لگ جاتا ہے۔ ہم نے تو یہی سُنا تھا کہ پری پول رگنگ تب ہوتی ہے جب مخالف امیدوار کو اُٹھا لیا جائے،ووٹرز لسٹیں غلط چھاپ دی جائیں،پولنگ سٹیشن دور دراز علاقوں میں بنا دیئے جائیں،عملہ جانبدار تعینات کر دیا جائے۔ امیدواروں کو الیکشن مہم نہ چلانے دی جائے، وغیرہ وغیرہ۔ یہاں تو ایسا کچھ بھی نہیں ہو رہا،سب آزادی کے ساتھ اپنی شفاف مہم جاری رکھے ہوئے ہیں،پولنگ سکیم پر کسی نے اعتراض نہیں کیا،عملہ اپنی دیانت داری کا حلف اُٹھا چکا ہے۔تینوں بڑی سیاسی جماعتوں کے رہنما آزادی سے ریلیاں نکال رہے اور جلسے منعقد کر رہے ہیں۔ اخبارات اور ٹی وی چینلوں پر سب کی کمپین چل رہی ہے،اشتہارات بھی دکھائے جا رہے ہیں،پھر آخر وہ کون سی بات ہے جس سے یہ شبہ اُبھرتا ہے کہ پری پول رگنگ ہو رہی ہے؟ امیدواروں کو جو نشان الاٹ ہونے تھے، وہ ہو چکے ہیں،بیلٹ پیپر بھی چھپ گئے ہیں،اب یہ کہنا کہ ہمارے امیدواروں کو کسی اور نشان پر لڑنے کے لئے کہا جا رہا ہے، مضحکہ خیز بات ہے۔اُدھر الیکشن کمیشن اور افواج پاکستان نے پُرامن انتخابات کے انعقاد کے لئے تمام انتظامات مکمل کر لئے ہیں۔گویا ووٹ کے استعمال کا حق ہر ووٹر کو دے دیا گیا ہے ۔

پھر یہ راگنی کیا معنی رکھتی ہے کہ پری پول رگنگ ہو رہی ہے؟ بلاول بھٹو زرداری پورے پنجاب اور خیبرپختونخوا کا بھرپور دورہ کر کے واپس کراچی پہنچ گئے ہیں،لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ انہیں پی ٹی آئی جیسے مواقع نہیں دیئے جا رہے۔ وہ کون سے مواقع مانگ رہے ہیں؟ اسی طرح شہباز شریف کھل کر الیکشن مہم چلا رہے ہیں، مسلم لیگ (ن) کے کسی امیدوار کو بھی اپنی انتخابی مہم کے سلسلے میں کوئی دشواری پیش نہیں آ رہی،کیونکہ ایسی کوئی رپورٹ الیکشن کمیشن کو نہیں کی گئی،مگر ان سب حقیقتوں کے باوجود یہ واویلا جاری ہے کہ انتخابات مشکوک ہو گئے ہیں،پری پول رگنگ کی جا رہی ہے۔ کیا یہ کوئی سوچی سمجھی سازش ہے یا اس کی وجہ بعض سیاسی جماعتوں کا خوف ہے کہ اُنہیں شکست ہو جائے گی، اِس لئے وہ پہلے سے ہی دھاندلی کا واویلا کر رہے ہیں تاکہ اپنی ساکھ ہی بچا لیں اور انتخابات کو مشکوک ثابت کریں۔

پرویز رشید اڈیالہ جیل میں نواز شریف سے ملاقات کر کے آئے تو کچھ زیادہ ہی جذباتی ہو گئے۔باقی باتیں تو نواز شریف کی جیل میں سہولتوں کی عدم فراہمی سے متعلق تھیں، تاہم انہوں نے انتخابات کے بارے میں یہ کہا کہ یہ پوری طرح مشکوک ہو چکے، الیکشن کمیشن کے لئے بہتر ہے کہ وہ انتخابات کا قصد کرنے کی بجائے ایک لسٹ جاری کر دے کہ یہ امیدوار کامیاب ہو چکے ہیں اور فلاں شخص ان میں سے وزیراعظم ہو گا۔اب ایسی بات کہنے سے انہیں ذاتی طور پر شاید تشفی ہوئی ہو، لیکن اس کا زمینی حقائق سے کتنا تعلق ہے، یہ عام آدمی بھی جانتا ہے۔یہ پہلا موقع ہے کہ انتخابات سے پہلے ہی انتخابات کی شفافیت کو متنازعہ بنایا جا رہا ہے۔سب کو علم ہو چکا ہے کہ مقابلہ نواز شریف کے بیانیے اور عمران خان کے کرپشن کے خلاف جہاد کے درمیان ہے۔ووٹروں تک پیغام پہنچ چکا ہے اور اب صرف زیبِ داستان کے لئے کہا جا رہا ہے کہ ہمیں پیغام نہیں پہنچانے دیا جا رہا۔ دہشت گردی کی وجہ سے بعض علاقوں میں الیکشن مہم چلانے کا عمل معطل ہوا،اُس کا الزام کسی کو نہیں دیا جا سکتا۔اُس سے سب ہی متاثر ہوئے۔ عمران خان کو بھی خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں اپنی انتخابی مہم کو معطل کرنا پڑا، اسفندر یار ولی کا یہ شکوہ سمجھ سے بالاتر ہے کہ عمران خان کو کھلی چھٹی دی ہوئی ہے اور ہمارے ہاتھ باندھ دیئے گئے ہیں۔

کیا وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ دہشت گردی اسٹیبلشمنٹ نے کرائی اور ہمیں الیکشن مہم چلانے سے روک دیا۔کیا انہیں معلوم نہیں کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ خود بلور ہاؤس گئے اور انہوں نے اظہارِ تعزیت کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردوں کو نہیں چھوڑیں گے اور جمہوریت کے لئے بلور خاندان کی قربانیاں لازوال ہیں۔یہ تو دہشت گردوں کا ایجنڈا ہے کہ پاکستان میں انتخابی عمل کو نقصان پہنچائیں،اسے پری پول رگنگ کیسے کہا جا سکتا ہے؟وزیر دفاع جنرل(ر) نعیم احمد لودھی نے ایک ٹی وی پروگرام میں اچھی دلیل دی۔انہوں نے کہا جو لوگ سمجھتے ہیں کہ پری پول رگنگ ہو رہی ہے، وہ ثبوت کے ساتھ الیکشن کمیشن یا سپریم کورٹ کیوں نہیں جاتے۔ انہوں نے کہا اگر کسی پارٹی کے بارے میں یہ تاثر پیدا ہو جاتا ہے کہ اُسے نگران حکومت امتیازی سلوک کا نشانہ بنا رہی ہے تو اُسے سیاسی طور پر تو فائدہ ہی ہو گا،کیونکہ عوام ہمیشہ اُس جماعت کا ساتھ دیتے ہیں،جس کے ساتھ نگران حکومتی سیٹ اَپ معاندانہ سلوک کر رہا ہو،لیکن ایسا چونکہ نہیں ہے، اِس لئے عوام متاثر نہیں ہو رہے۔ اتنے زیادہ میڈیا چینلوں کی موجودگی میں کسی جماعت کو امتیازی سلوک کا نشانہ کیسے بنایا جا سکتا ہے؟ اُن کا یہ کہنا تھا کہ نگران حکومتوں نے ہر ممکن کوشش کی ہے کہ سب سیاسی جماعتوں کو یکساں مواقع فراہم کئے جائیں۔


دو بڑے واقعات کے سوا کچھ ایسا نہیں ہوا جسے پری پول رگنگ کے لئے مثال بنایا جا سکے۔ پہلا واقعہ وہ تھا جب یکدم مسلم لیگ(ن) کے امیدواروں نے شیر کا نشان چھوڑ کر جیپ کے نشان پر انتخاب کا فیصلہ کیا۔جنوبی پنجاب میں ایسے لوگوں کی تعداد زیادہ تھی۔ کہا یہ گیا کہ مسلم لیگ (ن) کے امیدواروں کو مجبور کیا جا رہا ہے کہ وہ وفاداری بدلیں۔مزیداری کی بات یہ ہے کہ جیپ کا نشان لینے والوں میں سے کسی ایک نے بھی یہ نہیں کہا کہ اُسے نشان بدلنے پر مجبور کیا گیا ہے،لیکن اسے پری پول رگنگ کی بڑی مثال بنا کر پیش کیا گیا۔ دوسرا واقعہ نواز شریف اور مریم نواز کی لندن سے واپسی کے موقع پر مسلم لیگ(ن) کے کارکنوں اور رہنماؤں کی گرفتاریاں تھیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ان گرفتاریوں کی وجہ سے مسلم لیگ(ن) کی مقبولیت میں اضافہ ہوا۔ اُس میں نئی جان پڑی۔ ظاہر ہے یہ گرفتاریاں کارکنوں کو مسلم لیگ(ن) سے منحرف کرانے کے لئے نہیں کی گئی تھیں،بلکہ ان کا مقصد امن و امان کی صورتِ حال کو کنٹرول میں رکھنا تھا۔ نواز شریف اڈیالہ جیل پہنچے تو ان سب لوگوں کو رہا کر دیا گیا۔ان دو واقعات کے سوا مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کو ہر ممکن سہولت فراہم کی گئی۔کسی کے انتخابی کاغذات مسترد نہیں ہوئے۔ دانیال عزیز اپنے پرانے توہین عدالت کیس میں نااہل قرار پائے، باقی سب کو اجازت مل گئی۔ بلاول مسلسل یہ کہہ رہے ہیں کہ ان کے لوگ توڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

حیرت ہوتی ہے کہ پیپلزپارٹی کے لوگ توڑ کر کسی کو کیا فائدہ ہو گا؟ پنجاب سے تو وہ تقریباً آؤٹ ہو چکی ہے۔ واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ مقابلہ تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان ہے۔ خواہ مخواہ ایک ایسا بیانیہ اختیار کرنا جس کا زمینی حقیقتوں سے کوئی تعلق نہیں،ایک بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ کو زیب نہیں دیتا۔ 2018ء کے انتخابات کی سب سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ ان میں نواز شریف حصہ نہیں لے رہے۔ یہ ایک ایسا معاملہ ہے کہ پانسہ مسلم لیگ (ن) کے حق میں بھی پلٹ سکتا ہے اور اُسے دیوار سے بھی لگا سکتا ہے،لیکن یہ معاملہ پری پول رگنگ کے زمرے میں ہر گز نہیں آتا۔یہ معاملہ دو سال پہلے کا ہے جب پاناما کا معاملہ سامنے آیا اور پھر چلتے چلتے پہلے نواز شریف نااہل ہوئے، پھر انہیں دس سال کی سزا ہوئی۔اب یہ کہنا کہ انہیں سزا انتخابات سے پہلے ہی کیوں سنائی گئی، بعد میں بھی تو سنائی جا سکتی تھی۔ ایک بودی دلیل ہے۔ عدلیہ کا نظام مجرموں کی مصروفیات کو دیکھ کر تھوڑا چلتا ہے۔

سپریم کورٹ نے جس کیس کا فیصلہ کرنے کے لئے چھ ماہ کی مدت دی تھی وہ ساڑھے نو ماہ میں پایۂ تکمیل کو پہنچا، پھر سپریم کورٹ کا یہی حکم تھا کہ ایک ماہ میں فیصلہ کیا جائے، جس کی مدت9جولائی کو ختم ہو رہی تھی، سو6جولائی کو فیصلہ آ گیا۔ تاریخ تو یہی بتاتی ہے کہ ایسے فیصلوں کا فائدہ اُس جماعت کو ہوتا ہے جس کے سربراہ کو جیل میں ڈالا جاتا ہے، سو اصولاً تو مسلم لیگ(ن) کو نواز شریف اور مریم نواز کی جیل یاترا سے سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کرنی چاہئے۔۔۔میرے نزدیک پری پول رگنگ ایک افسانوی سی بات ہے۔ بھلا کروڑوں ووٹروں کو ایسی کسی مہم سے کیسے رام کیا جا سکتا ہے، لیکن ممکن ہے کہ لوگ کسی کی باتوں میں آ کر اپنی رائے تبدیل کر لیں۔مَیں سمجھتا ہوں عوام نے جو رائے بنانی تھی، وہ بنا لی ہے، اب صرف ووٹ ڈالنے کا انتظار کر رہے ہیں۔ بہتر یہی ہے کہ انتخابات کو بلاوجہ مشکوک بنانے کی کوشش نہ کی جائے۔عالمی میڈیا اور مُلک میں پروگرام کرنے والے بعض اینکرز بے پرکی نہ اُڑائیں۔انتخابات روز روز نہیں ہوتے، اِن کے انعقاد سے پورا مُلک ہل جاتا ہے، اربوں روپے خرچ ہوتے ہیں، جب مُلک کے تمام ادارے مستعدو متحرک ہیں اور انہوں نے شفاف انتخابات کی ٹھان رکھی ہے، تو پری پول رگنگ جیسے شوشے چھوڑ کر اسے متنازعہ نہ بنایا جائے۔25جولائی کو عوام کی رائے کا انتظار کیا جائے، پھر جو نتائج سامنے آئیں اُنہیں خوش دلی سے قبو

مزید :

رائے -کالم -