اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی دراصل کون ہیں، وہ باتیں جو آپ کو معلوم نہیں
اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن) فیض آباد دھرنے سے متعلق نوٹس ، سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کیس کی سماعت کرنے والے جسٹس شوکت عزیز صدیقی گذشتہ چھ سال سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں جج کی ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں، انہوں نے میڈیا میں پہلی مرتبہ اس وقت جگہ بنائی جباسلام آباد میں قائم افغان بستیوں کو گرانے میں ناکامی اور عدالتی احکامات پر عمل درآمد نہ کرنے پر وفاقی ترقیاتی ادارے یعنی سی ڈی اے کے حکام کو جیل بھجوایا،جسٹس شوکت صدیقی عملی سیاست میں حصہ لے چکے ہیں اور انھوں نے جماعتِ اسلامی کے ٹکٹ پر راولپنڈی سے انتخابات میں بھی حصہ لیا تھا۔ اُنھیں 21 نومبر سنہ 2011 کو صوبہ پنجاب کے کوٹے سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں پہلے ایڈیشنل جج تعینات کیا گیا اور پھر اُنھیں مستقل جج مقرر کردیا گیا۔
بی بی سی کے مطابق جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے خلاف 3نومبر 2007 میں ملک میں ایمرجنسی کے بعد ججز کو نظر بند کرنے کے مقدمے میں اس وقت پولیس حکام کو انسداد دہشت گردی کی دفعات کا اضافہ کرنے کا بھی حکم دیا جب پرویز مشرف ضمانت کے لیے ان کی عدالت میں پیش ہوئے تھے۔عدالتی احکامات کے بعد سابق فوجی صدر کمرہ عدالت سے فرار ہو گئے تھے، بعدازاں پولیس نے اُنھیں حراست میں لے کر متعلقہ عدالت میں پیش کیا تھا۔
سابق فوجی صدر کی طرف سے ملک میں ایمرجنسی کے نفاذ کے بعد وکلا کی عدلیہ بحالی تحریک میں بھی شوکت عزیز صدیقی پیش پیش تھے۔ راولپنڈی پولیس کے مطابق اُنھیں اس وقت کی حکومت کے خلاف احتجاج کرنے پر گرفتار بھی کیا گیا تھا۔شوکت عزیز صدیقی ان چند وکلا رہنماؤں میں سے تھے جنہیں اس وقت کے پاکستان کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی قربت حاصل تھی۔شوکت عزیز صدیقی جو اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے بعد سنیئر ترین جج اور آئندہ ممکنہ طورپر اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس ہیں۔
جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے سوشل میڈیا پر گستاخانہ موجود کی موجودگی کے نوٹس کے بعد سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے ایف آئی اے کو ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کا حکم دیا تھا۔ عدالتی حکم کے بعد ہی فیس بک کی انتظامیہ نے پاکستان کا دورہ کیا تھا اور یقین دہانی کروائی تھی کہ آئندہ فیس بک پر پیغمبر اسلام کے بارے میں گستاخانہ مواد نہیں لگایا جائے گا۔شکرپڑیاں کے قریب پریڈ گراونڈ کو ’ڈیموکریسی پارک‘ اور ’سپیچ کارنر‘ کا نام بھی اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ نے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے حکم پر ہی رکھا ہے،یہ جگہ احتجاج کے لیے مختص کی گئی ہے، جبکہ اسی گراؤنڈ پر پاکستانی افواج اپنی سالانہ پریڈ کرتی ہیں۔
یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ہی حزب مخالف کی جماعت پاکستان تحریک انصاف کو گزشتہ سال اسلام آباد کو لاک ڈاؤن کرنے کے فیصلے کو غیر قانونی قرار دیتے ہویے اُنھیں دھرنا دینے سے روک دیا تھا،ان کا نام اس وقت بھی میڈیا میں آیا تھا جب انھوں نے ویلنٹائنز ڈے کے موقعے پر ہونے والی تقریبات پر پابندی عائد کر دی تھی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کی ویب ساییٹ پر جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے بارے میں کہا گیا ہے کہ 2011میں جب اُنھیں ہائی کورٹ کا ایڈیشنل جج بنانے کے بارے میں غور کیا گیا تو وہ اس وقت راولپنڈی اور اسلام آباد کے چند مصروف ترین وکلا میں سے ایک تھے۔جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے خلاف ایک ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل میں زیر سماعت ہے۔ ان پر الزام لگایا گیا تھا کہ اُنھوں نے سی ڈی اے کے حکام پر اپنی سرکاری رہائش گاہ کی تزین و آرائش کے لیے دباؤ ڈالا تھا۔جسٹس شوکت عزیز نے ان کے خلاف ریفرنس کی سماعت کو بند کمرے میں کرنے کی بجائے اوپن کورٹ میں کرنے کی درخواست کو سپریم جوڈیشیل کونسل نے مسترد کر دیا تھا۔
جسٹس شوکت عزیز صدیقی اسلام آباد ہائی کورٹ کے اس دو رکنی بینچ کا بھی حصہ تھے جس نے گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے قتل کے مقدمے میں موت کی سزا پانے والے ممتاز قادری کے خلاف انسداد دہشت گردی کی دفعات کو ختم کر دیا تھا تاہم انسداد دہشت گردی کی عدالت کی طرف سے مجرم کو موت کی سزا دینے کا فیصلہ برقرار رکھا تھا تاہم سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کا یہ فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے انسدادِ دہشت گردی کی عدالت کا فیصلہ برقرار رکھا تھا۔