الیکشن کا خمار
ہر دوسرا پاکستانی ان دنوں الیکشن کے خمار میں مبتلا ہے۔ انتخابی امیدوار اپنی جیت کو یقینی بنانے کے لئے بے تحاشا دولت لٹا رہے ہیں۔ گلیاں، محلے، عمارات، سڑکیں، الغرض جہاں نظر دوڑائی جائے وہیں کسی نہ کسی انتخابی امیدوار کی انتخابی مہم ضرور نظر آتی ہے۔
سوشل میڈیا کو دیکھیں تو ہر سیاسی جماعت کا کارکن اپنے سربراہ کو دوسری تمام سیاسی جماعتوں سے بہتر ثابت کرنے کی بھرپور کوشش کر رہا ہے۔ ایک دوسرے پر طعن و تشنیع کے نشتر بھی برسائے جا رہے ہیں اور بعض مواقع پر گالیوں کی مدد بھی لی جا رہی ہے۔
دوسری طرف اگر ہم ایک عام شہری کی رائے لیں تو وہ کچھ یوں جواب دیتا ہے: "اس دفعہ عمران خان جیتے گا، کیونکہ ایجنسیاں اس کے ساتھ ہیں۔۔" یعنی المیہ ملاحظہ کریں کہ پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں کے ذمے کیا یہی کام رہ گیا ہے کہ وہ کسی ایک سیاست دان کو الیکشن میں کامیاب کرائیں؟ سوال یہ نہیں ہے بلکہ اصل سوال یہ ہے کہ پاکستان کی معتبر ایجنسیوں کے حوالے سے اس طرح کا نقطہ نظر کیونکر پیدا ہوا؟ اگر پیدا ہو گیا تو اسے ختم کرنے کی کوششیں کیوں نہیں کی گئیں؟ کہیں اس نقطہ نظر کی وجہ یہ تو نہیں کہ ماضی سے لے کر اب تک احتساب ہمیشہ مائنس ون فارمولے کے تحت صرف ایک ہی سیاسی جماعت کا ہوا یا پھر یہ کہ دہشت گردوں کے خلاف آپریشن پورے ملک کی بجائے مخصوص علاقوں تک محدود رہا؟ وجہ جو بھی ہو مگر پاکستان کی معتبر ایجنسیوں کے حوالے سے اس قسم کے نظریے کا پایا جانا بالکل مفید نہیں ہے۔
حقیقی بات جسے بہت سے دانشور سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں وہ پاکستان کے حوالے سے عالمی نظریہ یا ایجنڈا ہے اور وہ مختصراً یہ ہے کہ پاکستان کو نہ تو اتنا کمزور ہونے دیں کہ دہشت گرد اس کے ایٹمی ہتھیاروں پر قبضہ کرکے عالمی امن کو خطرے میں ڈال دیں اور نہ ہی اتنا طاقتور ہونے دیں کہ بڑی طاقتوں کی پالیسیوں پر اثرانداز ہونے لگے۔ اس نظریے کو نافذ کرنے میں کون کون معاون ثابت ہوتا ہے اور کون کون اس نظریے کے خلاف پاکستان کی حقیقی ترقی کے لئے کوشاں رہتا ہے، اصل چیلنج یہ ہے۔
الیکشن کو اپنا مسیحا جان کر خوشی خوشی ووٹ ڈالنے والوں کو یہ سمجھ کبھی نہیں آتی کہ اگر الیکشن سے مسائل حل ہونے ہوتے تو اب تک ہو چکے ہوتے۔ المیہ یہ ہے کہ بہت سے انتخابی امیدواروں کو خود بھی علم نہیں ہے کہ پاکستان کا اتنا بڑا بیرونی قرضہ وہ کس طرح ادا کریں گے اور لوڈ شیڈنگ، مہنگائی اور غربت کے عفریت کو کیسے ختم کریں گے۔ ہمیشہ کی طرح کھوکھلے دعوے، جھوٹے وعدے اور جعلی دلاسے ہیں جن کا نشہ یہ سیاستدان ہماری رگوں میں اتارنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور ہم مست ہو کر اگلے پانچ سال یہی کہتے گزار دیتے ہیں
"انشاء اللہ اگلے الیکشن کے بعد حالات بہتر ہو جائیں گے۔۔۔"
۔
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔