آزادیِ اظہارِرائے

آزادیِ اظہارِرائے
آزادیِ اظہارِرائے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

لندن میں جاری حالیہ (گلوبل کانفرنس فار میڈیا فریڈم2019-) کے پلیٹ فارم پر وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی کو کینڈین سوشل میڈیا ایکٹوسٹ کی جانب سے سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ تنقید کرنے والے سوشل میڈیا ایکٹوسٹ نے وزیرِ خارجہ اور انکی حکومت پر اسکے ذاتی ٹوئیٹر اکاونٹ کو بلاک کرنے کا الزام لگاتے ہوئے یہ بھی کہا کہ آپ کسی کی صحافتی اور ذاتی رائے کو دبانے کا حق نہیں رکھتے۔ آزادی صحافت کے دفاع اور دنیا بھر میں کام کرنے والے صحافیوں کی جان و مال کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے برطانوی اور کینڈین حکومتیں ملکر کام کر رہی ہیں۔
پاکستان میں آزادی ِ اظہار رائے اصل مسئلہ نہیں بلکہ اصل مسئلہ اس بات کا ہے آپ کیسے اور کیاتاثر دینا چاہتے ہیں؟ آزادی اظہار کا مطلب کسی کو نقصان پہنچانا نہیں ہوتا بلکہ معاشرے کو درپیش مسائل کو اجاگر کرکے انکے ممکنہ بہتر حل کی کھوج لگانا ہوتا ہے۔

ہمیں اپنا موازنہ لندن، برسلز،واشنگٹن یا پیرس سے نہیں کرنا چاہیے ہم اسلام آباد میں رہتے ہیں۔بد قسمتی سے ہمارے یہاں اکثر صحافی حضرات کو متعلقہ شعبے میں اعلی تعلیم حاصل کرنے کے وہ مواقع میسر نہیں جو باہر کے ترقی یافتہ ممالک کے صحافیوں کو حاصل ہیں۔
پاکستان میں کچھ پروگرامز اور انکے میزبانوں کی شہرت انکے علمی یا تحقیقی کاوشوں کی وجہ سے نہیں بلکہ سیاسی پشت پناہی اور با اثر افراد سے تعلقات پر منحصر ہے۔ یہی چند اینکرز اور صحافی ببانگِ دہل اس بات کا دعوا کرتے ہیں کہ وہ عوامی رائے کو قائم کرتے ہیں اور عوام کو صرف اسی سمت میں سوچنے پر مجبور کرتے ہیں۔
ُپاکستان نے د ہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف نہ صرف ایک خطرناک جنگ لڑی بلکہ ابھی بھی یہ جنگ جاری ہے جس کے باعث ہمیں سیاسی،اقتصادی اور سماجی نقصانات کی بھاری قیمت بھی چکانا پڑی۔ ایسے حالات میں قومی یکجہتی، قومی نظریات اور دشمن کو پسپا کرنے کی جدوجہد کو فروغ دینے کی بجائے انہی میڈیا سے وابستہ لوگوں نے عسکری اور سیاسی اقدامات کو ایسے توڑ مروڑ کر پیش کیا جس سے عوام الناس میں دہشت گردی کے خلاف جاری آپریشن کے بارے میں ابہام پیدا ہوا۔

جنگ کے بارے میں فوجی نقط نظر کو جانے بغیر اور اس بات پر غور کیے بغیر کہ ملک حالتِ جنگ میں ہے اور ابھی کسی غلطی کی گنجائش نہیں ایسے چند صحافیوں نے ملک میں یکجہتی اور ہم آہنگی کی فضا قائم کرنے کی بجائے بے بنیاد پراپیگینڈا کو فروغ دیا جس سے سیاسی عدم استحکام کا ماحول پیدا ہوا اور ایسی من گھڑت کہانیاں گھڑی گئی
جس سے جنگ زدہ علاقے کے لوگوں کے ذہنوں میں شکایات، تحفظات اور شبہات نے جنم لیا۔جن صحافیوں نے (گلوبل کانفرنس فارمیڈیا فریڈم2019-) کا بائیکاٹ کیا انہیں یہ بات سمجھنا ہو گی کہ پاکستانی سیاست کی حقیقت او ر درپیش مسائل مغربی ممالک سے بہت مختلف ہے۔ہمیں اب بھی مسلسل بڑھتی ہوئی آبادی اور اداروں (بیوروکریسی) کی ناقص تنظیمی ڈھانچوں جیسے گھمبیر مسائل کا سامنا ہے جس کے باعث ہم آج بھی مساوات یا قانون کی بالادستی کو یقینی بنانے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں -یہی دو چیزیں جو ہمارے سیاسی اختلافات اور تنازعات کو حل کرنے میں ہماری مدد کرسکتی ہیں جیسے مغرب نے ان مسائل کو ماضی میں حل کیا
جبکہ پاکستان میں انہی چند صحافیوں کے سیاسی خدا گزشتہ دس سالوں سے تمام تر وسائل پر قابض ہونے کے باوجود ملک کو حقیقی معنوں میں اقتصادی اور سماجی ترقی کی راہ پر گامزن کرنے میں بری طرح ناکام رہے جو کہ کسی بھی ملک کی ترقی اور استحکام کے لیے ضروری ہوتا ہے۔
لیکن اب ایک ایسا شخص حکمرانی کے منصب پر فائض ہے جس نے ان سیاسی آقاوں کی بدعنوانیوں اور نااہلیوں کو چیلنج کرتے ہوئے انکو احتساب کے کٹہرے میں لا کھڑا کیا ہے(جسکا اسنے اپنی قوم سے وعدہ کیا تھا) اور اب ان چند صحافیوں کے پاس اپنے سیاسی آقاوں کا دفاع کرنے کے سوا دوسرا کوئی راستہ نہیں اور اب اسی طرح انکی اصلیت ایاں ہونے کو ہے۔
اور اب موجودہ حکومت کو چاہیے کہ قومی مفاد ات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے پاکستان کی خود مختاری اور علاقائی سالمیت کی حفاظت کو یقینی بنائے۔یہ نام نہاد آزادی اظہار رائے کا راگ الاپنا اتنا اہم نہیں ہے جتنا کہ لوگوں کا عزت و وقار کے ساتھ امن پسند ماحول میں جینا اہم ہے۔
سکون سے زندگی جینے کا حق آزادی اظہار کے حق سے کہیں زیادہ ضروری اور قیمتی ہے، جبکہ ماضی میں بھی آزادی اظہار رائے کے حقوق کا نعرہ لگا کر عام فہم لوگوں کو بھٹکایا گیا اور اسکے ناجائز استعمال سے صرف اور صرف سیاسی فوائد ہی حاصل کیے گئے۔
لندن میں پیش آنے والے واقع سے کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ شائد پاکستان میں کچھ عناصر پر پابندی کوئی بہت بڑا عیب ہے حالانکہ ایسا ہر گز نہیں۔ مغربی ممالک ایسے اقدامات عرصہ دراز پہلے کرچکے ہیں جو آ ج اسلام آباد کرہا ہے۔ مغربی ممالک نے اپنے مسائل کو ایسے ہی حل کیا اور آج وہاں جمہوریت اپنی اصل شکل میں موجود ہے۔

لہذا یہ بات ذہن نشین کر لیں کہ واشنگٹن اور پیرس ماضی میں جس دور سے گزرے ہم بھی اسی دور میں ہیں اور ویسے ہی اقدامات عمل میں لائے جا رہے ہیں تاکہ پاکستان میں استحکام قائم ہوسکے۔فرنکلن ڈیلانوروزیولٹ واحد امریکی صدر ہیں جو چار دفع اس عہدہ پر فائز رہے۔
دورانِ جنگ صدر نے نہ صرف کانگریس بلکہ سپریم کورٹ کے فیصلوں کی تشریح اپنے مطابق کی جسکو وہ اپنے ملک کے حق میں بہتر سمجھتے تھے۔صدر فرنکلن نے اپنے اختیارات میں اس حد تک تجاوز کیا کہ جسکی مثال امریکہ کی تاریخ میں نہیں ملتی لیکن صدر کی ایسی پالیسیوں نے انکے ملک کو جنگِ عظیم دوم میں فتح سے ہمکنار کیا۔
ایسے ہی فرانس میں صدر چارلس ڈی گوول جو الجزائر کی آزادی تحریک کے باعث مشکل میں تھے 1950 ء میں صدارتی اتھارٹی حاصل کرنے کے لیے انہیں سات سال لگے اور سیاسی استحکام کو بحال کرنے کے لیے انہیں ذرائع ابلاغ سمیت بہت سے معمالات میں سخت فیصلے کرنا پڑے۔

اوپر بیان کی گئی یہ مثالیں اس بات کی دلیل ہیں کہ قومی ثالمیت اور قوموں کی عزت کے تحفظ کی خاطر قوم کے سربراہ کو حالات کے مطابق مشکل فیصلے کرنا پڑتے ہیں۔
صدر فرنکلن اور صدر چارلس کو جنگی حالات کا سامنا تھااور پاکستان کو بھی جنگی صورتِ حال کا سامنا ہے۔ لہذا پاکستان کو بھی اپنی خودمختاری اور سالمیت برقرار رکھنے کے لیے ملک دشمن عناصر کے خلاف سخت اقدامات کرنے کی ضرورت ہے جو آزادی اظہار رائے کی آڑمیں قومی نظریے اور قومی مفادات کو نقصان پہنچانے میں مصروفِ عمل ہیں۔

مزید :

رائے -کالم -