دوہری شہریت، ایوان اقتدارمیں

دوہری شہریت، ایوان اقتدارمیں

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


مسلم لیگ (ن) کے سیکرٹری جنرل احسن اقبال نے کہا ہے کہ موجودہ (وفاقی) حکومت مہمان اداکاروں کی حکومت ہے جو ملک کو ڈبو کر جہاز پکڑلے گی اور گرین کارڈ اور برطانوی پاسپورٹ نکال کر بھاگ جائیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ دوہری شہریت کے حامل خصوصی معاونین کابینہ اجلاسوں میں بیٹھتے ہیں انہوں نے رازداری کا حلف بھی نہیں اٹھا رکھا۔ مسلم لیگ(ن) ہی کی رہنما مریم اورنگزیب نے مطالبہ کیا ہے کہ وزیراعظم غیر ملکی شہریت رکھنے والے اپنے مشیروں اور وزیروں سے استعفیٰ لیں۔ انہوں نے کہا کہ عمران صاحب، آپ نے خود کہا تھا کہ دوہری شہریت والوں کو ملک کے مستقبل کے بارے میں فیصلے کرنے کا حق نہیں دیا جا سکتا۔ آپ ہی نے کہا تھا کہ جس کے پاس کسی دوسرے ملک کا پاسپورٹ ہو، اسے پارلیمنٹ میں نہیں بیٹھنا چاہیے۔ آپ اب دوہری شہریت رکھنے والوں کو 22کروڑ عوام کی قسمت کے فیصلے کرنے کا موقع کیوں دے رہے ہیں؟ جن کا پاکستان میں کچھ نہیں انہیں آج اپنی کابینہ میں کیوں بٹھا رکھا ہے؟ ان کے بقول: ملک پر غیر ملکی ٹولہ مسلط ہونے کی وجہ سے عوام بے روزگاری، معاشی تباہی اور بھوک میں مبتلا ہیں۔ یہ سب فارن فنڈنگ اکاؤنٹ کی پیداوار مشیروں اور وزیروں کا ٹولہ ہے جو تحفے میں عمران صاحب کو ملا ہے۔ پیپلزپارٹی کے رہنماؤں نے بھی دوہری رکنیت رکھنے والے معاونین اور مشیروں کے حوالے سے وزیراعظم عمران خان کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔سینیٹر شیری رحمن کا کہنا ہے کہ دوہری شخصیت کا حامل شخص جب پارلیمنٹ کا رکن نہیں بن سکتا تو کابینہ کا حصہ کیوں اور کس قانون کے تحت بن سکتا ہے؟ کیا یہی دوہری شہریت والے نیا پاکستان بنا رہے ہیں؟ وزیراعظم کو نیا پاکستان بنانے کے لئے بیرون ملک سے کاریگر کیوں برآمد کرنا پڑے، کیا ملک اور تحریک انصاف میں قابل لوگوں کی کمی تھی؟ پیپلزپارٹی کے ایک اور رہنما اور حکومت سندھ کے ترجمان مرتضیٰ وہاب کا کہنا ہے کہ نیازی صاحب نے آئین پاکستان کو بالائے طاق رکھ کر اپنی کچن کابینہ میں غیر ملکی شہریت رکھنے والے افراد کو شامل کر رکھا ہے۔ وفاقی کابینہ میں قومی نوعیت کے حساس فیصلوں میں غیر ملکی شہریت کے حامل افراد کی موجودگی سنگین معاملہ ہے، جس کا نوٹس لیا جانا چاہیے۔ ان کے بقول دوہری شہریت والوں کو کابینہ میں شامل کرکے وزیراعظم جرم کے مرتکب ہوئے ہیں۔ پیپلزپارٹی ہی کے ایک اور رہنما اور سینیٹ کے سابق چیئرمین نیئر حسین بخاری نے سوال اٹھایا ہے کہ بڑے مالیاتی فوائد کے منصوبے دوہری شہریت کے کاروباری معاونین کے زیر نگرانی ہیں۔ پٹرول ٹیکس،ڈالر،اور میگا کرپشن سکینڈلز میں ان ”مہمان مہربانوں“ کا تذکرہ عام ہے۔
تحریک انصاف کے رہنماؤں نے ان بیانات کا ترکی بہ ترکی جواب دینے کی کوشش کی ہے اور اپوزیشن کے ”شور شرابے“ کو مسترد کر دیا ہے۔ وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب بیرسٹر شہزاد اکبر کا کہنا ہے کہ حکومت نے معاونین خصوصی اور مشیروں کے اثاثے ظاہر کرکے (شفافیت کی) مثال قائم کر دی ہے۔ غیر منتخب افراد کو کابینہ کے اجلاسوں میں بیٹھنے کا حق حاصل نہیں ہوتا۔ وہ خصوصی دعوت ہی پر شریک ہو سکتے ہیں۔ کابینہ اجلاسوں میں ہر معاون خصوصی اور مشیر کو مدعو نہیں کیا جاتا۔ بعض معاونین اور خصوصی مشیر ایسے ہیں جن کا ہر اجلاس میں کام ہوتا ہے۔ مشیر یا معاون خصوصی کا کام صرف مشورہ دینا ہوتا ہے۔ انہیں کوئی انتظامی فیصلہ کرنے یا اس پر دستخط کرنے کا اختیار حاصل نہیں ہے۔ ایگزیکٹو اتھارٹی کابینہ کے منتخب ارکان کے ہاتھ میں ہے اور وہی سمریوں اور احکامات پر دستخط کر سکتے ہیں اور حتمی رائے دے سکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اسحاق ڈار یا شریف خاندان (کے تمام افراد) کے پاس دوہری شہریت نہیں تھی لیکن وہ لندن میں بیٹھے ہیں۔ جس نے ملک سے بھاگ کر جانا ہو، اسے دوہری شہریت کی ضرورت نہیں ہوتی (وہ اس کے بغیر بھی ایسا کر سکتا ہے) انہوں نے کہا کہ جو مشیر بیرون ملک سے پاکستان آتے ہیں، ان کے اثاثے بھی باہر ہی ہوں گے۔وفاقی وزیر اسد عمر نے بھی کہا ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت نے مشیروں اور خصوصی معاونین کے اثاثوں کی تفصیلات جاری کرکے مثالی کام کیا ہے۔یاد رہے کہ وزیراعظم عمران خان کے حکم پر 15معاونین خصوصی اور 5مشیروں نے اپنے اثاثوں کی تفصیلات کابینہ ڈویژن میں جمع کرائی تھیں، جنہیں ظاہر کر دیا گیا ہے۔ قانونی طور پر یہ حضرات مذکورہ تفصیلات جمع کرانے کے پابند نہیں تھے، لیکن مختلف حلقوں کی طرف سے اٹھنے والے سوالات اور اعتراضات کی وجہ سے ان سے کہا گیا کہ وہ بھی وزرائے کرام (یا ارکان پارلیمنٹ) کی طرح اپنے اثاثوں کے گوشوارے مرتب کریں۔ الیکشن کمیشن کے بجائے کابینہ ڈویژن میں انہیں جمع کرانے کے لئے یوں کہا گیا کہ کمیشن صرف منتخب نمائندے کے معاملات کو دیکھتا ہے۔ کابینہ ڈویژن نے ملنے والی معلومات واشگاف کر دیں۔
اطلاعات کے مطابق 7معاونین خصوصی دوہری شہریت کے حامل پائے گئے۔اس پر اس بحث کا آغاز ہو گیا جس کی تفصیل مندرجہ بالا سطور میں بیان کی جا چکی ہے۔ اپوزیشن اور حکومتی زعماء کے اظہار رائے سے قطع نظر یہ ایک حقیقت ہے کہ ہمارا دستور دوہری شہریت رکھنے والے کسی شخص کو پارلیمنٹ کا رکن منتخب ہونے کی اجازت نہیں دیتا۔اس شق کا اطلاق سابق چیف جسٹس جسٹس افتخار چودھری کے دور میں بہت شدت سے کیا گیا اور کئی منتخب ارکان ایوانوں سے باہر نکال دیئے گئے۔ یہاں تک کہا گیا کہ ان کو دی جانے والی تنخواہ اور مالی مراعات واپس وصول کی جائیں۔ چودھری کورٹ نے ’دوہری شہریت‘ کے حاملین کی حب الوطنی پر بھی سوال اٹھایا اور ان کی وفاداری کو منقسم قرار دینے سے بھی گریز نہیں کیا۔ ان ریمارکس کو اس وقت بھی پذیرائی نہیں ملی اور آج بھی وسیع تر حلقے کی طرف سے انہیں ناپسندیدگی سے یاد کیا جاتا ہے۔اوورسیز پاکستانیوں کی حب الوطنی شک و شبہ سے بالاتر ہے، ان میں سے جو دوہری شہریت کے حامل ہیں ان کو پاکستانی قانون کے تحت اس کا حق حاصل ہے۔ہمارا قانون اجازت دیتا ہے کہ پاکستانی شہری بعض ممالک کی شہریت، پاکستانی شہریت کی تنسیخ کے بغیر حاصل کر سکتے اور رکھ سکتے ہیں۔ دوہری شہریت رکھنا کوئی جرم ہے نہ طعنہ، دستور پاکستان کی دفعہ 63کی یہ تشریح کی جا سکتی تھی (اور کی جا سکتی ہے) کہ جو پاکستانی شہری کسی ایسے ملک کی شہریت حاصل کرتاہے، جس کے لئے اسے اپنی شہریت سے دستبرداری اختیار نہیں کرنا پڑتی، اسے غیر ملکی شہریت کا حامل نہیں سمجھا جائے گا۔ اس کا معاملہ ایسے ہی ہو گا (یا ہو سکتی ہے) جیسے پہلی بیوی کی اجازت سے دوسری شادی کر لی جائے۔بدقسمتی سے ایسا نہیں ہو سکا اور جسٹس افتخار چودھری اور ان کے رفقاء نے مختلف نقطہ ء نظر اختیار کر لیا، آئینی اور قانونی طور پر اسے تسلیم کرنا پڑے گا۔ جب تک پارلیمنٹ اس تشریح کو ساقط نہ کرے یا سپریم کورٹ اس پر نظرثانی نہ کرلے، یہ تشریح حتمی سمجھی جائے گی۔ اس کے مطابق دوہری شہریت کے کسی حامل کو انتخاب میں حصہ لینے کا حق حاصل نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ قانون ساز نہیں ہو سکتا۔ وزیربننے کے لئے پارلیمنٹ کا رکن ہونا ضروری ہے، اس لئے وہ وزیر بھی نہیں بنایا جا سکتا، گویا نہ قانون بنانے میں اس کا کردار ہوگا نہ اسے نافذ کرنے میں۔ لیکن اسے وزیراعظم یا کسی وزارت کا معاون یا مشیر بنایا جا سکتا ہے تاکہ اس کے علم، تجربے اور مشاہدے کی دولت سے استفادہ کیا جا سکے۔ وزیراعظم عمران خان نے جتنی بڑی تعداد میں خصوصی معاون مقرر کئے ہیں، اس سے پہلے کسی پارلیمانی (یا غیر پارلیمانی) دور میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ اتنی بڑی تعداد میں معاونین کا تقرر اور یہ تاثر کہ مختلف وزارتیں ان کے سپرد کر دی گئی ہیں، اس منفی ردعمل کا باعث بنا مختلف سیاسی حلقوں کی طرف سے جس کا اظہار کیا جا رہا ہے اور اپوزیشن لیڈر کے طور پر خود عمران خان بھی جس کا برملا اظہار کرتے رہے ہیں۔
وزیراعظم عمران خان کو یہ کنفیوژن دور کرنے کے لئے اقدامات کرنا ہوں گے اور یہ تاثر دور کرنا ہو گا کہ دوہری شہریت کے حاملین (عملاً) وزیر بن گئے ہیں۔ کابینہ اجلاسوں میں بھی وہ نمایاں نظر آتے ہیں اور مختلف وزارتوں پر بھی ان کا حکم چلتا دکھائی دیتا ہے۔ معاونین کو معاون بنا کر رکھا جائے اور وہ بھی اپنے آپ کو معاون ہی سمجھیں تو پھر ان اعتراضات کا وزن کم ہو جائے گا جو اب بہت بھاری بھرکم دکھائی دے رہے ہیں۔

مزید :

رائے -اداریہ -