بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست
گزشتہ دنوں وزیراعظم عمران خان ازبکستان گئے ہوئے تھے۔ وہاں دارالحکومت تاشقند میں ازبک صدر شوکت مرزایوف سے ملاقات کرتے ہوئے انہوں نے اعلان کیا کہ پاکستان اور ازبکستان مل کر ظہیر الدین بابر، امام بخاری اور مرزا غالب پر فلمیں بنائیں گے جو دونوں ممالک کے درمیان تاریخی، مذہبی اور ثقافتی اقدار کو فروغ دیں گی۔ شہنشاہ بابر کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ فلم دونوں ملکوں کے عوام کے لئے بہت دلچسپ اور سبق آموز ثابت ہوگی۔
وزیراعظم نے مزید کہا کہ دونوں ممالک کے نوجوانوں کو اس بات کا علم ہونا چاہیے کہ ازبکستان اور پاکستان کے درمیان صدیوں پرانے ثقافتی روابط کا کیف و کم کیا ہے۔ صدر مرزایوف نے اپنے جوابی خطاب میں کہا کہ ازبکستان کی نوجوان نسل کو معلوم نہیں کہ بابر کے عظیم خاندان نے اس ملک کے لئے جو لاتعداد مساجد، مزارات اور مدرسے تعمیر کئے تھے ان کا تاریخی پس منظر کیا ہے…… پاکستانیوں کے لئے یہ فلم ایک ایسا سنگ میل ثابت ہو سکتی ہے جو وسط ایشیائی ریاستوں کی تہذیب، تمدن، روایات اور ثقافت کی آئینہ دار ہو گی۔ مغل خاندان نے 300سے زائد برسوں تک ہندوستان پر حکومت کی اور یہ دور برصغیر کی تاریخ میں ہر لحاظ سے ایک یادگار دور تھا۔
بابر کی زندگی پر فلم بنانا کوئی آسان کام نہیں ہوگا۔ انڈیا نے 1960ء میں مغل اعظم بنائی تھی۔ اس فلم پر کے آصف نے جتنی محنت کی اور جو سرمایہ خرچ کیا وہ برصغیر کی فلم سازی کی تاریخ کا ایک نہائت گراں قدر باب ہے۔ بنیادی طور پر یہ فلم شہزادہ سلیم اور ایک کنیز (انارکلی) کی داستانِ محبت ہے جسے پرتھوی راج، دلیپ کمار اور مدھوبالا کی اداکاری نے امر کر دیا ہے۔ مشہور ہے کہ اس وقت کے بھارتی وزیراعظم جواہر لال نہرو باہر سے آنے والے حکمرانوں کو یہ فلم دکھایا کرتے اور داد پایا کرتے تھے۔ اس کے مکالمے، گیت، موسیقی اور اداکاری لاجواب تھی (اور ہے)۔ جلال الدین محمد اکبر بلاشبہ خاندان مغلیہ کا مغلِ اعظم تھا لیکن اس فلم کے ناظرین پرتھوی راج کو اکبر کے روپ میں دیکھ کر اسے مغلِ اعظم کم خیال کرتے اور اس کے بیٹے نور الدین جہانگیر کو ہی مغل اعظم سمجھتے تھے۔ اور سچی بات یہ ہے کہ اس فلم کو جو لازوال شہرت نصیب ہوئی وہ سلیم اور انارکلی کی داستانِ عشق تھی…… مجھے معلوم نہیں قارئین میرے اس تجزیئے سے اتفاق کریں گے یا نہیں کہ ’مغل اعظم‘ فلم کا ہیرو مغل اعظم (اکبر بادشاہ) نہیں بلکہ اس کا بیٹا سلیم (جہانگیر) تھا!……
کل کلاں اگر بابر پر کوئی فلم بنائی جاتی ہے تو جب تک اس میں کوئی داستانِ عشق نہیں ’ڈالی‘ جائے گی تب تک اسے وہ شہرت نصیب نہ ہو سکے گی جو انڈیاکی فلم ”مغل اعظم“ کو ہوئی، جو آج تک باقی ہے اور مستقبل میں بھی قائم و دائم رہے گی۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگر یہ فلم ازبکستان اور پاکستان کی مشترکہ کاوش ہو گی تو اس کی پروڈکشن کی راہ میں کئی دشواریاں حائل ہوں گی اور کئی مشکل سوال ذہن میں ابھریں گے، مثلاً:
1۔یہ فلم دستاویزی فلم ہوگی یا فیچر فلم ہوگی؟ اگر ڈاکو مینٹری بنائی گئی تو اس کا دورانیہ چونکہ بہت کم مدت کا ہوگا اس لئے اس کی تاثیر ایک سوالیہ نشان ہو گی۔
2۔اس کی کاسٹ کے لئے ازبکستان اور پاکستان سے جو فنکار منتخب کئے جائیں گے وہ کہاں سے آئیں گے؟ ازبکستان کی فلم انڈسٹری کا تو مجھے کچھ اندازہ نہیں لیکن پاکستان میں کوئی ایسا فنکار یا فنکارہ آج نظر نہیں آتی جو موضوع سے انصاف کر سکے۔
3۔ ظاہر ہے یہ فلم دونوں زبانوں (اردو اور ازبک /پرشین) میں ڈب کی جائے گی اور اگر اسے کسی انٹرنیشنل فلم فیسٹیول میں بھیجنا ہو تو اس کی Dubbing انگریزی میں بھی کی جائے گی۔ یہ ایکسرسائز آسان نہیں ہوگی۔
4۔ اس فلم کی شوٹنگ کس جگہ کی جائے گی؟ کیا پاکستان میں یا افغانستان میں؟ بابرکا مزار تو کابل میں ہے۔ اس کی وفات 1530ء میں آگرہ میں ہوئی تھی اور اس نے مرنے سے پہلے وصیت کی تھی کہ اس کا جسدِ خاکی کابل میں دفن کیا جائے، دلی میں نہیں …… دوسرے لفظوں میں اسے پاکستان یا ازبکستان کے سٹوڈیوز میں ہی فلم بند کیا جا سکے گا۔ اگر مستقبل قریب میں افغانستان میں کسی مستحکم حکومت کا فیصلہ ہو جاتا ہے تو پھر شاید اس منصوبے پر عمل پیرا ہونے کے امکانات روشن ہو جائیں …… فرغانہ، سمر قند، کابل، لاہور اور دلّی کی لوکیشنز کا انتخاب ایک بڑا چیلنج ہوگا۔ بابر کا انتقال صرف 47برس کی عمر میں ہو گیا تھا۔ لڑکپن سے لے کر جوانی اور ادھیڑ عمری تک بابر، برف پوش کوہستانوں اور شدید سرد وادیوں میں سرگرداں رہا۔ توزک بابری (بابرنامہ) کا مطالعہ کیجئے۔ (راقم السطور کو انگریزی) فارسی اور اردو ترجموں کا بغور مطالعہ کرنے کے مواقع ملے ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ بابر کی زندگی پر فلم بنانے والوں کو ’تزکِ بابری‘ کا نہایت سنجیدہ مطالعہ کرنا پڑے گا) 1996-97ء میں ایک دوست کی فرمائش پر میں نے بابر کی زندگی پر ایک مختصر سا مقالہ لکھا تھا جو آج بھی میرے پاس محفوظ ہے اور ٹائپ شدہ 28صفحات پر مشتمل ہے۔ میں نے کل رات اسے اٹھا کر پڑھا تو خیال آیا کہ شائد اس میں 15،20 صفحات کے اضافے کی مزید گنجائش ہے۔ تزکِ بابری کا مطالعہ کرتے ہوئے کئی بار محسوس ہوا کہ بابر صرف ایک بادشاہ اور حکمران ہی نہیں بلکہ ہمہ صفت موصوف شخصیت تھی۔ تاریخ میں بابر جیسے انسان بہت کم پڑھنے کو ملتے ہیں۔ میں نے دوسرے عظیم مغلوں کے حالاتِ زندگی کا بھی کچھ مطالعہ کیا ہے۔ حال ہی میں ڈارلمپر کی کتاب ”انارکی“ بھی اس موضوع پر ہے۔ لیکن بابر ان سب میں نرالا اور سربرآوردہ تھا۔ زندگی اگر اسے پانچ سات سال اور مہلت دے دیتی تو وہ شاید تاریخِ برصغیر کا ہر لحاظ سے سب سے عظیم تاجدار ہوتا۔
بابر کا باپ ایک چھوٹی سی ریاست فرغانہ کا حاکم تھا۔ وہ ترک تھا اور گھر میں ترکی اور فارسی بولی جاتی تھی۔ مجھے معلوم نہیں کہ وہ کس مدرسے میں پڑھتا رہا تھا کہ اس کو تاریخ، جغرافیہ، ریاضی، سوشل سٹڈیز اور جنرل سائنس کے علاوہ اخلاقیات کا بھی از بس شعور تھا اور انسانی نفسیات کا کماحقہ ادراک بھی اسے حاصل تھا۔ ایک ازبک سردار جس کا نام شیبانی خان تھا، اس کا سب سے بڑا دشمن تھا۔ اس نے کئی بار بابر کو شکست دی اور کئی بار وہ برف پوش چوٹیوں پر اپنے چند جانثاروں کے ہمراہ گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر سوار دھکے کھاتا رہا۔ لیکن ہمت نہ ہاری۔ نہ صرف برصغیر بلکہ اس دور کے افغانستان کے سارے دریا بابر نے تیر کر عبور کرے۔ بظاہر جسمانی لحاظ سے لاغر لیکن سارا بدن گویا فولاد کا بنا ہوا تھا۔ بابر نامہ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ جب بھی کوئی علاقہ فتح کرتا تو اسے خداوند جلیل کی عطا گردانتا تھا۔ مختلف پھلوں کے اثرات اور مختلف آب و ہوا میں اگنے والے درختوں اور جھاڑیوں کا ذکر کرتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک منجھا ہوا باغبان اور جنم جنم کا فارسٹ آفیسر ہے۔ شراب نوشی بھی کرتا تھا لیکن جب جنگ کنواہہ میں رانا سانگا کے ساتھ مقابلے میں شکست کے آثار پیدا ہوئے تو شراب سے توبہ کر لی اور عمر بھر اسے ہاتھ نہ لگایا۔
مغلوں میں ایک اور نرالی صفت یہ بھی تھی کہ وہ اگرچہ خود شعر گو نہ تھے لیکن شعر شناس ضرور تھے۔ بابر کے نام کے ساتھ اس کا یہ شعر تو آپ نے بھی کئی بار سنا اور پڑھا ہوگا:
نو روز و نو بہار و مے و دلربا خوش است
بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست
(ترجمہ: نئے سال کا پہلا دن، بہارکا موسم، شراب اور حسین و جمیل محبوب سب کے سب قابلِ تحسین ہیں۔ اس لئے اے بابر! اٹھ اور ان سے حظ اٹھا کہ یہ دنیا دوبارہ دیکھنے کو نہیں ملے گی)
اگر یہ شعر واقعی بابر کا ہے تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ حسنِ نسوانی کادلدادہ بھی تھا۔ لیکن اس کے نام کے ساتھ کسی پری وش کا تعلق کسی بھی تاریخی کتاب یا روائت میں نہیں ملتا۔ اگر ایسا ہوتا تو بابر پر فیچر فلم بنانے والوں کی مشکل آسان ہو جاتی۔ اب اگر فلم بنائی بھی گئی اور وہ ڈاکو مینٹری ہوئی تو اس سے لوگوں کی معلوماتِ عامہ میں تو شاید اضافہ ہو لیکن معلومات کا تعلق تو دماغ سے ہوتا ہے، دل سے نہیں اور فلم میں جب تک ”دل کے معاملے“ کا قصہ نہ دہرایا جائے بات نہیں بنتی۔
کیا بات ہے کہ صاحبِ دل کی نگاہ میں
جچتی نہیں ہے سلطنتِ روم و شام و رے
جس روز دل کی رمز مغنی سمجھ گیا
سمجھو تمام مرحلہ ہائے ہنر ہیں طے
بابر کو کابل سے بہت محبت تھی حالانکہ شیبانی خان نے ایک سے زیادہ بار اسے شکست دے کر کابل بدر کر دیا تھا۔ یہی وجہ ہو گی کہ اس نے موت سے پہلے وصیت کی تھی کہ اسے دلی یا کسی اور ہندوستانی شہر میں دفن نہ کیا جائے بلکہ کابل میں لے جا کر سپردِ خاک کیا جائے۔1933ء میں جب علامہ اقبال نے شاہ افغانستان کی دعوت پر کابل کا سفر کیا تھا تو بابر کے مزار پر بھی حاضری دی تھی۔ ان کی کتاب ”مثنویء مسافر“ میں 7اشعار کی ایک نظم ہے جس میں ایک شعر ایسا بھی ہے جس میں بابر کی کابل میں دفن ہونے کی آرزو کی ایسی وجہ بیان کی گئی ہے جو آج 80برس گزر جانے کے بعد بھی مزید واضح ہو کر سامنے آرہی ہے…… شعر یہ ہے:
ہزار مرتبہ کابل نکو تر از دلّی ست
کہ آں عجوزہ، عروسِ ہزار داماد است
(ترجمہ: کابل کا شہر دلّی سے ہزار بار بہتر ہے کہ دلی ایک ایسی عورت ہے جس نے کئی شوہر دیکھے اور نجانے کتنے اور دیکھے!)
1933ء میں اقبال کو کیا خبر تھی کہ 1980ء کے عشرے میں پہلے سوویت یونین اور پھر 21ویں صدی کے پہلے دو عشروں میں امریکہ، کابل کو دلّی سمجھ کر اس پر تسلط جمانے کی کوشش کریں گے لیکن دونوں ’ذلیل و خوار‘ ہو کر واپس چلے جائیں گے!