کابل،نماز عید کی ادائیگی کے دوران صدارتی محل کے باہر راکٹ حملے
کابل (مانیٹرنگ ڈیسک، نیوز ایجنسیاں) افغانستان کے دارالحکومت کابل میں واقع صدارتی محل پر منگل کے روز عین اس وقت متعدد راکٹ فائر کیے گئے جب وہاں نماز عید الاضحی ادا کی جا رہی تھی،لیکن خوش قسمتی سے کوئی بھی راکٹ اپنے ہدف کو نشانہ نہیں بنا سکا۔میڈیا اطلاعات اور حکام کے مطابق ابھی تک ہلاکتوں کی کوئی اطلاع موصول نہیں ہوئی۔ دھماکے صدارتی محل کے نزدیک ہوئے۔وزارت داخلہ کے ایک عہدیدار نے بتایایکے بعد دیگرے3 راکٹ حملے پروان کے علاقے کی ایک سڑک پرکھڑی لاوارث گاڑی سے فائر کیے گئے۔ یہ راکٹ صدارتی محل کے نزدیک پولیس ضلع 1اور پولیس ضلع 2کے علاقوں میں گرے۔ راکٹ حملہ مقامی وقت کے مطابق صبح آٹھ بجے کیا تھا جب افغان صدر اشرف غنی اور دیگر معززین محل کے احاطے میں ایک کھلے میدان میں عیدالاضحی کی نماز ادا کر رہے تھے،تاہم صدارتی محل میں عید کی نماز میں کوئی خلل نہیں پڑا۔ذرائع نے بتایا محل کے باہر ہلاکتیں ہونے کا خدشہ ہے،لیکن سرکاری طور پر مزید تفصیلات جاری نہیں کی گئیں، ابھی یک کسی بھی گروہ نے حملے کی ذمہ داری بھی قبول نہیں کی۔افغان صدارتی محل کے قریب راکٹ حملے کے بعد سکیورٹی سخت کر دی گئی۔ راکٹ شہر کے شمالی حصے سے داغے گئے، جو صدارتی محل کے قریب باغِ علی اور چمن حضوری کے علاقوں میں گرے۔ حملوں سے خوف و ہراس پھیل گیا، علاقے کو سکیورٹی اہلکاروں نے گھیرے میں لے لیا۔نماز عید کے بعد صدر اشرف غنی نے خطاب کرتے ہوئے کہا طالبان نے ظاہر کر دیا انہیں امن کی کوئی خواہش نہیں، وہ اسی بنیاد پر فیصلے کریں گے، اگلے تین سے چھ ماہ میں صورتحال بدل جائیگی۔ ملک میں ملیشیا بنانے اور آمریت کی کوئی جگہ نہیں، صورتحال پر قابو پانے کیلئے عملی منصوبہ بنالیا ہے۔ یہ عید افغان فوج کی قربانیوں،جرات کے احترام میں ان کے نام کی ہے۔ادھر افغانستان کی وزارتِ داخلہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ راکٹ حملے میں جانی نقصان نہیں ہوا، واقعے کی تحقیقات جاری ہیں۔جبکہ افغان وزارتِ دفاع نے افغان فورسز کے آپریشن میں 233 طالبان کی ہلاکت اور صوبہ سمنگان کے ضلع درہ صوف کا قبضہ طالبان سے واپس لینے کا دعویٰ بھی کیا ہے۔دریں اثناء افغانستان میں امریکی سفارتخانے نے ملک میں موجود تمام غیرملکی مشن کی جانب سے جاری کردہ بیان افغانستان میں جاری پرتشددکارروائیوں کی مذمت کرتے ہوئے طالبان سے کہا ہے کہ وہ تشددکا سلسلہ فوری روکیں،پر تشددکارروائیاں پر امن سیاسی حل اور عوام کیلئے نقصان دہ ہیں، طالبان کی پرتشددکارروائیاں ان کے پرامن حل کے حامی ہو نے کے دعوے سے متصادم اور دوحہ امن عمل کے بھی خلاف ہیں۔ طالبان کے زیرقبضہ علاقوں میں خواتین کے حقوق کچلنے کی معتبر اطلاعات ہیں، ان علاقوں میں میڈیا آرگنائزیشنز بند کرنے کی بھی اطلاعات ہیں۔بیان کے مطابق افغانستان میں امن میں پیشرفت فریقین کے مل کر کام کرنے سے ہی برقرار رہ سکتی ہے، طالبان اور تمام فریقین فوری طورپرتشدد روکیں اور فریقین مستقل، جامع جنگ بندی پر متفق ہوں۔ طالبان اور تمام فریقین مکمل طورپر امن مذاکرات میں مشغول ہوں،جامع سیاسی تصفیے پر رضامند ہوں اور افغانستان کو دہشتگردوں کی محفوظ پناہ گاہ بننے سے بچانا یقینی بنائیں جبکہ طالبان عیدالاضحی پرہتھیار رکھ کر امن عمل کیلئے اپنے عزم کا اظہارکریں۔
کابل راکٹ حملہ