روز نامہ ڈا ن میں یہ خبر پڑھ کر مایوسی ہوئی کہ وطن عزیز کا پاسپورٹ بیرونی دنیا میں صرف ایراق، شام اور افغانستان سے بہتر مانا جاتا ہے۔ ہم نے چونکہ ترقی یافتہ دنیا میں بیس برس گزارے ہیں تو ہم کلچر، جمہوریت اور گورننس کا موازنہ کرتے رہتے ہیں۔ہمارے مشاہدے میں ہماری ترقی کا گراف گرا جا رہا ہے اور ترقی یافتہ دنیاکی ترقی کا گراف مزید چڑھا جارہا ہے۔ بحثیت ملک او ر سٹیٹ بیرونی دنیا کے ہاتھوں ہماری محتاجی بڑھتی جارہی ہے۔ ہم نے اپنے ایک دوست سے از راہ ء مذاق عرض کی کہ یہ فلاں چینل پر فلاں شخص سے یہ پوچھا جارہا ہے کہ سویڈن میں قرآن پاک کو کیوں جلایا گیا ہے؟ جبکہ ہماری دانست میں مذکورہ تجزیہ نگار سویڈن جیسے ملک میں کبھی گیا ہی نہیں ہے۔ اسی طرح بے شمار ماہرین کو فارن افئیرز کا ماہر جانا جاتا ہے جو چند ماہ سے زیادہ بیرونی دنیا میں نہیں رہے۔ ہمار ا تو خیال ہے کہ زیادہ تر لوگ جو بیرون دنیا میں دوروں پر جاتے ہیں۔ ان کے خیال میں وہ بیرونی دنیا کو پورے طور پر جان چکے ہوتے ہیں۔ یعنی کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر ہم اپنے ساتھ اپنا کک، چپراسی، ڈرائیور اور خاکروب اور ڈاکٹر یا مالشی ساتھ لے کر ترقی یافتہ دنیا میں جاتے ہیں اور وطن عزیز کے ڈومین سے پوری طرح نکل ہی نہیں پاتے تو گویا ہمارا ایکسپوژر ناقص ہے۔
اکثر یہ بھی باور کیا جاتا ہے کہ ناقدین بہت ملتے ہیں لیکن مسائل کے حل بتانے والے ناپید ہیں۔ ہم نے ایک ترقی یافتہ ملک کو اس کے اندر رہ کر مزید ترقی کرتے دیکھا ہے۔ یہ اس بات سے بلکل مختلف ہے کہ ایک ٹی۔وی چینل کے ذریعے کسی ملک کو ترقی کرتے دیکھا جاے۔ ٹی۔وی چینل لانچ کرنا ایک بھاری بھرکم بزنس ہے۔ پھر اس میں مختلف پروگرامز کی ریٹنگ بڑھنا، اشتہار ملنا، اور ٹی وی چینل کا موثر ہوتے جانا ایک پیچیدہ تفصیل ہے۔ شایدعام سامعین کو ان تفصیلات سے دلچسپی بھی نہیں ہوتی۔ اگر دلچسپی ہوبھی توشاید انکے حق میں بہتر یہی ہوتا ہے کہ ان کا علم اتنا ہی ہو جسے وہ ہضم کرسکیں۔
حساب کتاب والے بتاتے ہیں کہ وطن عزیز پر جو قرضہ ہے اگر شہریوں پر تقسیم کیا جاے تو ہرشخص لاکھوں کا مقروض ہے۔ مالیاتی اداروں نے قرضے دئیے۔ حکومت اور سٹیٹ کے ترقیاتی اور غیر ترقیاتی اخراجات کا تئعین ہوا۔ ترقیاتی اخراجات کی بانٹ اور اصراف کی نازک ذمہ داری سیاسی نمائندوں اور سرکاری محکموں کو دی گئی۔چونکہ جمہوریت بقول بہت سے سیاسی زعماء کے میچور نہیں ہے چنانچہ گورننس بھی نقائیص سے بھرپور ہے۔ ایک عام آدمی کا فنڈز سے فیض یاب ہونا کس قدر کٹھن راستہ ہے۔گویا بلند ترین پہاڑوں کی چوٹی سے پگھلتی برف میں کچھ ٹن نمک کے انڈیلے گیے اور امید باندھی گئی کہ یہ برف پوری پگھلے گی۔ پھر یہ نمک والا پانی پہاڑوں سے ہوتا ہوا دریا ں میں داخل ہوگا۔ پنجاب اور سندھ کے صحراوں تک پہنچے گا۔ اگر ان صحراوں میں بسنے والوں نے صبر کیا اور عقل سے کام لیا تو وہ یہ برتنوں میں ڈال کر خشک کریں گے اور نمک حاصل کرلیں گے۔ نمک کی کتنی مقدار ان تک پہنچتی ہے اس کا انحصار بہت سے عوامل پر ہے۔ بہت سا نمک ضائع ہونے کا احتمال ہے۔ اس میں جنگلی جانور بھی پانی پی جائیں گے۔ بہت سا نمک دریا کی تہہ میں بھی بیٹھ جاے گا۔ نمک کی کتنی فیصد مقدار عوام تک پہنچے گی۔ کچھ یقین سے نہیں کہا جاسکتا۔
وطن عزیز کے سرکاری محکموں کے دفاتر میں ٹیکنالوجی سے دوری یہ بتاتی ہے کہ کمپیوٹر ٹایپ رائیٹر کی جگہ استعمال ہوتا ہے۔سیکریٹری صاحب یا منسٹر صاحب پراجیکٹ کا سٹیٹس جاننا چاہتے ہیں۔ نمبر ڈائل کریں اور پراجیکٹس کا سٹیٹس جانیں۔ جو سٹیٹس آپکو بتایا جاے اس پر یقین کریں۔ یا چٹھی لکھیں اور چند ہفتوں بعد جواب میں ایک چٹھی موصول کریں۔ اسے فائل میں رکھیں۔ فائل الماری میں رکھیں۔ دفتری کام ایسے ہی ہوتے ہیں۔ آئی۔ایم۔ ایف کو بتائیں کہ ڈیجیٹیل گورننس پر کام ہورہا ہے۔ یہ ڈیجیٹیل گورننس کیا چیز ہے؟ آپ ٹیکنالوجی بیسڈ گورننس کو ڈیجیٹیل گورننس کہہ رہے ہیں؟ ایشیوز کو باکس میں بند کرنا آسان بات ہے۔جمہوریت اور تیسری دنیا ۔ کچھ ایسے ہی نہیں ہے۔ مکڑی گھاس میں پھنسی ہوئی ہے۔
ہمارا ترقی یافتہ دنیا کا یہ مشاہدہ ہے کہ بیوروکریسی کو ٹیکنالوجی استعمال میں لانے یا اسے اڈابٹ کرنے میں بہت احتیاط سے کام لینا ہوتا ہے۔ ترقی یافتہ دنیا میں بھی بیورکریسی ٹیکنالوجی اپنانے میں پھونک پھونک کہ قدم اٹھاتی ہے۔ دوسری طرف غیر سرکاری دنیا کی طرف سے ٹیکنالوجی گیپ بڑھا جارہا ہوتا ہے۔ سیکریٹری صاحب کوماتحت آفیسر جو بریفنگ دے گا اسے ماننا پڑتا ہے۔ زیادہ زیادہ سیکریٹری صاحب کیا کرسکتے ہیں؟ ڈانٹ ڈپٹ کرسکتے ہیں؟ڈانٹ ڈپٹ قدیم طرز طریق ہے گورننس ایفی شنٹ کرنے کا۔ اگر سیکریٹری صاحب پراجیکٹ میں تاخیر کی وجہ معلوم کرنا چاہیں تو اس کا میکانزم کیا ہے؟ مالی خسارے کے ذمہ دار کو کیسے ڈھونڈا جاے؟سنا ہے احتساب بیورو کے پاس جدید سکیننگ آلات ہیں جو منٹوں میں سارے دفتری ریکارڈ کی چھان بین کرکہ کٹا چٹا الگ کردیتے ہیں۔پھر تو احتساب بیورو میں ترقی یافتہ دنیا کے لوگ فرائض انجام دیتے ہوں گے۔ثبوت چاہیے ہوتا ہے ٹھوس ثبوت۔ اور یہ چیز دفاتر کے اندر ٹیکنالوجی بیسڈ انفراسٹرکچر کے بغیر ممکن نہیں ہوتی۔ یہیں پر عدالتیں کسی نتیجے پر بھی نہیں پہنچ پاتی۔ درجنوں سینکڑوں سیاسی نمائندے اور سرکاری اہلکار سڑکوں پر آزاد پھرتے ہیں اور کوئی اس بات کی ذمہ داری قبول نہیں کرتا کہ سڑک تعمیر کے چند ماہ بعد ٹھوٹ پھوٹ کا شکار کیوں ہوئی؟ پراجیکٹ میں تاخیر کیوں ہوئی اور پراجیکٹ کی لاگت کیو ں بڑھ گئی؟ اور قومی لیول پر کوئی نہیں مانتا کہ کس کی خطا ہے کہ ملک کی حالیہ بیل آوٹ ڈیل میں کیا چیز رہن رکھی گئی ہے؟ ائیرپورٹس، کراچی پورٹ یا گوادر پورٹ، یا دونوں پورٹس؟ اگر رہن نہیں رکھی گئی توکیا وہ وقت آنے والا ہے؟ اور اس سیل اوٹ کو بچانا کس نے ہے؟تیسری دنیاکی جمہوریت نے؟
اللہ ہمارا حامی اور ناصر ہو۔
۔
نوٹ: یہ مصنف کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
۔
اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیلئے بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’zubair@dailypakistan.com.pk‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں۔