میری برادری کے لوگ ........!
ایک زمانہ تھا کہ لوگ فردوس اور اعجاز کی باتیں کرتے تھے.... ہیر رانجھا کے گیت کانوں میں رس گھولتے۔ منور ظریف، ننھا اور رنگیلا کے قہقہے صحت کا راز سمجھتے جاتے.... مشاعرے ہوتے، غالب کی شاعری کو سمجھنے کی کوشش کی جاتی.... لوگ.... یوسفی کے شگوفوں سے لطف اندوز ہوتے.... آرٹ اینڈ کلچر کا عروج تھا، اس وقت کے ہیرو آئیڈیل ہوتے۔ لوگ ان سے محبت کرتے اور سٹائل کو اپناتے.... موسیقی کی محفلیں جمتیں.... تو صبح ہو جاتی.... سچی سچی باتیں ہوتیں.... اور دل و جان پاکیزگی سے معطر ہو جاتے.... ڈرامہ آیا تو ثقافتی اور اخلاقی اقدار کی ترجمانی ہوئی.... ٹی وی پر ڈرامے کے وقت سڑکیں ویران ہو جاتیں.... ہر مکالمہ نپا تلا ہوا، اعلیٰ اقدار کا اتنا خیال رکھا جاتا کہ خاندان کے تمام افراد اکٹھے بیٹھ کر لطف اندوز ہوتے.... میڈیا نے ترقی کی.... طوفان آ گیا اور طوفان بھی اس طرح کہ نہ تھمنے والا.... چھوٹی سکرین پر اینکر آ گئے اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ بڑے سٹار بن گئے۔ تمام چینلوں کے پرائم ٹائم ان اینکروں کے قبضے میں آ گئے....
کمال ہو گیا....!! موسیقی غائب ہو گئی، ڈرامہ ختم ہو گیا اور بڑی سکرین بھی اپنی آخری ہچکیاں لینے لگی.... شعرو ادب کی محفلیں ماضی کا حصہ بن گئی۔ قوم پوری یکسوئی سے نیوز اور کرنٹ افیئرز کے پروگرام دیکھنے لگی۔ اینکرز نے وہ کام کیا.... جو ممکن نہ تھا۔ دوستوں کو دشمن اور دشمنوں کو مزید دشمن بنا دیا۔ ایسی ایسی باتیں اور قصے سننے کو ملے، جن کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ صحافت کو ہتھیار بنا کر پگڑیاں اس طرح اچھالی گئیں کہ ننگے سروں کو چھاوں کا سہارا بھی نہ ملا۔ خاص طور پر سیاستدان ان کی زد میں رہے۔ سیاست قوموں کے مستقبل کا ڈھانچہ بناتی ہے اور سیاسی لیڈر قوم کی تعمیر و تشکیل میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ سیاستدان بھی اسی معاشرے کا حصہ ہوتے ہیں، ان میں بھی خوبیاں اور خامیاں ہوتی ہیں، لیکن میڈیا پر سیاستدانوں کی کمزوریوں کو جواز بنا کر خوب تمسخر اڑایا گیا، کسی بھی معاشرے میں جمہوریت کے استحکام کے لئے سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوں کا اعتماد بہت ضروری ہے۔ جمہوریت ایک عمل ہے، جس میں وقت درکار ہے۔ لیڈر کارکنوں کا آئیڈیل ہوتے ہیں وہ قوم کی رہنمائی کرتے ہیں، لیڈر پر اعتماد اٹھ جائے، تو قومیں بکھر جاتی ہیں۔
ہمارے اینکرز نے اس فرض کو خوب نبھایا اور لیڈر کو اس طرح پیش کیا کہ لوگ ان سے نالاں ہو گئے اور معاشرے کی تمام خرابیوں کا ذمہ دار انہیں ٹھہرایا جانے لگا۔ آج لوگ صبح اٹھتے ہیں تو ایک دوسرے کو بتاتے ہیں کہ رات فلاں اینکر نے کمال کر دیا اور فلاں اینکر نے دھجیاں بکھیر دیں اور لوگ ان اینکرز کے پروگراموں کو سب سے بڑی تفریح سمجھنے لگے۔ سکرین پر اینکرز اتنے سنسنی خیز انداز میں باتیں کرتے ہیں کہ دیکھنے والے سوچتے ہیں کہ پورے ملک کے معاملات ان کے کنٹرول میں ہیں اور یہ اندر اور باہر کی تمام باتوں کی خبر رکھتے ہیں۔ ملک میں ان کی اہمیت بہت زیادہ بڑھ گئی.... اس سے کچھ اور ہوا نہ ہوا.... ان کے مالی معاملات بہتر ہو گئے، بلکہ پبلک مقامات پر تو لوگ انہیں ہیرو کی طرح ٹریٹ کرنے لگے۔
ایک مرتبہ لاہور ایئر پورٹ پر میرے جاننے والے اینکر نظر آئے جو لوگوں کو آٹو گراف دے رہے تھے۔ اینکر کے چہرے سے لگ رہا تھا کہ جیسے وہ اپنے دور کا محمد علی یا وحید مراد ہو.... انہیں بہت عزت ملی ہے.... دعا ہے کہ انہیںاور عزت ملے.... سوال یہ ہے کہ انہوں نے اپنی صحافتی ذمہ داریاں پوری کیں؟ کیا حمید نظامی، میر خلیل الرحمان، آغا شورش کاشمیری کی روحیں ان سے خوش ہیں۔ کیا مجید نظامی، مجیب الرحمن شامی، عباس اطہر اور ان جیسے صحافتی اقدار رکھنے والے قلمکاران سے مطمئن ہیں، آج پورے ملک کی توجہ اصل مسائل کی طرف سے ہٹ چکی ہے۔ قوم ایسی باتوں میں الجھی ہے جو بے مقصد اور بے معنی ہیں۔ چھوٹے چھوٹے ایشوز اس طرح اُچھالے جا رہے ہیں کہ بڑے بڑے ادارے ان کے سامنے لرز جاتے ہیں۔ ہمارے اینکرز الزامات اس طرح پیش کرتے ہیں جیسے.... سزا.... سنا رہے ہیں اور جو بے چارہ ان کی زد میں آ جاتا ہے وہ پھر کہیں کا نہیں رہتا۔ قصور سیاستدانوں کا بھی ہے۔ سیانے لوگ کہتے ہیں کہ یار یہ سیاسی لیڈر جان بوجھ کر بے عزت ہونے کے لئے ٹاک شوز میں آتے ہیں۔ ان سے سوال اس انداز میں کئے جاتے ہیں کہ عام لوگ تو ایک طرف، ان کے گھر والوں کا اعتماد بھی ان پر سے اٹھ جاتا ہے۔ کوئی ضابطہ اخلاق نظر نہیں آتا، ہر بندہ اپنی ذات میں پھنے خاں ہے۔ قوم کی کشتی چاہے ڈوب جائے.... ریٹنگ بڑھنی چاہئے۔