پھر کچھ لطائف الادب

پھر کچھ لطائف الادب
پھر کچھ لطائف الادب

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ہمسفری پر ناز
حضرت علامہ اقبال کو جس طرح نواب مرزا داغ دہلوی سے شاگردی پر ناز تھا اور فخریہ اظہار کرتے تھے کہ :
ہمیں بھی فخر ہے شاگردیء داغِ سخنداں کا
اسی طرح انہیں میر غلام بھیک نیرنگ اور نادر کاکوردی کی ہمسفری پر بھی ناز تھا، چنانچہ کہا:
نادر و نیرنگ ہیں اقبال میرے ہمسفر!
ہے اسی تثلیث فی التوحید کاسودا مجھے
مکالمہ جوش و طفیل
جوش ملیح آبادی!
’’اور ہاں! سنا ہے کہ مُبین الحق صدیقی سپیکری سے گئے!
محمد طفیل (نقوش): ’’جی ہاں گئے!‘‘
جوش: ’’بھئی ان پر کیا چارجز تھے۔ آدمی تومعقول ہے‘‘۔۔۔!
محمد طفیل: جی ہاں! آدمی تو معقول ہیں جہاں ان پر اور چارجز ہیں، وہاں ایک یہ بھی ہے کہ انہوں نے اسمبلی ہال میں مشاعرہ کرا ڈالا تھا۔
جوش صاحب نے اپنے سر کو معنی خیز انداز میں ہِلا کر کہا ’’اچھا اچھا تو گویا شعر پڑھنا جرم میں داخل ہو گیا‘‘۔
محمد طفیل: اب تو یہی سمجھنا چاہیے۔
جوش: میاں! وہ دن آنے والا ہے جب شاعروں کو اس پاداش میں جوتے مارے جائیں گے کہ سالا شعر کہتا ہے‘‘۔۔۔!
مضمون لڑ گیا


مرزا غالب ایک مرتبہ کسی مشاعرے میں تشریف لے گئے آغا جان عیش ایک خوش فکر اور زندہ دل شاعر تھے۔ خاندانی طبیب تھے شیریں کلام، شیریں سخن، خوش مزاج، سرخ و سفید، شگفتہ صورت صاحبِ اخلاق اور زیور علم اور لباس کمال سے آراستہ تھے ان کی غزل بھی شوخی مضامین صفائی کلام اور حسن و محاورہ کا گل دستہ ہوتی تھی۔انہوں نے اپنی غزل میں یہ شعر پڑھا:
اے شمع صبح ہوتی ہے روتی ہے کس لئے
تھوڑی سی رہ گئی ہے اسے بھی گزار دے
غالب کی غزل میں بھی ایک شعر اس مضمون کا تھا۔ انہوں نے اپنے پہلو میں بیٹھے ہوئے صاحب سے کہا کہ ’’میرے ایک شعر کا مضمون اس شعر سے لڑ گیا ہے۔ میں اب وہ شعر نہ پڑھوں گا‘‘۔ انہوں نے کہا ’’ضرور پڑھئے گا، کیونکہ نہ انہوں نے آپ کا شعر سنا تھا اور نہ آپ نے ان کا ،علاوہ بریں آپ کے پڑھنے سے فکر کا بھی اندازہ ہو جائے گا کہ ایک ہی منزل پر دونوں فکریں ، کس کس طرح پہنچیں چنانچہ جب مرزا غالب کے پڑھنے کی باری آئی تو انہوں نے شعر پڑھا:
اے شمع تیری عمرِ طبیعی ہے ایک رات
رو کر گزار یا اسے ہنس کر گزار دے
انڈر گراؤنڈ
ریڈیو پاکستان لاہور سے وابستہ مشہورِ زمانہ براڈ کاسٹر، اناؤنسر، کمپیئر اخلاق احمد دہلوی اپنے زمانے کے روشن خیال اور ترقی پسند نظریات کے حامل ادیب تھے۔ حمید اختر سے ان کی گہری دوستی تھی سید سبطِ حسن بھی ان کے حلقہ احباب میں تھے جو حکومتی پکڑ دھکڑ کے سبب عموماً ’’انڈر گراؤنڈ‘‘ چلے جاتے۔ اس پس منظر کو ذہن میں رکھئے اور ملاحظہ فرمایئے شوکت تھانوی کی بذلہ سنجی۔۔۔!
شوکت تھانوی مرض الموت میں مبتلا، زندگی کے آخری دنوں میں میوہسپتال لاہور میں داخل تھے، اخلاق احمد دہلوی ان کی عیادت کے لئے گئے۔ حال احوال پوچھنے پر شوکت تھانوی نے کہا:
’’بھائی! مَیں تو جا رہا ہوں‘‘
’’کہاں؟‘‘۔۔۔ اخلاق احمد دہلوی نے پوچھا ’’انڈرگراؤنڈ‘‘۔ شوکت تھانوی نے بے ساختہ کہا۔
انتقال فرما رہے ہیں
ایسا ہی حقیقی واقعہ حضرت جوش ملیح آبادی کے دمِ رخصت کا ہے، جب میں (یعنی راقم ناصر زیدی) کنٹرولر ریڈیو پاکستان ایس ایم رفیق صاحب کو لے کر پولی کلینک ہسپتال اسلام آباد میں جوش ملیح آبادی صاحب کی عیادت کو گیا اور پوچھا کہ ’’جوش صاحب مزاج کیسا ہے؟‘‘ تو کہا:
’’انتقال فرما رہے ہیں‘‘
میں نے کہا ’’جوش صاحب ! آپ نہیں مریں گے، آپ ہمیشہ زندہ رہیں گے (مراد تھی ادب کی دنیا میں)۔
جوش صاحب نے شہادت کی انگلی اوپر آسمان کی طرف بلند کی اور ارشاد فرمایا:
’’جب تک‘‘وہ ’’زندہ ہے، ہمیں مرنا ہے‘‘۔۔۔ [یہاں ’’وہ‘‘ کا اشارہ اللہ تعالیٰ کی طرف ہے]
جوش صاحب کو ملحدو کافر گرداننے والوں کے لئے ان کے موحد ہونے کا اس سے بڑھ کر اور کیا ثبوت ہوگا؟ یہ الگ بات کہ وہ غالب کے شعر کے مصداق موحد ہوں یعنی:
ہم مُوحدِ ہیں ہمارا کیش ہے ترکِ رسوم
اور استادِ گرامی قدر حضرتِ احسان دانش نے فرمایا:
رہتا نہیں انسان تو مٹ جاتے ہیں غم بھی
سو جائیں گے اک روز زمیں اوڑھ کے ہم بھی
اَور آخر میں میرا اپنا ایک شعر استقبال رمضان کے لئے!
رات دن شکر گزاریں تو ادا شکر نہ ہو
نعمتیں ہم کو عطا کی ہیں خدا نے کیا کیا
[ناصرزیدی]

مزید :

کالم -