ایران پاکستان کا دشمن کیوں بنا بیٹھا ہے ؟؟
پا کستان سے آمدہ بظاہر ایک چھوٹی سی خبر ہے لیکن یہ خبر پاکستان کے عوام اور حکام کے لئے لمحہ ء فکری پیش کرتی ہے۔ اخباری اطلاعات کے مُبطابق، بلوچستان میں پنگورہ کے مقام پر پاکستان کی ا ئیر فورس نے کارروائی کرتے ہوئے ایران کا تیار شُدہ ڈرون گرا دیا ہے۔ یہ ڈرون پاکستان فضائی حُدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے تقربیاً ۴۵ کلو میٹر اندر گھُس آیا تھا۔ مذکورہ ڈرون پاکستان کے جاسوسی کرنے کے لئے ایران کی طرف سے بھیجا گیا تھا۔
اطلاعات کے مُطابق، اِس واقعہ کے بعد پاکستان اور ایران کے فوجی حُکام کے درمیان فلیگ میٹنگ بھی ہوئی۔ جس میں جاسوسی کرنے کے مقصد کے لئے ڈرون کا ذکر کیا گیا اور اِس کے علاوہ ا یران کے حُکام سے بلوچستان کے علاقے میں بلاِ جواز ا یرانی فوج کی فا ئرنگ کا بھی نو ٹس لیا گیا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ حکومتی حکام نے اِن و اقعات کی تردید کی ہے۔ جبکہ پاکستان کے اخبارت کے علاوہ غیر مُلکی اخبارت نے بھی ایران کے ڈرون کو گرا ئے جانے کی تصدیق کی ہے۔ لیکن اِس بات سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت ا یران کیساتھ اپنے تعلقات کو بگاڑنا نہیں چا ہتی۔ لہذا ، وُہ ایران کی ایسی حماقتوں کا جواب درُشت انداز میں دینا نہیں چاہتی۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایران کو ہم اپنا قریبی دوست یا قا بِل اعتماد سا تھی سمجھ سکتے ہیں۔ڈرون کو پاکستان کی فضائی حدود میں بھیجنا اِس حقیقت کی نفی کرتا ہے کہ ایران پاکستان کا مُخلص دوست ہے۔
پاکستان کی جاسوسی میں حکومتِ ایران کی دلچسپی نئی نہیں ہے۔ پاکستان سے بھاگ کر جانے والے خطرناک مُجرم بلوچستان کی سر حد پار کرکے ایران میں داخل ہو جاتے ہیں۔ جہاں حکومتِ ایران اُنکو ہر طرح کی سہولت فراہم کرتی ہے۔ عذیر بلوچ اور دوسرے پکڑے گئے مُجرموں نے اِس بات کا اعتراف کیا ہے کہ وُہ جُرم کرنے کے بعد ایران چلے جاتے تھے۔ عذیر بلوچ کے علاوہ ایم کیو ایم کے کئی مُطلوب مُجرموں نے ایران میں جرا ئم کا ار تکاب کرنے کے بعد ایران میں پنا ہ لی ہے اور ایران اُنکو بڑی خوش دِلی سے اپنے ہاں پنا ہ دیتا ہے۔ آ خر ایران کو پاکستان سے کیا دُشمنی ہے؟
شائد قارئین کو یاد ہو گا کہ چند سال پہلے کر اچی نیول ہیڈ کارٹر پر بھی حملہ ہوا تھا۔ اور دوراں، تفتیش یہ با سامنے آئی تھی کہ مُلزموں نے پاکستان نیول ہیڈ کوارٹر کی خُفیہ اطلاعات ایرانی حُکام کو فراہم کی تھیں۔ کم از کم عذیر بلوچ نے پاکستان کے حساس ادراوں کی خُفیہ اطلاعات ایران کے حُکام کو دینے کا اعتراف کیا ہے۔ ایران کے پاکستان کے ساتھ تعلقات ایران میں انقلاب کے آنے کے بعد بہت زیادہ خوشگوار ہرگز نہیں رہے۔
شاہِ ایران کے دورِ حکومت میں ایران کیساتھ پاکستان کے تعلقات نہا ئت قریبی اور پُر جوش تھے۔ لیکن ایران میں اسلامی انقلاب کے ر ہمناؤں کے اذہان میں پاکستان کی حکومتوں کے بارے میں ہمشیہ شکوک و شُبہات موجود رہے۔ اُسکی دو خاص وجوہات تھیں۔ پاکستان کے امریکہ کے ساتھ تعلقات زیادہ قریبی تھے۔ پاکستا ن افغانستان میں امر یکہ اور نیٹو افواج کے ساتھ مِل کر روسی فوجوں کے انخلاء کے لئے جنگ لڑ رہا تھا۔ اِس لئے ایران پاکستان کے ساتھ قریبی تعلقات کو استوار کرنے سے گریزاں رہا۔ علاوہ ازیں، پاکستان میں اِسی اثناء میں سعودی حکومت کا زیادہ اثر ور سوخ قایم ہوُا۔ سعودی عرب امریکہ کا اتحادی ہونے کی وجہ سے پاکستان کو رُوسی افواج کو نکالنے کے لئے ذہنی طور پر تیار کرنے میں اپنا کردار ادا کر رہا تھا۔ امریکہ نے اپنے مخصوص مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے مُسلم ممالکے میں ہمشیہ سعودی حکومت کو استعمال کیا ہے۔ کیونکہ تمام مُسلم مما لک سعودی عر ب میں و اقع مد ینہ اور مکہ کیوجہ سے ایک خاص لگاؤ رکھتے ہیں۔ سعودی عرب کے باشندوں کے لئے اِن کے دِلوں میں ایک خاص احترام موجود ہے۔ علاوہ ازیں، قُدرت نے سعودی عرب کو تیل جیسی نعمت سے بھی مالامال کر کھا ہے۔ خوشحال اور اقتصادی طور پر مضبوط مُلک ہونے کی وجہ سے سعودی عرب غریب مُسلم ممالک کی اقتصادی مدد کرنے بھی اہل ہے ۔ لہذا ، امریکہ نے روُسی فوج کو افغانستاں سے نکالنے کے لئے سعودی عرب کو ایک کام خُصوصی طور پر دیا کہ وُہ پاکستان کو کسی بھی طریقے سے امریکہ کا ساتھ دینے پر منائے۔ سعودی عرب نے امریکہ کو خُوش کرنے کے لئے ہر طرح سے پاکستان کو اپنے چُنگل میں پھنسا لیا۔ جس کا نتیجہ یہ ہُوا کہ حکومت کا ہر فیصلہ سعودی اور امریکی خوشنودی کے تحت ہونے لگا۔ امریکہ، سعودی عرب اور پاکستان کے گٹھ جُوڑ نے ایران کے حُکام کے دلوں میں پاکستان کے خلاف جذبات کو اُبھارا۔ علاوہ ازیں، پاکستان کے سعودی عرب کے ساتھ تعلقات نے بھی جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔ اِن وجوہات کی وجہ سے پاکستان کے ساتھ ایران کے تعلقات قابلِ بھروسہ نہیں رہے۔ پاکستان کی حکومت نے حالیہ ایام میں جنرل راحیل کو اسلامی فوج کو سر برارہ ہونے کی منظوری دے کر ایران کے خدشات کو درُست ثابت کیا ہے۔ ایران کو یہ بھی شک ہے کی پاکستان یمن میں سعودی اتحادی افواج کی جنگی اعتبار سے مدد کر رہا ہے۔ لہذا پاکستان کی سر گرمیوں کی خبر رکھنے کے لئے ایران پاکستان کی جاسوسی کرنے میں خاص دلچسپی رکھتا ہے۔
قارئین کو یاد ہوگا کہ کُلبھوش یادیو بھی ایران ہی سی پاکستان میں آیا تھا۔ جس پر کا فی لے دَے ہوئی تھی۔ لیکن پاکستان نے ایران کی تمام زیادتیوں کو نہ صرف چُھپایا ہے بلکہ برادرانہ تعلقات کا بھرم قایم رکھنے کے لئے ہمشیہ تعاون کامظاہر ہ کیا ہے۔ ایران کو گِلہ ہے کہ پاکستان نے سعودی عرب اور امریکہ خُوش کرنے کے لئے اپنے جنر ل کو اسلامی اتحاد کی افواج کی سر براہی قبول کرنے پر آمادگی ظاہر کی جبکہ کہ ایران نے وا ضع طو پر پاکستان پر اپنی نا پسندیدگی ظاہر کر دی تھی۔ ایران سے تعلقات کو ملحوظ خاطر ر کھتے ہوئے سعودی عرب کی تو قعات کے خلاف پا کستان نے ایران ، سعودی عرب اور قطر کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کرنے کی پیشکش کی ہے۔ جس سے پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان قریبی روابط میں دُوری پید ا ہُوئی ہے۔ اِن حالات میں پاکستان کے لئے تمام مُسلم ممالک کے ساتھ یکساں تعلقات رکھنا انتہائی مُشکل ہے۔ ہر مُلک کے اپنے مسائل ہیں۔ اور ہر مُلک کی خو اہش ہے کے ہم اُن کے مرضی کے مُطابق چلیں۔ پاکستان کے لئے یہ ممُکن نہیں کہ وُہ سعودی عرب اور ایران خلاف کسی ایک مُلک کو خوش کرنے کے لئے دوسرے مُلک کے خلاف محاذ آرائی کرے۔ لیکن پاکستان کا مخمصہ یہ ہے کہ دونوں مُلکوں کو خوش کرنے کے چکر میں وُہ اپنی سیاسی اہمیت کو داؤ پر لگا رہا ہے۔ موجودہ حالات میں پاکستان ایران اور سعودی عرب کے لئے قا بلِ اعتماد ساتھی نہیں رہا۔ پاکستان کو اپنی سیاسی ساکھ کو بحال کرنے کے لئے ٹھوس خارجہ پالیسی اپنانی ہوگی۔ ایڈہاک ازم پاکستان کی خارجہ پالیسی کے مُفاد میں نہیں ہے۔ علاوہ ازیں، پاکستان کو اپنے پڑوسی ممالک سے چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔کیونکہ یہ پڑوسی ممالک بھی ہم پر اُدھار کھائے بیٹھے ہیں۔
.
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔