تیرے بچھڑنے کا غم رہے گا
محترم علامہ امین خیالؒ ۴۱ اکتوبر ۲۳۹۱ء کو گوجرانوالہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کا پیدائشی نام محمد امین، ادبی نام امین خیال تھا، آپ کے دادا کا نام اللہ جوایا اور والد کا نام چراغ دین تھا۔ آپ نے ابتدائی تعلیم گرجاکھ ضلع گوجرانوالہ سے حاصل کی، جس کے بعد آپ نے بی ایم فاضل علومِ شرقیہ جیسے علوم سے استفادہ کیا۔ آپ پیشے کے اعتبار سے معلم تھے۔
شعروادب میں آپ کے اُستاد برصغیر پاک وہند کے معروف شاعر علامہ یعقوب انور تھے۔ علامہ امین خیالؒ کا شمار برصغیر پاک وہند کے معروف ادیبوں ،دانشوروں ، شاعروں میں ہوتا ہے۔
آپ حقیقی معنوں میں بڑے نفیس اور شفیق انسان تھے۔ آپ سے جو بھی ملتا وہ آپ کا گرویدہ ہو جاتا۔ آپ کو اُردو، پنجابی زبان میں حمد، نعت، غزل، دوہا، ماہیا، نظم اور نثر نگاری پہ عبور حاصل تھا، آپ کے درجنوں شاگرد ہیں، جن میں سے کچھ ایسے سنیئر اور منجھے ہوئے بھی ہیں، جن سے آگے اُن سے درجنوں شاگرد فیض یاب ہو رہے ہیں۔ ان کے شاگردوں میں اول غلام مصطفی بسمل تھے، جنہوں نے قومی اور صوبائی سطح پہ کئی سرکاری نیم سرکاری اداروں کی جانب سے ایوارڈ حاصل کیے۔
بسمل صاحب کے بعد اُن کے چند معروف شاگردوں کی فہرست میں پروفیسر محمد اکرم سعید، پروفیسر ڈاکٹر رزاق شاہد اور میرے بڑے بھائی وسیم عالم اور مسعود چودھری، سلیم احمد سلیم شامل ہیں۔
سلیم احمد سلیم جنہوں نے کئی فلموں میں گیت لکھے اور اپنے فن کا لوہا منوایا۔ بابا جی امین خیالؒ کے بڑے صاحبزادے تنویر خیال ہیں، جو فلم انڈسٹری کے معروف گلوکاروں میں شامل ہیں۔
تنویر خیال نعت گو شاعر بھی ہیں، ان کو اپنے بابا امین خیالؒ کی سر پرستی حاصل رہی ہے۔ بابا جی کی تصانیف کے بارے میں بات کریں تو انہوں نے درجنوں سے زائد کتب لکھیں۔
ان کی چند تصانیف میں کن من (دوہے)، من کی جوت جگے، یادوں کے سفینے(اُردو ماہیے)، شرلاٹے (غزل)، سولاں سر سرداری (غزل)، چماسے (نظم)، پھہارواں(پنجابی شاعری مختلف صنفاں)، صفتاں رب رسولؐ دیاں (حمد ونعت)، مٹھڑے نیں بول (منظوم ترجمہ، حدیث)، گلاں دین اسلام دیاں (فقہ) اور ناراں طلے دیاں تاراں (تحقیق اور تذکرا) شامل ہیں۔
ادب وصحافت میں ادبی خدمات سرنجام دیتے ہوئے برصغیر پاک وہند سے شائع ہونے والے ادبی رسائل کی ادارت بھی کر چکے ہیں، جن میں سہ ماہی چناب گوجرانوالہ، سہ ماہی قرطاس گوجرانوالہ، ماہنامہ لٹریچر انٹرنیشنل جاپان، مہینا وار بھنگڑا، مہینا وار ڈائری، ہفت روزہ قومی دلیر، ہفت روزہ نیوز ڈے ، ادبی سلسلہ عکاس اسلام آباد اور جدید ادب جرمن، گلبن بھارت، سہ ماہی نوائے ادب انٹرنیشنل لاہور جیسے رسائل شامل ہیں۔
پنجاب حکومت کی جانب سے پنجابی نصاب میں حصہ مڈل کی کتاب میں ایک گیت شامل ہونے کے علاوہ زکریا یونیورسٹی ملتان میں فن شخصیت پہ مبنی ایم اے کے لئے پروفیسر نوید شہزاد کی نگرانی میں لکھا گیا مقابلہ شامل ہیں۔
علامہ امین خیالؒ میرے دادا اُستاد تھے میری ان سے صرف ایک بار بھرپور ملاقات ہوئی، مگر آپ کے ڈھیروں چاہنے والوں سے اکثر ملاقاتیں ہوئیں۔میرے دل میں بار بار ملنے کی آرزو رہی، مگر آپ کی صحت کچھ عرصہ خراب رہی اور میری اگلی ملاقات سے قبل ہی آپ اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔
آپ کی وفات رمضان المبارک کے بابرکت مہینے میں ہوئی، وفات سے چند روز قبل میں وسیم عالم ہم دونوں کسی کے ہاں کسی دوست کی کتاب کی پروف ریڈنگ میں مصروف تھے۔
کہ اچانک بھائی تنویر خیال کی کال آئی کہ وسیم تم کہا ہو تمہیں کچھ پتہ ہے کہ بابا ہسپتال میں ہیں اور تمہیں بار بار یاد کر رہے ہیں کہ میرا بیٹا کہاں ہے۔ وسیم بھائی نے اگلی صبح جانے کا کہا، لیکن افسوس کہ صبح کا سورج نکلنے سے پہلے ہی ادب کا وہ سورج ہمیشہ ہمیشہ کے لئے غروب ہو گیا، جس نے گلستان ادب کے کئی پھولوں پہ روشنی کی۔
اگلے ہی روز مجھے بھائی وسیم نے کال کی کہ صدام ساگر تم کہاں ہو بابا جی کی ڈیتھ ہو گئی ہے، افسوس کہ اتنی آرزو تمنا رکھنے والا ساگر آخری دیدار کرنے سے بھی محروم رہ گیا، لیکن وسیم بھائی سے پتہ چلا کہ آپا بشری رحمن صاحبہ اور اعزاز احمد آذر اور سب کے سب بہت روئے، اس سے آگے کچھ لکھنے کی ہمت نہیں ہوررہی سو آنسوؤں سے نڈھال ہوتے ہوئے میں خدا سے یہی التجا کرتا ہوں کہ اللہ تبارک وتعالیٰ بابا جی امین خیالؒ کو اپنی رحمتوں کے سائے تلے جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے (امین) ایک شعر بابا جی امین خیالؒ کے حضور پیش کرنے کی اجازت چاہتا ہوںؔ :
بہت سے آئے ہیں زندگی میں
ترے بچھڑنے کا غم رہے گا