مقبوضہ کشمیر میں آٹھواں گورنر راج
مقبوضہ کشمیر میں بھارتیہ جنتا پارٹی(بی جے پی) نے جو محبوبہ مفتی کی مخلوط حکومت کا حصہ تھی، اپنی حمایت واپس لے لی ہے جس کے بعد وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی کو استعفا دینا پڑا ہے اور ریاست میں ایک بار پھر گورنر راج لگا دیا گیا ہے یہ آٹھویں مرتبہ ہے کہ ریاست میں گورنر راج لگا ہے۔ریاستی اسمبلی میں سب سے بڑی جماعت پیپلز ڈیمو کریٹک پارٹی(پی ڈی پی) ہے تاہم اس کے پاس مطلوبہ اکثریت نہیں تھی، اِس لئے اسے بی جے پی کے ساتھ مل کر حکومت بنانا پڑی۔ اب اتحادی جماعت نے یہ کہہ کر اپنی حمایت واپس لے لی ہے کہ تین سالہ اتحاد ’’غیر مستحکم‘‘ ہو گیا تھا اِس لئے اسے ختم کرنا ضروری تھا۔
بی جے پی نے یہ اقدام بظاہر مقبوضہ کشمیر کے بگڑتے ہوئے حالات کی وجہ سے اٹھایا ہے، سیکیورٹی فورسز کو شدید دباؤ کا سامنا ہے اور تمام تر مظالم کے باوجود مظاہروں پر کنٹرول نہیں کیا جا سکا، اب بھی کشمیریوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے، محبوبہ مفتی کچھ عرصے سے مودی کی مرکزی حکومت کو مشورہ دے رہی تھیں کہ حالات بے قابو ہوتے جا رہے ہیں اِس لئے مودی، پاکستان اور کشمیریوں کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کریں،ایسے مشورے بعض دوسرے کشمیری رہنما بھی دیتے رہتے ہیں یہاں تک کہ حکومت نے ریاست کا دورہ کرنے کے لئے اپنی پارٹی کے جو وفود بھیجے انہوں نے بھی وزیراعظم کو یہی مشورہ دیا کہ وحشیانہ طاقت کے استعمال سے ریاست کے حالات پر قابو پانا ممکن نہیں ہو گا اِس لئے مذاکرات کا ڈول ڈالا جائے،لیکن مودی کی جماعت اپنی ہٹ دھرمی پر قائم ہے اب گزشتہ چند مہینوں کے واقعات کے بعد بی جے پی نے محبوبہ مفتی سے سیاسی اتحاد ختم کر دیا ہے۔
بھارتی آئین کے مطابق ریاست میں گورنر راج دو ماہ کے لئے لگایا جا سکتا ہے اس کے بعد یا تو اسمبلی بحال کرنا پڑے گی یا پھر نئے انتخابات کرانا ہوں گے،کیونکہ موجودہ اسمبلی میں کسی بھی جماعت کو (بشمول پیپلز ڈیمو کریٹک پارٹی) اکثریت حاصل نہیں ہے اِس لئے دوبارہ بھی مخلوط حکومت ہی بن سکتی ہے،ریاستی انتخابات کے بعد بننے والی اسمبلی میں یہی صورتِ حال اس وقت بھی موجود تھی جب محبوبہ مفتی کے والد مفتی محمد سعید حیات تھے اور پیپلزپارٹی ڈیمو کریٹک پارٹی کی سربراہی بھی اُن کے پاس تھی، الیکشن سے پہلے مودی کا مشہور منصوبہ تو1+44 تھا،یعنی85 رکنی ریاستی اسمبلی میں ایک ووٹ کی اکثریت سے حکومت سازی، لیکن یہ بُری طرح ناکام ہو گیا،اکثریت بھی نہ ملی،بلکہ بی جے پی دوسرے نمبر پر چلی گئی، پہلی پوزیشن پی ڈی پی کے حصے میں آئی،حکومت سازی کے لئے مودی نے مفتی محمد سعید سے سودے بازی کی کوشش کی اور اصرار کیا کہ مخلوط حکومت کی صورت میں وزیراعلیٰ کا تعلق بی جے پی سے ہو گا، اس کے برعکس مفتی سعید کا موقف یہ تھا کہ اُن کی جماعت سب سے بڑی پارٹی ہے اِس لئے وزیراعلیٰ اُن کا ہو گا،مودی نے مفتی سعید کا یہ موقف نہیں مانا تو ریاست میں گورنر راج لگانا پڑا،حالانکہ خود گورنر اس کے حق میں نہیں تھے، تاہم دو ماہ بعد جب گورنر راج کا خاتمہ ہوا تو صورتِ حال بدستور پہلے والی تھی، مفتی سعید اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے تھے،چنانچہ مودی کو ہار ماننا پڑی اور مفتی سعید وزیراعلیٰ بن گئے وہ کوئی ایک سال تک اس عہدے پر رہے پھر اُن کا انتقال ہو گیا تو دوبارہ ہی مسئلہ درپیش ہوا اب کی بار محبوبہ مفتی اپنے موقف پر ڈٹ گئیں اور طویل عرصے تک حکومت نہ بن پائی، بالآخر مودی کو محبوبہ مفتی کے سامنے بھی ہتھیار ڈالنے پڑے اور وہ وزیراعلیٰ بن گئیں۔
محبوبہ مفتی کی وزارت کے پورے دور میں کشمیر کے حالات دگر گوں رہے، کشمیریوں کی تحریک آزادی مسلسل آگے بڑھتی رہی، برہان وانی کی شہادت کا واقعہ بھی اسی عرصے میں پیش آیا، جس کے بعد سے آج تک حالات بدتر ہی ہوئے ہیں، بہتری نہیں آئی، زمینی حقائق سے باخبر محبوبہ مفتی مرکزی حکومت کو مذاکرات کے مشورے دیتی رہتی ہیں ،جو مانے نہیں جا رہے،اب بی جے پی نے محبوبہ مفتی کی حکومت کے خاتمے کے لئے نئی چال چلی ہے، جس کی وجہ سے محبوبہ مفتی کی حکومت تو ختم ہو گئی ہے،لیکن سوال یہ ہے کہ جب گورنر راج ختم ہو گا تو دوبارہ مخلوط حکومت ہی بن سکتی ہے اگر بی جے پی، محبوبہ مفتی کا ساتھ نہیں دیتی تو وہ دوسری جماعتوں کا تعاون حاصل کر سکتی ہیں اگر اس میں کامیابی نہیں ہوئی تو ریاست میں اسمبلی کی مدت ختم ہونے سے پہلے ہی انتخابات کرانا ہوں گے۔ گورنر راج غیر معینہ مدت کے لئے تو لگایا نہیں جا سکتا۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا دوبارہ انتخابات کی صورت میں مودی مسلمان اکثریتی ریاست میں ہندو وزیراعلیٰ بنانے کا خواب پورا کر سکتے ہیں۔انہوں نے اِس عرصے میں ریاست میں آبادی کا توازن بدلنے کی پوری کوشش کی ہے،باہر سے سابق فوجیوں کو لا کر انہیں خصوصی کالونیوں میں آباد کیا گیا ہے تاکہ ریاست میں غیر مسلم ووٹ مسلمانوں سے بڑھ نہیں سکتا تو کم از کم اُن کے برابر آ جائے، تاہم وثوق سے نہیں کہا جا سکتا کہ وہ اپنا یہ منصوبہ کس حد تک عملاً پورا کر پائیں گے ویسے تو انہوں نے آئین میں تبدیلی کر کے کشمیر کا خصوصی سٹیٹس ختم کرنے کی کوشش بھی کی تھی، جو کامیاب نہیں ہو سکی۔
حریت کانفرنس سمیت کشمیری عوام کی اکثریت ریاستی انتخابات کا بائیکاٹ کرتی ہے تاہم جو سیاسی جماعتیں باقاعدہ انتخابات جیت کر حکومتیں بناتی رہی ہیں اُن میں ڈاکٹر فاروق عبداللہ اور اُن کے صاحبزادے عمر عبداللہ کی جماعت بھی شامل ہے،لیکن یہ سب رہنما بھی اب پاکستان کے ساتھ مذاکرات کی بات کرتے ہیں جو مودی سننا نہیں چاہتے، ایسی صورت میں نئے انتخابات کا بھی کوئی نتیجہ نہیں نکل سکے گا اور امن و امان کی خراب صورتِ حال میں انتخابات کا انعقاد بھی مشکل ہو گا،اِس لئے بہتر راستہ تو یہی ہے کہ وزیراعظم مودی اپنی ضد اور ہٹ دھرمی کا راستہ چھوڑ کر کشمیر میں رائے شماری پر آمادہ ہو جائیں اور کشمیریوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنے دیں،کیونکہ اب حالات اس نہج پر آ چکے ہیں کہ انتخابات کے ذریعے یہ مسئلہ حل ہوا ہے اور نہ ہو گا،کشمیر کے عوام بھارت سے آزادی چاہتے ہیں اور اُن کی رائے استصواب کے ذریعے ہی معلوم ہو سکتی ہے،انتخابات میں جو بہت تھوڑے تناسب سے ووٹ پڑتے ہیں اُن کے نتیجے میں جو حکومت بھی قائم ہوتی ہے وہ حقیقی معنوں میں کشمیریوں کی نمائندہ نہیں ہوتی، کشمیر کی اصلی قیادت تو انتخابات کا بائیکاٹ کر دیتی ہے جو جماعتیں انتخابات میں حصہ لیتی ہیں، اُن کی حکومت اس قابل نہیں ہوتی کہ وہ حالات کی بہتری میں کردار ادا کر سکے،اِس لئے اب بھی اگر انتخابات ہوئے اور کوئی نئی حکومت بن گئی تو بھی کشمیر کا مسئلہ جوں کا توں رہے گا اِس سے بہتر حل یہی ہے کہ کشمیر میں استصواب رائے کا اہتمام کیا جائے اور کشمیر کا مسئلہ کشمیری عوام کی رائے کے مطابق حل کیا جائے اب اس مسئلے سے زیادہ عرصے تک آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں۔