سندیافتہ مرید
کوئی مانے نہ مانے عمران خان اپنی اہلیہ کے سرٹیفائیڈ مرید ہیں اِس لئے اگر کل کو وہ وزیراعظم بن جائیں اور کوئی انہیں رن مرید وزیراعظم کہے تو بے جا نہ ہوگا۔ یہی نہیں عین ممکن ہے کہ جس دن عمران خان نے وزارتِ عظمیٰ کا حلف اٹھانا ہو وہ بنی گالا سے ننگے پاؤں گاڑی میں سوار ہو کر وزیراعظم ہاؤس پہنچیں، کیونکہ انہوں نے اپنی اہلیہ کے کہنے پر منت مانی ہو گی خود جن کے اپنے بارے میں مشہور ہے کہ منت کے طور پر لاہور سے پاکپتن ننگے پاؤں جاتی رہی ہیں۔
لطیفہ ہے کہ شوہر گھر میں داخل ہوا تو بیوی کہنے لگی شکر ہے آپ آ گئے ہیں ، مسجد میں اعلان ہو رہا تھا کہ رن مرید مرگیا ہے۔اس پر شوہر نے بھنا کر کہا، فٹے منہ تیرا ، وہ رن مرید نہیں رانا مرید تھا۔
اسی طرح ایک خاتون نے اپنے شوہر کو انگلی کے اشارے سے بلایا ، وہ اُٹھ کر پاس آیا اور پوچھنے لگا نیک بخت کیا بات ہے تو بیوی نے کہا کہ بات تو کوئی نہیں ہے بس دیکھنا چاہتی تھی کہ میری انگلی میں کتنی طاقت ہے۔
جوائنٹ فیملیوں میں اکثر ماں باپ بیٹوں کو رن مرید ہونے کا طعنہ دے دے کر مار دیتے ہیں یا پھر علیحدہ ہونے پر مجبور کردیتے ہیں۔ اُٹھتے بیٹھتے ان کے منہ پر ایک ہی جملہ ہوتا ہے کہ ’ایہہ بڑا میسنا اے ،بڈھی دے تھلے لگا اے، رن مرید اے!‘
ہمارے آفس میں ایک صاحب ہیں جن کو سب پیار سے شاہ جی کہتے ہیں ، ان کا دعویٰ ہے کہ ان کی تین شادیاں ہیں اور دو بیویاں لاہور میں ہیں جبکہ ایک امریکہ میں ہے، جس میں سے ایک بیٹا ہے۔ ان کی سب سے بڑی بیگم ادھر مال روڈ کے آس پاس کی آبادیوں میں رہتی ہے اور کسی سرکاری ہسپتال میں پیرا میڈیکل سٹاف کے طور پر کام کرتی ہے،چونکہ وہ کماتی ہے اس لئے شاہ جی کو سب سے زیادہ پیار بھی اسی سے ہے۔اس میں سے شاہ جی کی دو یا تین بیٹیاں ہیں۔ ماں کے اصرار پر انہوں نے تقریباً دو سال پہلے ایک اور نکاح کیا اور اب ان کا پاکستان میں بھی ایک بیٹا ہے۔
سرکاری ہسپتال میں طویل مدت سے ملازم ہونے کے باعث شاہ جی کی پہلی بیگم کو اٹھارویں گریڈ کے برابر کی تنخواہ ملتی ہے اِس لئے شاہ صاحب اسی کے ساتھ رہتے ہیں اور بیچ بیچ میں چھوٹی بیوی سے ملنے کے لئے جاتے ہیں۔وہ بتاتے ہیں ان کی راتیں سڑکوں پر گزرتی ہیں، کیونکہ وہ صبح پانچ بجے تک چھوٹی بیگم کے ہاں رہتے ہیں اور صبح چھے بجے ناشتہ لے کر بڑی بیگم کے ہاں پہنچتے ہیں،جو عموماًسو رہی ہوتی ہے۔ شاہ جی کے بقول وہ بچیوں کو ناشتہ کرواتے ہیں اور سکول چھوڑ کر آنے کے بعد وہ بھی سوجاتے ہیں اور تب تک سوتے ہیں جب تک سکول کی چھٹی کا وقت نہیں ہو جاتا۔
بڑی بیگم صاحبہ کو اِس بات کا قلق ہے کہ ان کے شوہر نے اور شادیاں کیوں کی ہیں اِس لئے وہ شاہ جی کی زندگی کو اجیرن بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتی اور کمال کے حربے استعمال کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر اگر کبھی شاہ جی آدھی رات کو دفتر سے اٹھ کر بڑی بیگم کے ہاں پہنچیں تو وہ دروازہ ہی نہیں کھولتیں،شاہ جی دروازے کی گھنٹی بجا بجا کر تھک جاتے ہیں اور بالآخر گھر کے باہر ہی گاڑی کھڑی کرکے اس میں سو جاتے ہیں،لیکن مسئلہ یہ ہے کہ گاڑی بھی ان کی بیگم کی ہے اِس لئے اکثر شاہ جی کو اپنے موٹر سائیکل پر ہی کئی کئی گھنٹے انتظار کی سولی پر لٹکنا پڑتا ہے اور اس دورا ن نیند کے جھونکے انہیں سونے پر بھی مجبور کرتے رہتے ہیں، لیکن جس دن دروازہ کھل جائے اس دن شاہ جی کی مزید کم بختی آجاتی ہے کہ بیگم صاحبہ نہ صرف ان سے لڑائی کرتی ہیں،بلکہ ون فائیو پر کال کرکے پولیس بھی بلا لیتی ہیں اور شاہ جی کو قسمیں اٹھا کر بتانا پڑتا ہے وہ اس کے شوہر ہیں اور یہ محض ایک گھریلو جھگڑا ہے ۔ اس دوران بیٹیوں کی گواہی شاہ جی کے بڑی کام آتی ہے۔ شاہ جی اکثر وکیلوں کے چکر لگاتے نظر آتے ہیں اور پوچھتے رہتے ہیں کہ جو کچھ ان کے ساتھ ہو رہا ہے کیا وہ Domestic Violenceکے زمرے میں نہیں آتا!
بڑی بیگم صاحبہ شاہ جی کو مزید کس طرح تگنی کا ناچ نچاتی ہیں اس کی تفصیل بہت لمبی ہے، لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ دفتر میں شاہ جی بڑی بڑی ڈینگیں چھوڑتے رہتے ہیں اور اس دوران ان کو بیگم کی کال آجائے تو دکھاوے کے لئے اونچی اونچی شاؤٹ کرتے ہیں اور ایسا تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں جیسے وہ بڑی بیگم سے قطعی نہیں ڈرتے ہیں ۔ فون بند ہوتا ہے تو ان کے منہ پر مغلظات ہوتی ہیں، جبکہ دفتر کے لڑکے بیک آواز کہہ رہے ہوتے ہیں کہ شاہ جی آج تو کمال کر دیا اور شاہ جی ہلکی سی آواز میں کہتے ہیں کہ کمال تو ناہنجارو تب ہو گا، جب مَیں گھر پہنچوں گا اور پورا دفترکھلکھلا کر ہنس پڑتا ہے۔
شاہ جی اپنے اور بڑی بیگم کے تعلق کو ’’انڈرسٹینڈنگ‘‘ کا نام دیتے ہیں، جبکہ باقی پورے دفتر کا خیال ہے چونکہ سب سے بڑی بیگم کماتی ہیں اِس لئے شاہ جی پر زیادہ رعب بھی اسی کا ہے، لیکن شاہ جی کہتے ہیں کہ وہ اکیلے نہیں ہیں،بلکہ ہمارے مُلک کے نئے متوقع وزیراعظم عمران خان بھی ان جیسے ہی ہیں جن کی موجودہ اہلیہ نے روحانیت کمائی ہوئی ہے اور جس طرح وہ اپنی بڑی بیگم کا گھٹنا پکڑے بچوں کو پال رہے ہیں اسی طرح عمران خان بھی روحانی بیگم کا پلو پکڑے ان کے پیچھے پیچھے ننگے پاؤں گھوم کر اپنی وزارتِ عظمیٰ پکی کر رہے ہیں۔عمران خان اگر وزیراعظم بن گئے تو وہ سرٹیفائیڈ رن مرید وزیراعظم ہوں گے۔