وہ غیر ملکی خاتون جسے پاکستانی سفیر اپنے ساتھ امریکہ لے گیا اور جب وہ پاکستان آئی تو خاتون اوّل بن گئی لیکن پاکستان کی طاقتور خواتین نے اس کے ساتھ کیا سلوک کیا ، جان کر آپ دنگ رہ جائیں گے
لاہور(ایس چودھری)پاکستان کے سیاستدانوں اور اہم شخصیات پر خفیہ بھی اور غیر ملکی عورتوں سے شادیاں رچانے پر سخت تنقید کی جاتی رہی ہے تاہم پاکستان کی سیاست کی بدولت عائلی ازدواجی زندگی میں اس وقت انقلاب برپا ہوا جب پاکستان کے ایک وزیر اعظم نے غیر ملکی عورت سے شادی کرکے اسکو پہلی بیوی پر نہ صرف سوتن کے طور پر بلکہ اقتدار کے سنگھاسن پر خاتون اول کے طور پر بھی بیٹھا دیا تھا جس پر پہلی خاتون اول نے ہنگامہ کھڑا کردیا اور پاکستان میں عائلی قوانین کا اطلاق ہوگیا ۔عائلی قوانین کے بعد نکاح کی رجسٹریشن اور دوسری شادی سمیت دیگر اہم قانونی شقوں کا اندراج لازمی قراردے دیا گیا تھا ۔
یہ وزیر اعظم محمد علی بوگرہ تھے (1953/55) جنہوں نے ایک ایسی حسین وجمیل لبنانی لڑکی عالیہ بیگم سے دوسری شادی کرلی تھی جو پہلے ان کی اسٹینو گرافر تھی ۔لیکن اس شادی پرحیران کن حد تک انکی پہلی اہلیہ حمیدہ بیگم نے اتنا احتجاج نہیں کیا جتنا اسٹبلشمنٹ و سفارت کاروں کے طاقتور گروہ کی بیگمات نے ہنگامہ کھڑا کردیا اور ایسے قانونی اقدامات اٹھانے کا مطالبہ کردیا تھا تاکہ آئیندہ کوئی سفیر یا اہم سرکاری افسر غیر ملکی دورے یا فرائض منصبی کے دوران کسی غیر ملکی عورت سے شادی نہ کرلے ۔تاہم ان خواتین کو اکسانے اور اپنا حق محفوظ رکھنے کے لئے حمیدہ بیگم نے ہی مہم شروع کی تھی۔وہ اکثر اپنے ڈرائیور سے کہا کرتی تھیں ’’ ہم نے اسکو ملازمہ رکھا ،وہ گھر والی بن بیٹھی‘‘
محمد علی بوگرہ قیام پاکستان سے پہلے ہی اعلٰی تعلیم یافتہ سیاستدان کے طور پر نمایاں تھے لیکن پاکستان بننے کے بعد وہ فارن سروس میں چلے گئے تو انہیں کینیڈا اورامریکہ سمیت کئی ملکوں میں پاکستان کے سفیر کی حیثیت سے تعینات کیا جاتا رہا ۔محمد علی بوگرہ انتہائی خوش مزاج اور حیران کردینے والی ایسی حرکات بھی کرتے تھے جس کا چرچا امریکہ میں بھی ہوتا رہا ۔ایک سفیر کی حیثیت میں وہ کینیڈا میں قیام کے دوران ایک لبنانی لڑکی عالیہ کے آگے دل ہار گئے اور اسکو سفارت خانہ میں اسٹینوگرافر رکھ لیا جسے بعد ازاں وہ امریکہ کے دورے کے دوران بھی ساتھ لے گئے تو اس پر پاکستان میں بھی چہ میگوئیاں ہونے لگیں کہ پاکستانی سفیر ہر جگہ عالیہ بیگم کے ساتھ کیوں جاتے ہیں۔
محمد علی بوگرہ کو امریکی حکام کے بہت قریب سمجھا جاتا تھا ،1953 میں جب گورنر جنرل پاکستان نے وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کو برطرف کیا تومحمد علی بوگرہ کو انکی بعض خصوصیات کی وجہ سے وزیر اعظم بنادیا گیا ۔وزیر اعظم بننے کے بعد وہ عالیہ بیگم کو پاکستان لے آئے اور انکو اپنی سوشل سیکرٹری تعینات کردیا جس سے ان دنوں میں قربت بڑھنے لگی ۔ عالیہ بیگم وزیرِ اعظم کے پاس جانے والی ہر فائل کا خود مطالعہ کرتیں اور اسکے بعد جب وہ وزیر اعظم کے پاس فائلیں لیکر جاتیں تو گھنٹوں تک انکے کمرے میں موجود رہا کرتی تھیں۔اس پر جب چہ میگوئیاں اٹھنے لگیں تو وزیر اعظم محمد علی بوگرہ نے 1955میں عالیہ بیگم سے نکاح کرلیا ۔
ممتاز خاتون صحافی رافعیہ ذکریا نے اپنی کتاب ’’ Wife Upstairs The‘‘ میں وزیر اعظم پاکستان کی عالیہ بیگم سے شادی کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ عالیہ بیگم اور بوگرا صاحب کے اس اقدام کو مقتدر حلقوں کی خواتین کی جانب سے اچھی نظر سے نہیں دیکھا گیاتھا ۔ انہیں یہ خطرہ لاحق ہوگیا کہ بوگرا کی پیروی کرتے ہوئے اگر دوسرے مقتدر حضرات نے بھی ایک سے زیادہ شادیاں کرنے کا عمل شروع کر دیا تو ان کا مستقبل کیا ہوگا؟ وہ لکھتی ہیں۔
’’ان خواتین نے ایسی تمام سرکاری تقریبات کا بائیکاٹ شروع کر دیا جس میں خاتونِ اوّل مدعو ہوتیں۔ ان تقریبات میں غیر ملکی سفیروں کے اعزاز میں عشائیے، نیشنل یونیورسٹی کا افتتاح، پاکستان سیکریٹریٹ میں نئی شاخ کا آغاز اور ایسی تمام تقریبات میں نئی مس بوگرا کی موجودگی میں مقتدر خواتین اور ان کی بیٹیوں کی غیر حاضری ہوتی تھی۔ یہ خواتین اشرافیہ کی جانب سے منعقدہ تقریبات کی میزبان ہوتی تھیں، اور انہوں نے بالکل صحیح اندازہ لگایا تھا کہ ان کے سوا مرد کی حیثیت اس گاڑی کی طرح ہے جو تیل اور گریس کے بغیر چل رہی ہو۔ ان کی روایتی گفتگو اور لطیفوں کے دوران دبی دبی ہنسی سے اس بات کا اظہار ہوتا تھا کہ اگر وہ مسٹر بوگرا کے اس غلط قدم کو تسلیم کر لیں تو وہ ایک حد تک محدود نہیں رہے گا۔ ایک سے زیادہ شادیوں کے خلاف سوشل بائیکاٹ ان کا اس سلسلے میں پہلا قدم تھا۔‘‘
محمد علی بوگرہ کی شادی کے بعد ہی پاکستان میں مسلم فیملی لاء آرڈیننس 1961 معرض وجود میں آیا تھا جس کے تحت وزیر اعظم سے عام آدمی تک ہر کسی کو دوسری شادی کے لئے باقاعدہ اجازت لینے کا پابند بنادیا گیا تھا ۔1963میں محمد علی بوگرہ فوت ہوگئے تو کچھ عرصہ بعد عالیہ بیگم اپنے آبائی وطن کینیڈا کے شہر ایڈمنٹن چلی گئیں جہاں نے انہوں نے 2014 میں وفات پائی ۔