کاشو خان پولیس کی گولی سے ہلاک ہوا‘ تحفظ دیا جائے‘ کرن عباس
ملتان (خبر نگار خصوصی)تھانہ بی زیڈ یو کی رہائشی مقتول کاشو خان کی اہلیہ کرن عباس نے گزشتہ روز مقامی ہوٹل میں اخبار نویسوں سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ میرا شوہر کاشو خان قبضہ مافیا کا سرغنہ، منشیات فروشوں کا سرپرست اعلی،چوروں ڈاکووں سردار اور شہر کے مختلف تھانوں میں اس خلاف سو سے زائد مقدمات اندراج تھے اکثر مقدمات میں کاشو خان اشتہار ی اور پولیس کو مطلوب ملزم تھا اس کے مرنے کے بعد میرے سسر خالد خان، (بقیہ نمبر34صفحہ12پر)
بھائی آصف اور خاور جن کا اصل میں کاروبار منشیات کا جو پورے جنوبی پنجاب کو سپلائی دیتے ہیں، مجھے اور میرے بچوں کو ان لوگوں سے اپنی جان خطرہ تھا کہ یہ کاشو خان کے واقعہ کے بعد یہ لوگ مجھے اور بچوں کو بھی قتل کردے گے کیونکہ میں نے جب کاشو خان سے شادی کی تھی تو میرے نام سات آیکڑ زمین تھی جو کاشو خان نے زبردستی اپنی تحویل میں لے لی تھی اس کے مرنے کے بعد مجھے سسرال والوں کی طرف سے بچوں کے خرچہ ودیگر اخراجات کے لئے پھوٹی کوڑی بھی نصیب نہیں ہوتی تھی اور آئے روز میری ساس طاہرہ یسمین عرف ثمینہ بی بی مجھے اپنے پوتی پوتیوں کے ذریعے تشدد کا نشانہ بناتی تھی کیونکہ میری ساس بھی 2014میں تھانہ حرم گیٹ میں نائن سی کے مقدمہ میں چالان ہوئی تھی اور بیٹا کاشو خان خود نامی گرا می ڈکیت تھا جس کی پشت پناہی چند سیاسی لوگ کرتے تھے اور اپنے مفاد کے لئے کاشو خان اور اس کے گینگ کے ارکان وقاص ہراج، فرقان بوسن، علی، ہاشم، دانش، ودیگر طلبا تنطیموں کے لڑکوں کو چند روپوں کی خاطر بے گناہوں کی زمینوں پر قبضے کرانا، ڈکیتیاں مروانا، اغوا برائے تاوان کے لئے لوگوں کو تشددکا نشانہ بنانا یہ سارا کچھ سیاسی لوگوں اور پولیس کے افسران کی ملی بھگت سے کاشو خان کے ذریعے کام انجام تک پہنچایا جاتا تھا، کاشو خان کے قتل کے بعد میں اپنی والدہ کے گھر شفٹ ہوگئی ہوں جس پر میرے والدہ کے گھر میں روزانہ کی بنیاد پر مقتول کیاہل خانہ اور دوستوں کی طرف سے مجھے، میری والدہ روبینہ خاکوانی کو بچوں کے ہمراہ قتل کرنے کی دھمکیاں ملی جارہی ہیں جس کی اطلاع بھی متعلقہ پولیس کے نوٹس میں ہے،مقتول کہ اہلیہ نے مزید بتایا کہ کاشو خان نے پہلے بھی ہادی گروپ سے لڑائی چل رہی تھی اور بعد میں ان کا معاملہ بھی صلح صفائی سے حل ہوگیا تھا لیکن پھر کسی بات پر کاشو خان اور سرور کے درمیان تلخ کلامی ہوگئی اور دشمنی دوبارہ بہال ہوگئی، مقتول کے قتل کے روز بھی سرور اپنی فیلی کے ہمراہ 6نمبر کے قریب تھا جس کو فیملی کے ہمراہ غلیظ گالیاں دی گئی اور گول باغ کے قریب فائرنگ کرکے اس کے بھائی کو زخمی کردیا اور فرار ہوتے وقت پولیس نے تعاقب کرکے ڈولفن کے اہلکاروں نے فائر کرکے کاشو خان کو زخمی کیا جسے ڈسٹرکٹ جیل روڑ کے قریب سیزخمی حالت میں پکڑ لیا، اور نشتر لے گئے جبکہ کاشو خان پولیس کی گولی سے ہلاک ہوا ناکہ ہادی نیازی کی فائرنگ سے، مزید بتایا کہ اگر مجھے یا میرے بچوں کو کسی بھی قسم کا جانی و مالی نقصان پہنچتا ہے تو اس کی تمام تر ذمہ داری مقتول کاشو خان کے والد خالد خان، ساس طاہرہ یسمین عرف ثمینہ بی بی، ان کے بیٹے خاور، آصف اور ان کے دوست وقاص ہراج، فرقان بوسن، علی، ہاشم، دانش، ودیگر طلبا تنطیموں کے لڑکے جو کاشو خان کے دست راہ تھے ان کے اوپر عائد ہوگی، کرن عباس نے اعلی حکام وزیر اعلی پنجاب، آئی جی پنجاب، آر پی او ملتان، سی پی او سے مطالبہ کیا ہے کہ کیس میں جڑے ہوئے اصل ملزمان کو منظر عام پر لانے، مجھے اور میرے بچوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے فوری اقدامات عمل میں لائے جائے۔
کرن عباس