مایوسی اور ڈیپریشن کے ماحول میں اچھی خبریں
چیف جسٹس جناب جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا ہے کہیں سے بھی اچھی خبر نہیں آ رہی، معاشی صورتِ حال اور پارلیمینٹ کی کارروائی پریشان کن ہے، معیشت کے حوالے سے خبریں سُن کر مایوسی ہوتی ہے کہا جاتا ہے معیشت آئی سی یو میں ہے جو اچھی خبر نہیں،پھر کہا جاتا ہے آئی سی یو سے باہر آ گئی، ٹی وی پر پارلیمینٹ کی کارروائی دیکھ کر ڈیپریشن ہوتا ہے۔ قائد ِ ایوان اور اپوزیشن لیڈر کو بولنے نہیں دیا جاتا، صرف شور شرابا ہوتا ہے اِسی طرح کھیل کے میدان سے بھی اب تک اچھی خبر نہیں آ رہی،کرکٹ ورلڈکپ دیکھ کر مایوسی ہوتی ہے،اس سے بچنے کے لئے ٹی وی چینل تبدیل کرتے ہیں،افغانستان اور ایران کے حوالے سے بھی خبریں حوصلہ افزا نہیں،ایسے میں صرف عدلیہ ہی سے اچھی خبریں آ رہی ہیں،ہمیں عدلیہ کی کارکردگی دیکھ کر خوشی ہوتی ہے،کیونکہ ماڈل کورٹس کے قیام سے مقدمات تیزی سے نمٹانے میں نمایاں بہتری آئی ہے،چیتے ججوں کی کوئی کمی نہیں،لیکن اب ان میں مزید 57چیتوں کا اضافہ ہو گیا ہے،فاضل چیف جسٹس نے اِن خیالات کا اظہار فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی میں ماڈل کورٹس کے ججوں کی تربیتی ورکشاپ کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
فاضل چیف جسٹس نے پاکستان کی قومی زندگی کے مختلف پہلوؤں کی جو اجمالی تصویر دکھائی ہے وہ کچھ اچھی نہیں ہے اور اِس تصویر کو دیکھنے ولے اِن مناظر سے اچھا تاثر نہیں لے سکتے، پارلیمینٹ میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ تو ابھی پوری طرح براہِ راست دکھایا ہی نہیں جاتا اور غالباً اِس سلسلے میں ہونے والے مطالبات کی پذیرائی بھی اِسی لئے نہیں ہوتی کہ اس طرح بعض بدصورتیاں مزید نمایاں ہو کر سامنے نہ آ جائیں،پارلیمینٹ کی کارروائی کی کوریج کے لئے خصوصی چینل کی بات ماضی میں ہوتی رہی ہے، معلوم نہیں یہ سلسلہ کہیں پہنچا یا یہ سوچ کر روک دیا گیا کہ تلخ نوائیوں اور لڑائی جھگڑے کے ان واقعات کو دیکھ اور سُن کر کہیں ڈیپریشن میں مزید اضافہ نہ ہو، یہ بھی ہوسکتا ہے ”پارلیمینٹ چینل“ کا منصوبہ کفایت شعاری کی بھینٹ چڑھ گیا ہو، لیکن اس کا حل یہ ہے کہ بدصورت مناظر واقع ہی نہ ہونے دیئے جائیں،اگر محض اِن کے سامنے آنے سے روکنے کی کوششیں ہوں گی تو بھی کسی نہ کسی طرح پتہ چل ہی جائے گا کہ ان ایوانوں کے اندر عوام کے منتخب نمائندے کیا کر رہے ہیں۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں کے کارنامے سامنے آئیں گے۔
پارلیمینٹ میں نوک جھونک کے مناظر اگرچہ نئے نہیں ہیں اور دُنیا بھر کی پارلیمانوں میں کبھی کبھار اس طرح کے مناظر دیکھنے کو مل جاتے ہیں اور ٹائی سوٹوں میں ملبوس ارکانِ پارلیمینٹ باہم دست و گریبان بھی دیکھے جا سکتے ہیں، ایک دوسرے کو گھونسے مارنے کے مناظر بھی نظر نواز ہو جاتے ہیں،لیکن جن ممالک میں پارلیمانی روایات مضبوط و مستحکم ہیں وہاں ایسا شاذ ہی ہوتا ہے، ہمارے ہاں چونکہ مخالفین کی بات سننے کا حوصلہ پیدا نہیں ہوا اور ابھی پارلیمینٹ کی مضبوطی کے لئے بہت سا سفر طے کرنا باقی ہے اور اچھی روایات بھی وقت کے ساتھ ہی مضبوط و مستحکم ہوں گی، اِس لئے ہمیں پارلیمینٹ کے اندر اُن عناصر کی حوصلہ افزائی کرنی چاہئے جن کا کردار صلح جویانہ اور مفاہمانہ ہے،ایسے ارکان سرکاری بنچوں میں بھی موجود ہیں اور حزبِ اختلاف میں بھی ان عناصر کی کمی نہیں،لیکن اگر اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کی ہدایات اوپر سے ملیں گی تو پھر ان عناصر کو روکنا مشکل ہو گا جن کے دفترِ عمل میں ہلّے گُلّے کے سوا کوئی دوسرا ندراج نہیں اور جو ہر وقت جو منہ میں آئے کہتے چلے جاتے ہیں۔ کہیں کہیں ہتھ چھٹ ہونے کا مظاہرہ بھی کردیتے ہیں۔
پارلیمینٹ کے دونوں ایوانوں میں جہاں کہیں بھی جب قائد ایوان بول رہے ہوں تو اُنہیں احترام کے ساتھ سُنا جاناچاہئے اور اُن کی تقریر کے دوران شور و غوغا تو دور کی بات، مہذبانہ مداخلت بھی پسند نہیں کی جاتی،لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے اپنے اپنے ادوار میں اس روایت کو مستحکم نہیں ہونے دیا، سوال یہ نہیں کہ آج قائد ایوان کو نہیں سُنا جا رہا، ماضی میں بھی ایسا ہوتا رہا،اس وقت کی حزبِ اختلاف اگر اپنا یہ حق سمجھتی تھی کہ قائد ایوان بول رہے ہوں تو اُن کی تقریر میں مداخلت کی جائے، تو آج کی حزبِ اختلاف بھی وہی ”درخشاں روایات“ اپنائے گی، اِس لئے ضرورت اِس امر کی ہے کہ سپیکر قومی اسمبلی ایوان کے اندر ایسا ضابطہ ئ اخلاق طے کریں کہ قائد ایوان اور قائد حزبِ اختلاف کو یکساں احترام کے ساتھ سُنا جائے یہ ہو نہیں سکتا کہ قائد ایوان کی تقریر تو سُنی نہ جائے اور توقع یہ کی جائے کہ قائد حزبِ اختلاف کی تقریر میں مداخلت نہیں کی جائے گی،کئی دِن سے یہی ہو رہا تھا کہ قومی اسمبلی میں قائد حزبِ اختلاف میاں شہباز شریف کی بجٹ تقریر سُنی نہیں جا رہی تھی اور سرکاری ارکان اِس امر کا اہتمام کر رہے تھے کہ یہ تقریر نہ سُنی جائے، یہاں تک کہ یہ معاملہ حکمران اور اتحادی جماعتوں کی پارلیمانی پارٹیوں کے اجلاس میں بھی زیر بحث آیا، وہاں ایک رُکن نے تجویز پیش کی کہ قائد حزبِ اختلاف کو اپنی تقریر مکمل کرنے دی جائے تو اس کی ہوٹنگ شروع کر دی گئی۔اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اس معاملے میں جذبات کی کیفیت کیا ہے۔
اطمینان بخش بات یہ ہے کہ معتدل حضرات نے اس سلسلے میں مثبت اور کامیاب کردار ادا کیا ہے اور قومی اسمبلی میں شہباز شریف کی بجٹ تقریر بالآخر پوری سُن ہی لی گی ہے،غالباً اس طویل تقریر کا صلہ اب حکومت کو بجٹ منظوری میں تعاون کی شکل میں ملے گا یا پھر قائد ایوان کی تقریر میں بھی مداخلت نہیں ہوگی۔ اگر ایسا ہے تو یہ بُرا سودا نہیں ہے، انہی کوششوں کے نتیجے میں بالآخر آصف علی زرداری اور خواجہ سعد رفیق کو پروڈکشن آرڈر پر اسمبلی میں بھی لایا گیا ہے۔ اس سلسلے میں سپیکر نے اپنا اختیار استعمال کیا ہے تو یہ قابل ِ تعریف ہے، دونوں ارکان کے خلاف نیب کی تحقیقات اور مقدمات اپنی جگہ،لیکن ایک رکن اسمبلی کو اپنے حلقہ نیابت کی نمائندگی کرتے ہوئے اسمبلی میں آنے سے نہیں روکا جا سکتا اور سپیکر نے تاخیر ہی سے سہی پروڈکشن آرڈر جاری کر کے اچھا کیا ہے،جن حضرات کو سپیکر کی رائے سے اتفاق نہیں ہے وہ اسمبلی میں اپنا حق استعمال کر کے اپنی مخالفانہ رائے ریکارڈ پر لا سکتے ہیں،لیکن اس فیصلے پر وزیراعظم سمیت کسی بھی رُکن کو سیخ پا ہونے کی ضرورت نہیں۔
جناب چیف جسٹس نے اسمبلی میں ہلّے گُلّے کے مناظر کا ذکر کرتے ہوئے یہ بتانا ضروری سمجھا کہ اس ماحول میں عدلیہ سے اچھی خبریں آ رہی ہیں،آپ نے درست فرمایا کہ ماڈل کورٹس تیزی سے مقدمات نپٹا رہی ہیں۔انہوں نے ان عدالتوں کے ججوں کو چیتے کے قابل ِ احترام لفظ سے یاد کیا تاہم ماتحت عدالتوں کی جانب بھی اگر نظر عنایت کر لی جائے تو وہاں بھی معاملات میں بہتری آ سکتی ہے، چند ہفتے پہلے ایک عدالت کے جج کو مخالفانہ فیصلے پر وکیل نے کرسی دے ماری،جس سے اُن کا سر پھٹ گیا، وکیل کے خلاف مقدمے کے اندراج اور بعد ازاں گرفتاری اور سزا سنائے جانے پر وکلا نے احتجاج بھی کیا، اب اس وکیل کی ضمانت ہو گئی ہے اور فیصلے میں یہ موقف اختیار کیا گیا ہے کہ جرم قابل ِ ضمانت ہے، اِس لئے وکیل کی ضمانت ہو گئی۔ قانون ایسا ہی ہو گا اور قانون کے تحت ہی ضمانت ہوئی ہو گی،لیکن ایسے واقعات کی روک تھام کے لئے ضروری ہے کہ وکلا اول تو تحمل کا مظاہرہ کریں اور ایسے بدصورت واقعات کا اعادہ نہ کریں، دوسری صورت میں ضمانت سے حوصلہ پکڑ کر اگر کل کلاں کوئی دوسرا وکیل بھی ایسی ہی حرکت کر دے اور بعدازاں یہ موقف اپنائے کہ جرم کے بعد ضمانت تو ہو جائے گی تو پھر ایسے واقعات کی روک تھام کیسے ہو گی، امید ہے جناب چیف جسٹس ماتحت عدلیہ کی جانب بھی توجہ فرمائیں گے۔ اگر اچھی خبریں صرف عدلیہ سے آ رہی ہیں تو مزید اچھی خبریں بھی وہیں سے آنی چاہئیں۔