عوام کا مسئلہ ریفرنس نہیں روٹی ہے
جوہر ٹاؤن لاہور سے اُردو ادب کے سینئر استاد، محقق اور نقاد ڈاکٹر نجیب جمال نے اطلاع دی ہے کہ پہلی بار احساس ہو رہا ہے کہ کوئی لاک ڈاؤن کیا گیا ہے۔ ان کے بقول جس بلاک میں وہ رہتے ہیں اس کا رابطہ کسی بھی ذریعے سے مین سڑک تک جانے کے لئے مسدود کر دیا گیا ہے اور اب واقعی گھر میں رہنا مجبوری بن گیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے یہ پوسٹ تنگ آ کر نہیں لگائی بلکہ اطمینان کے طور پر لگائی ہے کہ اس طرح کے لاک ڈاؤن سے کورونا وائرس کو کنٹرول کرنے میں مدد ملے گی۔ تاہم جس بات سے وہ تنگ ہیں، وہ بار بار کی لوڈشیڈنگ ہے۔ لیسکو والے نجانے کیوں ایسے علاقوں کے مکینوں سے انتقام لے رہے ہیں، جنہیں لاک ڈاؤن کر کے گھروں تک محدود کر دیا گیا ہے مگر اس شدید گرمی میں ان کے پاس بجلی نہیں ہوتی، جس سے اکثر اوقات پانی کے مسائل بھی پیدا ہو جاتے ہیں ہمارے ہاں سب سے بڑی خرابی ہی یہ ہے کہ مختلف محکموں کے درمیان ہم آہنگی کا فقدان نظر آتا ہے۔ کیا جب لاہور کے 61 علاقوں میں لاک ڈاؤن لگانے کا فیصلہ ہوا تو اس فیصلے میں لیسکو کو شامل نہیں کرنا چاہئے تھا۔ تاکہ وہ ان علاقوں میں بجلی کی بلا تعطل فراہمی کو یقینی بناتے اور گھروں میں بیٹھ جانے والے لوگوں کو کم از کم گھر کے اندر تو سکون مل سکے۔ اول تو لوگوں کو یہ بات سمجھ نہیں آ رہی کہ اتنی شدید گرمی میں صوبے کے اندر ایسی کیا آفت آن پڑی ہے کہ بجلی کمپنیوں نے لوڈشیڈنگ بڑھا دی ہے۔ فیصل آباد اور ملتان سے بھی دوستوں نے دہائی دی ہے کہ 45 ڈگری سنٹی گریڈ درجہ حرارت کی موجودگی میں بجلی گھنٹوں چلی جاتی ہے۔ اب جبکہ سرکاری ادارے، سکولز و کالجز، کئی بازار و مارکیٹیں بند ہیں، آخر بجلی چلی کہاں گئی ہے۔ لوڈ شیڈنگ نہ کرنے کا کریڈٹ لینے والی حکومت کو کیا اس کی خبر نہیں ہے۔
عوام کو اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ جسٹس قاضی عیسیٰ فائز کے خلاف حکومتی ریفرنس پر سپریم کورٹ کا کیا فیصلہ آیا ہے۔ یہ باتیں بہت اونچے طبقے کی ہیں ملک کا 90 فیصد غریب و متوسط طبقہ تو صرف اپنے مسائل کا حل چاہتا ہے۔ اب سپریم کورٹ نے ریفرنس خارج کر دیا ہے تو اس سے عوام کا کون سا مسئلہ حل ہوا ہے۔ ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل کو بھیج دیا جاتا تو عام آدمی کو کیا فرق پڑنا تھا، جو آج کل کورونا کی وجہ سے حد درجہ مشکل زندگی گزار رہا ہے۔ وہ تو یہ چاہتا ہے حکومت صرف ان مسائل کو حل کرے جنہوں نے اس کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے۔ اسے آئینی موشگافیوں سے کوئی غرض ہے اور نہ اس بات سے کہ سپریم کورٹ نے قاضی عیسیٰ فائز کیس میں درست فیصلہ دیا ہے یا غلط، وہ تو جب دکان پر آٹا لینے جاتا ہے اور آٹھ سو روپے میں ملنے والا 20 کلو کا تھیلا اسے 13 سو روپے میں ملتا ہے تو اس کے ہوش ٹھکانے آ جاتے ہیں یہ تھیلا اسے آٹھ سو روپے میں ملنے لگے تو اسے یوں محسوس ہوگا کہ سارے فیصلے اس کے حق میں ہو گئے ہیں کل وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کا یہ بیان پڑھنے کو ملا کہ عوام کو مہنگائی مافیا کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑیں گے۔ آٹے اور چینی کی قیمتوں میں استحکام پیدا کیا جائے گا۔ ان کے اس بیان سے یوں لگا کہ جیسے وہ آٹے کی قیمت کم کرنا نہیں چاہتے بلکہ قیمت میں استحکام چاہتے ہیں چاہے وہ 13 سو روپے فی تھیلا ہی کیوں نہ ہو۔ عثمان بزدار ایک اچھے وزیر اعلیٰ ہیں، کم از کم گاہے بہ گاہے ایسے بیانات تو دیتے ہیں کہ جن سے عوام کے دکھوں کی کچھ اشک شوئی ہو سکے۔ ان کے بیانات پر عمل ہوتا ہے یا نہیں، اس بارے میں شاید وہ خود بھی غور نہیں کرتے، ان کا خیال یہ ہے کہ ان کی زبان سے نکلے ہوئے لفظوں کو بیورو کریسی چوم چاٹ کر آنکھوں سے لگاتی ہے حالانکہ وہ طاقِ نسیاں میں رکھ دیتی ہے۔ البتہ اس بار عثمان بزدار نے ایک قدم آگے جانے کی دھمکی دی ہے اور کہا ہے کہ وہ اچانک دورہ کر کے چیک کریں گے کہ اشیاء عوام کو مقررہ نرخوں پر مل رہی ہیں یا نہیں اس تکنیک کو بھی ہم نے فیل ہوتے دیکھا ہے۔ کیونکہ وزیر اعلیٰ ہو یا وزیر اعظم وہ اپنی مرضی سے ایک قدم نہیں اٹھا سکتے۔ انہوں نے اسی راستے پر چلنا ہوتا ہے جو انتظامیہ نے سیکیورٹی کلیئرنس کے بعد مقرر کیا ہوتا ہے اور وہ اسی بازار میں جا سکتے ہیں جہاں پہلے سے انہیں ماموں بنانے کے تمام تر انتظامات کئے گئے ہوتے ہیں۔
ایک طرف ہر گھنٹے میں کورونا سے پانچ مریض جاں بحق ہو رہے ہیں اور کیسوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے، دوسری طرف ایک مافیا ہے جس نے اس وبائی دور میں بھی دولت سمیٹنے کو اپنا جنون بنا رکھا ہے۔ خوف خدا اسے چھو کر نہیں گزرا۔ عقل حیران ہے کہ ابھی چند دن پہلے گندم کی نئی فصل آئی ہے۔ سرکاری گودام بھر گئے ہیں لوگوں نے اپنے لئے بھی ذخیرہ کرلی ہے۔ لیکن اس کے باوجود آٹے کا ریٹ آسمان پر پہنچا دیا گیا ہے۔ یہ کون لوگ ہیں جو اس وقت مسائل میں گھرے ہوئے عوام کے منہ سے آخری نوالہ تک چھین لینا چاہتے ہیں کیا ان کی پکڑ مشکل ہے، کیا حکومت انہیں لگام نہیں ڈال سکتی۔ کیا حکومت کی صفوں میں کچھ ایسے لوگ چھپے ہوئے ہیں جو مافیاز کے ایجنٹ ہیں اور کوئی ایسا قدم نہیں اٹھانے دیتے جن سے عوام کو کچھ ریلیف مل سکے چند دن پہلے وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی یہ ہدایت بھی سامنے آئی کہ پرائیویٹ ہسپتالوں میں کورونا مریضوں کے لواحقین کو لوٹ رہے ہیں اس کا خاتمہ ہو سکے۔ یہ ہدایت انہوں نے پرائمری ہیلتھ کیئر محکمے کو دی، اس پر کتنا عمل ہوا، کتنی فیسیں مقرر کی گئیں، کیا طریقہ کار وضع کیا گیا، اس بارے میں ابھی تک کوئی تفصیل سامنے نہیں آئی، تاہم یہ خبریں تواتر سے سامنے آ رہی ہیں کہ نجی ہسپتالوں میں کورونا مریضوں سے لاکھوں روپے وصول کئے جا رہے ہیں اور وہ بھی ایڈوانس وصول کر لئے جاتے ہیں۔
آج بیس دن ہو گئے ہیں پٹرول ابھی تک ملک کے اکثر علاقوں میں دستیاب نہیں اجلاس پر اجلاس ہوئے، بڑی بڑی باتیں سننے کو ملیں، ایک رپورٹ بنی تو وزیر اعظم نے حکم جاری کیا کہ ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی جائے اور جن کمپنیوں نے جان بوجھ کر قلت پیدا کی ان کے لائسنس منسوخ کر دیئے جائیں جس پر خود وزارت پٹرولیم کے ہاتھ پاؤں پھول گئے کیونکہ لائسنس منسوخ کرنے کی صورت میں ان کمپنیوں کے ہزاروں پٹرول پمپ بند ہو جائیں گے، جن پر لوگوں نے اربوں روپے کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ اتنی بڑی تعداد میں پٹرول پمپ بند ہوئے تو تیل کی ترسیل ویسے ہی ممکن نہیں رہے گی۔ جس سے ایک نیا بحران پیدا ہو جائے گا۔ سو لگتا ہے کہ یہ معاملہ بھی وقت کی گرد میں دب جائے گا۔ مگر سوال یہ ہے کہ پٹرول کی سپلائی کیسے بحال ہو گی۔ اب جن کمپنیوں کے سر پر لائسنس منسوخ ہونے کی تلوار لٹک رہی ہے، وہ پٹرول کیسے درآمد کر سکتی ہیں آخر اس ملک میں معاملات کو اتنا طول دیا کیوں دیا جاتا ہے۔ بر وقت فیصلے کیوں نہیں کئے جاتے۔ اب سنا ہے اوگرا کی سفارش پر حکومت ایک بار پھر تیل مزید سستا کرنے جا رہی ہے عام طور پر یہ سن کر لوگوں میں خوشی کی لہر دوڑ جاتی تھی لیکن اب وہ مزید خوفزدہ ہو گئے ہیں پہلے پٹرول پچھتر روپے لیٹر کیا گیا تو 150 روپے لٹر لینا پڑا۔ اب تو وہ صرف یہ التجا کر رہے ہیں حضور پٹرول کی قیمت بے شک کم نہ کریں اس کی دستیابی یقینی بنا دیں۔ اب کوئی بتائے کہ ایسے مسائل میں اُلجھے ہوئے عوام کو قاضی عیسیٰ فائز ریفرنس کے فیصلے میں کیا دلچسپی ہو سکتی ہے۔