آن لائن ٹیچنگ اور تازہ خربوزے
کہتے ہیں خربوزہ خربوزے کو دیکھ کر رنگ پکڑتا ہے۔ بات آسان سہی، لیکن انسانی دنیا میں کئی موقعوں پر آپ کی ’خربوزیت‘ رنگ پکڑتے پکڑتے عین وقت پہ جواب بھی دے جاتی ہے۔ والد مرحوم کے دوست اور منفرد موسیقار خادم حسین کا معاملہ مختلف تھا کہ انہیں کشمیری سیب سونگھتے ہی مشرقی پنجاب کا آبائی شہر یاد آ جایا کرتا۔ ایک سہ پہر انہیں سیب کاٹتے دیکھ کر اِس تعلق کی وجہ پوچھی تو فرمایا:”اوئے، اِینھاں سیباں دا ذائقہ جالندھر دے خربوزیاں ورگا اے“۔ خادم صاحب چیزوں میں مشابہتیں تلاش کرنے کے ماہر تھے۔ پر میرے اندر کا خربوزہ کشمیری سیب کو دیکھ کر جالندھر کا رنگ نہیں پکڑ تا۔ اُسے رنگ پکڑنے کے لئے سیب نہیں، خربوزہ ہی چاہیے۔ ہاں، نِت نئی پیوند کاریوں نے جو ورائٹیاں پیدا کی ہیں وہ سمجھنے نہیں دیتیِں کہ رنگ پکڑنے کے لئے کونسے خربوزے کی پیروی بہتر رہے گی۔
پرسوں کورونا رُت کے پہلے ’فادرز ڈے‘ پر خیال آیا کہ مَیں نے اپنے ابا کا رنگ پکڑنے کی پہلی ٹرائی نصف عمر کو پہنچ کر کی اور منہ کی کھائی۔ ابا سفر سے واپسی پر ہمیشہ تحفے تحائف، مٹھائی کے ڈبے اور پھلوں کی ٹوکری سے لدے پھندے گھر کی دہلیز پار کرتے تھے۔ مَیں بھی اسد بیٹے کی پیدائش پر لندن کے وکٹوریہ میٹرنٹی ہوم میں زچہ بچہ کو دیکھنے کے لئے نکلا۔ خوشی خوشی ہائی اسٹریٹ سے ایک کھلونا خرید کر نوزائیدہ بچوں کے وارڈ میں داخل ہوا ہی تھا کہ مجھے دیکھتے ہی نرسوں کے ایک غول کی چیخ بلند ہوئی۔ ساتھ ہی لیڈی ڈاکٹر کی آواز ”او مائی گاڈ“۔ لگتا تھا کوئی گڑبڑ ہوگئی ہے۔ گھبرا کر اسپتال کے پلنگ پہ لیٹی ہوئی بیوی کی طرف دیکھا۔ ”یہ تو لڑکیوں والی گُڑیا لے آئے آپ؟“ ”تو کیا مجھے گڑیا کی صنفِ سخن چیک کرنی چاہیے تھی؟“ ”ارے بھئی، لڑکوں کے کھلونے گلابی نہیں، نیلے ہوتے ہیں“۔
نیلے اور گلابی کا یہ تضاد طویل وقفے سے کورونا آئسولیشن کی بدولت پچھلے تین ماہ میں اَور نمایاں ہوا ہے۔ یہی انکشاف لے لیں کہ نیلے رنگ کے کھلونوں کو چھینکیں فراوانی سے آتی ہیں اور گلابی گڑیاوئں کو جمائیاں۔ طبی معلومات کی روشنی میں چھینکیں زیادہ خطرناک ہو سکتی ہیں کہ اِن کے سیال ذروں میں امکانی طور پہ کورونا وائرس جا گزیں ہوتا ہے۔ پھر چھینک بھی میرے خاندان کی طرح حیدری قسم کی، جس سے سہ منزلہ مکان کے در و دیوار ہِل جائیں۔ بہرحال، اگر کوئی نیلے کھلونوں کے خلاف اور گلابی گڑیاوئں کے حق میں آجکل کے مروجہ موقف کا سہارا لینا چاہے، تو مَیں یہی کہوں گا کہ اُس نے کشمیری سیبوں میں جالندھری خربوزے تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔ وگرنہ ماڈرن وکیلوں کی طرح تھوڑی سی فیس لے کر نفسیاتی اور جمالیاتی پہلوؤں سے چھینکوں کے خلاف بھی دلائل جمع تو کئے جا سکتے ہیں۔
جیسے یہی کہ عام تاثر کے برعکس چھینکنے کی طرح جمائی لینا بھی ایک متعدی حرکت ہے۔ ایک ایسا نامحسوس عمل جو چھ چھ فُٹ کے فاصلے سے بھی ایک کے بعد دوسرے شخص پر تیزی سے حملہ کرتا ہے۔ پھر یہ بھی کہ دوسرے کی جمائی کو دیکھ کر آپ کی طبیعت میں یاس انگیزی پیدا ہوتی ہے۔ یاس سے زیادہ وہ عجیب و غریب درمیانی سی کیفیت جس کے بارے میں شعیب بن عزیز نے ایک دن فون کر کے پوچھا تھا کہ یار، یہ کورونا کا خوف ہے یا بڑھاپے کے ابتدائی اثرات۔ ”کیا مطلب؟“ ”مطلب یہی کہ ہماری ایک تسلسل کے ساتھ سوچتے جانے کی عادت اور پھر کسی نکتے پہ پہنچ کر خوامخواہ منطقی نتیجہ نکالنے کی کوشش“۔ ”تو پھر، شعیب صاحب، کرنا کیا چاہیے؟“ ”یار، یہی تو سوچ رہا ہوں مگر ابھی نتیجہ نہیں نکلا۔ ہاہاہا“۔ مَیں نے قہقہے کی آڑ میں فون بند کر دیا تاکہ فریقین کی عزت رہ جائے۔
ویسے تمدنی اور نفسیاتی بحثوں سے بچ بچا کر ہر کسی کی عزت بچا لینے کا سب سے کارآمد نسخہ کوئی پانچ سال ہوئے اسد ملک نے سمجھایا تھا۔ وہی جن کی پیدائش پہ نیلے اور گلابی کھلونوں کا فرق مجھ پہ پہلی بار کھُلا۔ بیرونی یونیورسٹی سے اسد کی چھٹیوں کے دوران لاہور والے گھر کے ٹیرس پر ایک شام ہم دونوں اپنے ’بڑوں‘ سے چھُپ کر سگار پی رہے تھے۔ ارشاد ہوا: ”میرا تو سبجیکٹ ہی سائبرنیٹکس ہے، لیکن کمپیوٹر کی ورکنگ نے ہر ایک کے لئے انسانی دماغ کے کام کو سمجھنا کافی آسان بنا دیا ہے“۔ کہا ”بظاہر تو ایسا ہی ہے، لیکن کمپیوٹر میں مائیکرو چِپ لگے ہوتے ہیں جو با برین سیل جیسے تو نہیں ہو سکتے“۔ ”مَیں ہارڈ وئیر کی نہیں، سوفٹ وئیر کی بات کر رہا ہوں۔ آپ نے ایک سوفٹ وئیر ڈالا، پروگرام شروع ہو گیا۔ نکال کے دوسرا ڈال لیا، دوسرا پروگرام شروع ہو گیا۔ یہی حساب دماغ کا ہے“۔
اسد صاحب تو چھوٹی سی بات بتا کر یونیورسٹی آف ریڈنگ واپس چلے گئے۔ البتہ مجھے لگا کہ میرا ورلڈ ویو تبدیل ہو گیا ہے۔ تھوڑا سا ڈر بھی محسوس ہوا کہ مولا، سوفٹ وئیر بدلنے میں کچھ ذہنی سہولت کا امکان ہے تو سہی، لیکن یہ نہ ہو کہ نیا پروگرام ڈلوانے کے چکر میں قدروں کا سارا نظام ہی ’ٹونٹی ٹونٹی‘ ہو جائے۔ میری دعا اب سے سو سال پہلے اُس کسان کی خواہش کی طرح پوری ہوئی جسے چلتے چلتے چاندی کا روپیہ راستے میں پڑا مِل گیا تھا۔ کسان کی سوچ پہلے ہی یہ تھی کہ جب کبھی ایسا ہوا تو ایک چوتھائی خدا کی راہ میں دے دوں گا۔ اب روپیہ لے کر جوہری کے پاس گیا تو اُس نے کہا کہ سکہ کھوٹا ہے، اِس کے عوض سولہ کی بجائے بارہ آنے ملیں گے۔ کسان نے ہاتھ اوپر اٹھائے او ر کہا: ”یا اللہ، تیری قدرت کے قربان جاؤں۔ میری دعا بھی سُن لی اور اپنی چونی بھی وصول کر لی“۔
مجھے میری چونی کورونا رُت میں قیدِ تنہائی کی بدولت وصول ہوئی جب ایک شام یونیورسٹی سے پیغام ملا کہ کل صبح آپ کو آن لائن تدریس کی ٹریننگ دی جائے گی۔ کمپیوٹر سائنس کے لوگ ہوتے تو ذہین ہیں، لیکن عام طور پہ سماجی سچائیوں سے بے خبر۔ اِس لئے یہ بتانا بھول ہی گئے کہ زُوم کے نام سے یہ نیا سوفٹ وئیر استعمال کے لئے ہر سیشن میں علیحدہ آئی ڈی اور الگ پاس ورڈ کی شرط ہے۔ پھر یہ بھی کہ آپ میزبان یا ہوسٹ بن کر امکانی شرکا کی سیشن میں حصہ داری کی خاطر یہ تازہ کوائف زُوم کی بجائے کسی اور ذریعے سے اُنہیں ارسال کرتے ہیں۔ مراد ہے ایس ایم ایس، واٹس ایپ گروپ یا سوشل میڈیا کا کوئی اور وسیلہ۔ اب یہ اسٹوڈنٹ کا کام ہے کہ وہ اپنی ٹیبلٹ، لیپ ٹاپ یا سمارٹ فون پہ آپ کی بتائی ہوئی آئی ڈی اور پاس ورڈ درج کرے اور اعلی تعلیم کا سلسلہ شروع ہو جائے۔
خیر، یہ معلومات، جو نجی اور سرکاری یونیورسٹی کے تربیت کار فراہم نہ کر سکے، مجھے گھر کی ولایت پاس استانی سے مِل گئیں۔ یہ تکنیک بھی کہ استاد جب چاہے سب کے مائیکرو فون بند کر دے یا دیر سے آنے والوں کو ’ویٹنگ روم‘ میں بٹھائے رکھے۔ اِس کا فائدہ؟ جواب ملا ”آپ کو نہیں پتا، آجکل کے لڑکے لڑکیاں زُوم پہ شرارتیں کرتے ہیں جن سے سیریس اسٹوڈنٹس کا نقصان ہوتا ہے“۔ خود میرے ساتھ کوئی سنگین حرکت تو نہیں ہوئی۔ صرف ایک دفعہ کسی کے خراٹوں کی آواز آئی، دوسری مرتبہ عارف لوہار کا لوک گیِت سُننے کو ملا، اِس کے علاوہ چھوٹا سا اقتباس ایک سرائیکی ذاکر کا جو بہت سُر میں تھے۔ ایک اضافی فائدہ تحریری مشقیں ہیں جو ایک تواتر سے ای میل کے توسط سے مجھے پہنچتی رہیں اور تصحیح کے عمل میں مصروف ہو کر یہ گلہ جاتا رہا کہ سیلف آئسولیشن میں ہمارا وقت نہیں گزرتا۔
پوچھنے والے پوچھیں گے کہ شاہد میاں، کورونا وائرس کے موسم میں کیا تم نے کِس خربوزے کا رنگ پکڑنے کی کوشش کی اور اُس کے رنگ میں کِس حد تک رنگے گئے۔ مَیں صدقِ دل سے اعتراف کروں گا کہ ِاس دفعہ کا تجربہ ماضی کی ڈگر سے بالکل ہٹ کر ہے۔ اب مجھے کشمیری سیب یا جالندھر کے خربوزوں کی ضرورت نہیں رہی۔ آن لائن تدریس ٹی وی پروڈکشن کی اصطلاح میں محض سنگل کیمرہ شُوٹ ہے جس میں تصویر کا اینگل یا سائز بدلنے کی گنجائش کم ہوتی ہے۔ مگر، جناب، ہمارے زُوم سیشن کوئی معمولی ٹرانسمیشن نہیں۔ یہ اعلی تعلیم کا معاملہ ہے، جس میں مثالی خربوزہ اُستاد ہی ہوتا ہے اور شاگرد اُسے دیکھ دیکھ کر اُسی کا رنگ پکڑتے ہیں۔ فی الحال آثار بُرے نہیں۔ لیکن کیا خبر، جب سارے خربوزے رنگ پکڑ لیں تو آرڈر آ جائے کہ رُک جاؤ، اب یہ سوفٹ وئیر پھر تبدیل ہو گیا ہے۔