جسٹس قاضی فائز کے اہلخانہ ریفرنس میں فریق نہ تھے، معاملہ ایف بی آر کو بجھوانا ناانصافی: قانونی ماہرین

جسٹس قاضی فائز کے اہلخانہ ریفرنس میں فریق نہ تھے، معاملہ ایف بی آر کو ...

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


لاہور(نامہ نگارخصوصی)جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس میں درخواست گزاروں کی طرف سے نظر ثانی کی درخواستیں دائر کرنے کے لئے سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے کا انتظار کیاجارہاہے،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل منیر اے ملک کا کہناہے کہ عدالت کے تفصیلی فیصلے کا انتظارہے،تفصیلی فیصلے سے قبل کوئی تبصرہ کرنامناسب نہیں،اس کیس میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے وکیل حامد خان نے نظر ثانی کی درخواست دائر کرنے کے حوالے سے روزنامہ پاکستان کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ نے بادی النظر میں غیر ضروری طور پر سپریم جوڈیشل کونسل کو دوبارہ اس معاملے میں "انوالو "کیا ہے،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ کے اثاثوں کا معاملہ ایف بی آر کو بھیجنے کی حد تک تو فیصلہ مناسب ہے لیکن سپریم کورٹ کچھ زیادہ ہی تفصیل میں چلی گئی ہے،سپریم جوڈیشل کونسل کے سامنے جو ریفرنس تھا وہ کالعدم ہوگیاہے،اس کے بعد ایف بی آر کی رپورٹ کی بنیاد پر دوبارہ معاملہ سپریم جوڈیشل کونسل کو کیوں بھیجا گیا،اس کی وجوہات کا پتہ تفصیلی فیصلے سے ہی چلے گا،مختصر فیصلے میں کئی سوچنے والی باتیں اور نکات ہیں،تفصیلی فیصلہ آنے کے بعد اگلا لائحہ عمل طے کیاجائے گا۔پاکستان بارکونسل کے وائس چیئرمین عابد ساقی نے اس حوالے سے روزنامہ پاکستان کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں تضاد ہے۔ ایک طرف تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس کالعدم کردیاگیا دوسری طرف ان کی بیوی بچوں کی جائیدادوں کا معاملہ ایف بی آر کو بھیج دیاگیا،ان کے بیوی بچے تو اس کیس میں فریق ہی نہیں تھے،یہ ناانصافی کا تسلسل ہے جو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ساتھ روا رکھی جارہی ہے،جو کام سپریم کورٹ کے 10جج نہیں کرسکے وہ ایف بی آر کے 19ویں گریڈ کا ایک افسر کیسے کرسکتاہے،انہوں نے کہا کہ ایف بی آر حکومت کا ادارہ ہے،اس پر حکومت کے دباؤ کی وجہ سے شفاف تحقیقات ممکن نظر نہیں آرہی ہیں،سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سیکرٹری شمیم الرحمن ملک نے پاکستان سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ بار نے ابھی تک نظر ثانی کی درخواست دائر کرنے کے حوالے سے کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا،تفصیلی فیصلہ آنے کے بعد سینئر وکلاء کی مشاورت سے ضرورت سمجھی گئی تو نظر ثانی کی درخواست دائر کی جائے گی۔
قانونی ماہرین